ملک کو ’’سیاسی بحران‘‘ سے نکالنا کسی ایک فریق کے بس میں نہیں
پاکستان میں پچھلے چند ماہ سے آرمی چیف کی تقرری ایک بڑا سیاسی موضوع تھا۔ میڈیا سمیت ہر فریق نے اس پر بہت زیادہ سیاست بھی کی اور افواہوں کا بازار بھی گرم رکھا۔ افواہ سازی کے اس کھیل میں ریاست، حکومت اور ملک کو جس قدر نقصان کا سامنا کرنا پڑا شاید ہمیں اس کا پوری طرح ادراک نہیں۔ اس تقرری نے عملی طور پر ثابت کیا کہ پاکستان میں جمہوریت نہ صرف کمزور ہے بلکہ مختلف سہاروں بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کی نظریں اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتی نظر آئیں۔ بہرحال آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ حل ہوگیا اور جس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا کہ کہیں ان کی تقرری کو متنازع نہ بنادیا جائے، یہ خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔ عمران خان نے بھی اس تقرری پر اگر زیادہ گرم جوشی نہیں دکھائی تو اس پر انہوں نے کوئی منفی ردِ عمل بھی نہیں ظاہر کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پسِ پردہ حکومت، حزبِ اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو بات چیت چل رہی تھی اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ آرمی چیف جو بھی آئے اس معاملے کو کوئی فریق سیاسی رنگ نہیں دے گا، اور نہ ہی اسے کسی بڑے مسئلے کے طور پر پیش کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں عمران خان سمیت سب کی جانب سے اس پر اتفاقِ رائے نظر آیا، اورکسی نے بھی وہ کھیل نہیں کھیلا جس کا ذکر میڈیا یا سوشل میڈیا میں کیا جارہا تھا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے بعد ملک میں جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہوجائے گا، یا اس کی شدت میں کمی ہوجائے گی۔ اوّل تو یہ بحران سیاسی نہیں ہے، کیونکہ یہ محض سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں، بلکہ ہمیں اس کی خطرناک شکل ریاستی اور سیاسی بحران کے تناظر میں نظر آتی ہے۔ جہاں سیاسی فریق سیاسی قوتوں کے ساتھ محاذ آرا ہیں، وہیں ہمیں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان تنازع نظر آتا ہے۔ کیونکہ عمران خان کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں اصل کردار عالمی اسٹیبلشمنٹ اور داخلی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ عمران خان کے اس بیانیے میں وزن ہے، کیونکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ یہاں جب بھی سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوتا ہے اس کے پس پشت اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل یا پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ مریم نواز نے تحریک عدم اعتماد سے قبل ایک بار بولا تھا کہ یہاں تحریک عدم اعتماد اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہے جب اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اس کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ فوجی قیادت اور عمران خان کے درمیان جو محاذ آرائی موجود ہے اس کی شدت میں کس حد تک کمی آسکے گی۔ کیونکہ اس وقت خود اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ اُس کے حوالے سے جو سوالات ہیں یا اُس پر جو شدید تنقید ہورہی ہے چاہے وہ جائز ہے یا ناجائز… اسے کس طرح کم کیا جائے؟ کیونکہ جنرل باجوہ کے بقول ہم ادارہ جاتی طور پر یہ طے کرچکے ہیں کہ اب ہم سیاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، یہ اچھی بات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہوسکے گا؟ اورکیا ہم عملی طور پر سیاسی عمل میں مداخلتوں کاکھیل ختم ہوتا ہوا دیکھ سکیں گے؟ نئی عسکری قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ کس حد تک خود کو سیاسی معاملات سے عملاً علیحدہ رکھ سکے گی۔ اِس وقت جو سیاسی ماحول ہے اُس میں جہاں محاذ آرائی یا ٹکرائو ہے، وہیں ایک بڑا مسئلہ گہری سیاسی تقسیم ہے جس نے پوری قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ اس ہیجانی کیفیت سے نکلنے کا علاج سیاسی جماعتوں ہی کو تلاش کرنا ہوگا، اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ کیونکہ یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا، اس میں سب فریقوں کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کس حد تک اپنے آپ کو سیاسی طور پر علیحدہ رکھ سکے گی اس کا جواب ہمیں آنے والے انتخابات میں ملے گا۔ انتخابات کی شفافیت کا نکتہ اہم ہے جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ وہ کس حد تک خود کو نیوٹرل رکھتی ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کا سوال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خود کو انتخابات، نتائج اور نئی حکومت کی تشکیل سے کیسے باہر رکھ سکے گی؟ اورکیا واقعی یہ ممکن ہوبھی سکے گا۔
دوسری جانب ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ ملک میں فوری انتخابات یا مقررہ وقت پر انتخابات کے معاملے پر بھی سیاسی تقسیم موجود ہے۔ عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں، جبکہ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں عمران خان کے سامنے سیاسی طور پر سرنڈر نہیں کریں گے اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ عمران خان کا لانگ مارچ ختم ہوگیا ہے اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کے پاس سیاسی آپشن ختم ہوگئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کے پاس اب واحد آپشن یہی ہے کہ وہ کسی بھی طور پر پارلیمنٹ میں جانے کا راستہ تلاش کریں اور خود کو سیاسی تنہائی سے بچائیں۔ لیکن عمران خان نے پنڈی کے جلسے میں ایک بار پھر اپنے سیاسی مخالفین کو پریشان کردیا ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی نظام حکومت کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کریں گے اور اب وہ پنجاب، خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے یا وہاں سے اپنی حکومتوں کو چھوڑنے یا استعفے دینے کا فیصلہ کررہے ہیں، اور سندھ اوربلوچستان اسمبلی سے بھی ان کے ارکان استعفے دے دیں گے۔ ان کے بقول فوری انتخابات کے لیے ان کی یہ حکمت عملی کارگر ہوگی اور حکومت کے پاس فوری انتخابات کے حوالے سے کوئی آپشن نہیں رہے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی اس آپشن کو اختیار نہیں کریں گے اور وہ حکومت توڑنے پر رضامند نہیں ہوں گے، لیکن چودھری پرویزالٰہی اور مونس الٰہی نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ عمران خان کے فیصلوں کے پابند ہیں، اور اگر تحریک انصاف نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کیا تو وہ اس فیصلے میں عمران خان کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے۔ دوسری طرف حکومتی ایوانوں میں عمران خان کے اس فیصلے کے بعد سیاسی طور پر کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ کیونکہ اگر واقعی عمران خان نے پنجاب اورخیبر پختون خوا اسمبلیوں کو توڑنے اور حکومتیں ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اس کے بعد عام انتخابات کے لیے دبائو بڑھ سکتا ہے، کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا عمران خان اپنے فیصلے پر قائم رہیں گے یا پھر کوئی نیا سیاسی یوٹرن لیں گے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان یہ فیصلہ کسی سیاسی تنہائی میں لیں گے، یا ان کو کسی بھی سطح سے کوئی سگنل دیا گیا ہے کہ اگر وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں تو عام انتخابات ممکن ہوجائیں گے۔کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول فیصلہ اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ ہمیں بہرحال اب بحران کے حل کے لیے نئے انتخابات کا ہی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایک بات طے ہے کہ جو لوگ بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ حالیہ بحران کو اکتوبر 2023ء تک لے کر چل سکتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔کیونکہ مسئلہ سیاسی بحران ہی نہیں، بلکہ یہ بحران معاشی طور پر بھی ملک کے لیے سودمند نہیں ہوگا۔ لیکن حکمران جماعت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے موجودہ حالات میں اگلے چند ماہ میں نئے انتخابات اُس کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوں گے اور عمران خان کو فوری انتخابات کا فائدہ ہوگا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بقول جب تک ہم معاشی سطح پر ایسے فیصلے نہیں کرلیتے جو عوام کو فائدہ دے سکیں، انتخابات ممکن نہیں ہوںگے۔ اب وزیر داخلہ نے یہ نیا سیاسی شوشا چھوڑا ہے کہ انتخابات چھے ماہ کے لیے آگے بھی بڑھائے جاسکتے ہیں۔ یعنی یہ بات طے ہے کہ نئے انتخابات حکومت کے حق میں نہیں۔ حکمران اتحاد نے اس حالیہ بحران میں پنجاب کی باگ ڈور آصف علی زرداری کو دے دی ہے کہ وہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی مہم جوئی کو روکیں اور چودھری پرویزالٰہی کو رام کریں کہ وہ خود کو عمران خان کی سیاست سے علاوہ ہو جائیں۔ حکمران اتحاد پنجاب میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا گورنر راج لگانے کی باتیں بھی کررہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت خوف زدہ ہے۔
پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کے اہم اجلاس میں قائدین نے پارٹی سربراہ کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ پنجاب او ر خیبرپختون خوا کے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں، ہمیں قبول ہوگا ۔ مگر اجلاس میں پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے بجائے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہمیں اگر کچھ کرنا ہی ہے تو پھر ہم کو اسمبلیوں کو تحلیل کرنا چاہیے تاکہ ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوسکے ۔ اس کے برعکس الیکشن کمیشن نے اعلان کیاہے کہ اگر پی ٹی آئی نے دو صوبوں کی اسمبلیوں کو تحلیل کیا تو صرف ان صوبوں میں ہی نئے انتخابات ہوں گے اور مرکز پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ، جبکہ اگر استعفوں کی نوبت آتی ہے تو ضمنی انتخابات کروائے جائیں گے ۔
اس سے ہٹ کر ایک بات یہ بھی سمجھنی ہوگی کہ عام انتخابات اگر فوری طور پر نہیں ہوتے تو پھر تین طرح کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا:
(1) سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا، اور اس میں جو شدت آئے گی وہ سیاسی ماحول کشیدہ رکھے گی۔
(2) ملک کی معاشی صورت حال اور زیادہ گمبھیر ہوگی۔
(3) عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا ٹکرائو بھی ختم نہیں ہوگا، اور ملک بدستور سیاسی بحران کا شکار رہے گا۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جو سیاسی جنگ شروع ہوگئی ہے… جس میں عمران خان دو صوبائی حکومتوں یا صوبائی اسمبلیوں کو ختم کرنے، اور حکومت ان دو صوبائی اسمبلیوں کو پچانے کی فکر میں ہیں … اس میں کون سا فریق کس پر برتری حاصل کرتا ہے۔ حکومت کی مشکل جہاں سیاسی بحران یا عمران خان ہیں، وہیں ملک کے معاشی حالات میں بہتری کا کوئی امکان پیدا نہ ہونا بھی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ کیونکہ ہم اس وقت عملاً معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے خطرے کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور ہمارے پاس خود کو اس سے بچانے کے لیے وقت بھی بہت کم ہے۔ عالمی برادری سمیت عالمی مالیاتی ادارے بھی اس غیر یقینی صورت حال میں ہم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے پاکستان کو کسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کرنے کی ضرورت نہیں۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا حزبِ اختلاف… سب کو مل بیٹھ کر ہی ملک کے حالیہ بحران کا حل نکالنا ہے۔ یہ کام کسی ایک فریق کے بس میں نہیں، اور نہ ہی کوئی ایک لیڈر اس بحران سے انفرادی طور پر نمٹ سکے گا۔لیکن یہ الیکشن کا سال ہے، اس لیے سیاسی فریقین میں اتفاقِ رائے کم اور سیاسی بحران یا سیاسی محاذ آرائی پر مبنی انتشار کی کیفیت زیادہ نمایاں ہوگی۔