انگریزی تعلیم اور اسلامی لٹریچر

پاکستان ٹائمز میں دوبارہ آیا تو حالات بدل چکے تھے۔ 1947ء کے حالات سے قطعی مختلف۔ وہ وقت ایسا تھا جب قوم ایک نئے ولولے سے سرشار تھی۔ پیرو جواں تازہ بستیاں آباد کرنے کا ولولہ رکھتے تھے۔ صحافت ایک طاقت تھی اور خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پروان چڑھے گی، اخباروں میں تازہ روایات کی بنیاد رکھی جائے گی۔ لیکن اخبار اور سیاست میں جو ازلی لگائو ہے اس کی بنا پر دونوں نے ایک دوسرے کو متاثر کیا۔ سیاست بگڑی تو اخبار دھڑے بندیوں میں بٹ گئے۔ اخبار نویس خود سیاست دان بن گئے، اور یوں بے لاگ صحافت پنپنے سے پیشتر ہی مرجھا گئی۔ جس پاکستان ٹائمز میں اب آکے قدم رکھا وہ ایک بے جان ادارہ ہوکے رہ گیا تھا۔ اخبار اگرچہ فنی اعتبار سے بہت سدھر چکا تھا، روپے کی ریل پیل تھی، اشاعت کئی گنا بڑھ چکی تھی اور متنوع مضامین کی اس میں بہتات تھی، تاہم وہ کاغذوں کا ایک بے روح پلندہ تھا۔ عنانِ قیادت ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے ہاتھ میں تھی جس کی ذاتی شرافت اور بلند نسبتی نے اُسے بے حد ہردلعزیز بنا رکھا تھا۔ سرفراز بڑی سمجھ بوجھ کے انسان تھے۔ خوش گفتار و نیک اطوار۔ جتنا عرصہ ہمارا اُن کا ساتھ رہا وہ ہمیں ہمیشہ کے لیے اُن کا گرویدہ کرگیا۔ زندگی میں اس مٹھاس کے لوگ کم ملتے ہیں، لیکن اُن کی افسرانہ ذمے داریاں ایسی تھیں جو اعلیٰ صحافت کے منافی تھیں۔ سرکار سے اختلاف نئے حالات میں ناممکن تھا، اور اگر کہیں کوئی بات دب دبا کے کہہ بھی دی تو پھر نگاہ بے شمار جبینوں کی جانب اٹھتی کہ کہاں کہاں شکنیں پڑی ہیں۔ سیاست اخبار کے صفحوں سے رخصت ہوچکی تھی اور اخبار مرتب کرنے والے صحافی اس صورت حال سے مطابقت کرچکے تھے۔

اخبار میں میرے ذمے ’’دی ورلڈ آف اسلام‘‘ کی ترتیب و اشاعت تھی۔ دو صفحوں پر مشتمل یہ مختصر سا ضمیمہ ہر جمعہ کو شائع ہوتا۔ پاکستان ٹائمز کے لیے اس نوعیت کا ضمیمہ بڑی اچنبھے کی شے تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کراچی ڈان سے رخصت پر لاہور آیا تو احباب سے ملنے کے لیے پاکستان ٹائمز کے دفتر گیا۔ لوٹ رہا تھا کہ ایک گمبھیر سی آواز گونجی ’’السلام علیکم‘‘۔ دیکھا تو حسرت صاحب تھے (مولانا چراغ حسن حسرت۔ مرتب)۔ کہنے لگے: ’’آپ کے جانے پر خوشی بھی ہے اور افسوس بھی۔ افسوس اس بات پر کہ آپ چلے گئے۔ خوشی اس بات کی کہ اچھی جگہ چلے گئے ورنہ یہاں تو اللہ، رسولؐ کا نام لینا جرم ہے!‘‘

عید، بقرعید پر مضامین ضرور چھپتے لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھتی۔ چنانچہ پاکستان ٹائمز کے قارئین نے اس اضافے کو پسند کیا۔ مضامین لکھنے والے ایسے بزرگ مل گئے جنہوں نے بڑی محنت سے اس ضمیمے کی پرورش کی۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد ہمیں اس کے بارے میں حوصلہ افزا آرا ملنے لگیں۔ جو چیز بالخصوص توجہ اور عقیدت کا باعث بنی وہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری کی شہرئہ آفاق کتاب ’’رحمتہ للعالمینؐ‘‘ کا بالاقساط ترجمہ تھا جسے انجام دینے کی سعادت راقم الحروف کو حاصل ہوئی۔ حضورؐ کی ارفع اور سادہ زندگی بہت سے قارئین کے مطالعے میں پہلی بار آئی۔ چنانچہ ایک دن مجھے مشرقی پاکستان کے ایک جواں سال مجسٹریٹ کا خط ملا۔ اُس نے لکھا تھا کہ اتفاق سے آپ کا پرچہ میری نظر سے گزرا۔ رحمتہ للعالمینؐ کی قسط پڑھی تو مجھ پر وا ہوا کہ ہمارے نبیؐ کتنے عظیم کریکٹر کے حامل تھے۔ میں نے ازراہِ تجسس اس تاریخ کا فائل دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس نوجوان کو اس واقعے نے متاثر کیا ہے جو کتب سیرۃ میں یوں بیان کیا ہوا ہے کہ ایک بار ایک بدوی حضورؐ سے ملنے کے لیے آیا۔ بارگاہِ نبویؐ میں آتے ہی رعبِ نبوت سے کانپنے لگا تو آپؐ نے اس کی تشفی فرماتے ہوئے کہاکہ ’’ڈرو نہیں، میں تو قریش کی ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی‘‘۔ اس جوان نے پورے پرچوں کی خواہش کی۔

ایک ایسے ہی عقیدت مند اور آئے۔ کہنے لگے: بی اے میں پڑھتا ہوں اور جو کتاب آپ بالاقساط چھاپ رہے ہیں اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں نے کتاب میز کی دراز میں سے نکالی اور ان کے سامنے رکھ دی اور کہاکہ میرے پاس تو صرف ایک ہی نسخہ ہے۔ کہنے لگے: مجھے افسوس ہے کہ مجھے اردو پڑھنا نہیں آتی۔ میری تمام تعلیم انگریزی میں ہوئی ہے۔ مجھے اب معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلامؐ کتنے عظیم انسان تھے۔

میں نے دو ایک انگریزی کتابیں پڑھنے کو کہا۔ چلا گیا تو مجھے اس نوجوان سے جتنا انس پیدا ہوگیا تھا اس پر اتنا ہی رحم آیا کہ صرف ایک ہی زبان اور وہ بھی بدیشی زبان میں تعلیم ہونے کی وجہ سے کتنے نوجوان ان سوتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں جنہوں نے نہ صرف اسلام کی کھیتی کو سیراب کیا بلکہ جو انسان کی ہر کشت ِویراں کو شاداب کرگئے۔

(مولوی محمد سعید،
آہنگِ بازگشت
ایک صحافی کی خودنوشت سے انتخاب)

مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے

نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔