سید اکبر علی صاحب کراچی سے لکھتے ہیں: ’’محاوروں کی منطق کچھ نہ کچھ تو سمجھ میں آہی جاتی ہے۔ اگر کوئی ہوش مند آدمی واقعی کسی کے سر پر چڑھنے لگے تو اس حرکت کو یقیناً بدتمیزی اور بد تہذیبی کہا جائے گا۔ شاید اسی وجہ سے بدتمیزی سے پیش آنے کو ’’سر پر چڑھنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ بہت زیادہ شور غوغا کرنے کو’’آسمان سر پر اٹھا لینا‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ ذرا اس کی منطق سمجھا دیجیے‘‘۔
صاحب! ضروری نہیں کہ ہر محاورے کی منطق سمجھ میں آجائے۔ ہمارے ایک بے تکلف دوست کسی کے ’بھاگ کھڑے ہونے‘ پر معترض تھے۔کہتے تھے کہ بھلا ’بھاگ کھڑے ہونے‘ کی کیا منطق ہے؟ آدمی یا تو بھاگے گا یا کھڑا رہے گا۔ اُن کو مطمئن کرنے کے لیے ہم نے یہ منطق گھڑی کہ بھاگنے کی نیت باندھ کر کھڑے ہونے کو ’بھاگ کھڑا ہونا‘ کہتے ہوں گے۔ یہ کہہ کر ہم نے عملی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ کھڑے کھڑے اچانک تیزی سے اُن کی طرف بھاگے۔ مگر اللہ جانے کیوں ساری منطق بھول بھال کر وہ خود بھاگ کھڑے ہوئے۔
اکبر صاحب کے سمجھانے کو ہم نے خود سمجھنے کی کوشش کی تو ایک منطق سمجھ میں آگئی۔ بھاری بوجھ اُٹھانے کے لیے اب تو خیر بھاری بھاری مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ مگر جب یہ مشینیں میسر نہ تھیں، اور اب بھی گاؤں دیہات میں، مزدوروں کی مدد سے کوئی بہت بھاری اور انتہائی بوجھل چیز اُٹھوانی ہو تو ایسا بوجھ اُٹھاتے وقت یہ سارے مزدور مل جل کر اتنا شور غوغا مچاتے ہیں کہ جیسے اس شور شرابے ہی کے زور پر یہ بارِ گراں اُٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے بالعموم یہ آوازیں منہ ہی سے نکالی جاتی ہیں، لیکن اگر بوجھ بس سے باہر ہو تو ’مقاماتِ آہ فغاں اور بھی ہیں‘۔ کہنا یہ تھا کہ بوجھ جتنا بھاری ہوتا ہے آوازیں بھی اُتنی ہی متنوع اور اُتنی ہی بلند ہوتی ہیں۔ اس پس منظر کے پیشِ نظر، بچے جب حد سے زیادہ شور غوغا کررہے ہوں تو فرض کرلیا جاتا ہے کہ مل جل کر آسمان سر پر اُٹھا رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختون خوا سے جناب محمد فہیم رقم طراز ہیں: ’’کبھی وقت نکال کر ’حضور فیض گنجور‘ جیسی تراکیب کا بھی ’تیا پانچا‘ کردیجیے‘‘۔
محترم محمد فہیم صاحب کو تو فہمائش کی ضرورت نہیں۔ مگر اُن کی اس فرمائش سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ لہٰذا سب سے پہلے ہم ’تیا پانچا‘ کا تیا پانچا کرتے چلیں۔ صاحبو! ’تیا پانچا کرنا‘ بھی محاورہ ہے۔ اوراس محاورے کی منطق قابلِ فہم ہے۔ تِیا کا تعلق تین سے ہے۔ ہم جسے ’تیسرا‘ کہتے ہیں ہندی میں وہ تِیا کہلاتا ہے۔ تاش کے کھیل میں تین نشان والے پتوں کو تِگّی کہیے یا تِری، ہندی میں ہے وہ بھی تِیا۔ ’پانچا‘ کا صوتی آہنگ خود بتا رہا ہے کہ اس کا تعلق ’پانچ‘ سے ہے۔ ’تِیا پانچا کرنا‘ کے لفظی معانی ہیں کسی چیز کے تین یا پانچ ٹکڑے کرکے صحیح سالم نہ رہنے دینا، کسی شے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ختم کر ڈالنا، بانٹ دینا یا تقسیم کردینا۔ آپ کا موبائل فون خراب ہوجائے اور آپ اسے ٹھیک کرانے کے لیے کسی اناڑی دُکان دار کے پاس پہنچ جائیں۔ وہ اسے کھول کھال کر رکھ دے، مگر دوبارہ جوڑ نہ پائے۔اس کے اجزا بٹور کر ایک تھیلی میں رکھے اورآپ کے حوالے کردے، تو خفا نہ ہوئیے۔ خوش ہوجائیے کہ اُس نے آپ کو ایک محاورہ استعمال کرنے کا موقع دیا۔ اپنے موبائل فون پر فاتحہ پڑھتے ہوئے دکان دار سے یہ کہہ کر گھر چلے آئیے کہ ’’میاں! تم نے تو اس کا تیا پانچا کردیا‘‘۔
اب ہم ’حضور فیض گنجور‘ کا تیا پانچا کرتے ہیں۔ حضور کے لغوی معنی ہیں حاضر ہونا، موجود ہونا، سامنے آنا۔ یہ غیب کی ضد ہے۔ دل کی توجہ اور انہماک کو ’حضورِ قلب‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً ’’نماز حضور قلب سے ادا کرنی چاہیے‘‘۔ ’حضوری‘ کا لفظ حاضری، قربت یا نزدیکی کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بادشاہوں یا اولیا اللہ کے دربار میں حاضر ہونے کو بھی حضوری کہا جاتا ہے۔ دربارِ نبویؐ میں حاضری کی سعادت ملنے کو ہمارے اکثر نعت گو شعرا ’اِذنِ حضوری‘(حاضر ہونے کی اجازت) کہتے ہیں۔ پروفیسر اقبال عظیم کا مشہور شعر ہے:
یہ پوچھنا ہے مجھے اپنی فردِ عصیاں سے
کہ مجھ کو اذنِ حضوری عطا ہوا کیسے
لیکن ’حضور‘ کلمۂ تعظیمی بھی ہے۔ بزرگ، صاحبِ عظمت اور لائقِ احترام اشخاص کو مخاطب کرنے کے لیے ’حضرت‘ اور ’حضور‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی خاص شخصیت کا پہلے سے ذکر کیے بغیر، بلا حوالہ، صرف ’حضور‘ کہہ کر یا لکھ کر کوئی بات بتائی جائے تو مسلمانوں کے ہاں اس سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ اقدس ہوتی ہے۔ مثلاً:
’’جانوروں کو اذیت دینے سے حضورؐ نے منع فرمایا ہے‘‘۔
اردو شاعری میں محبوب کے لیے بھی ’حضور‘ کا لفظ کبھی طنز۱ً،کبھی مزاحاً اور کبھی احتراماً استعمال کیا گیا۔ امیرؔ مینائی تڑپ کر بتاتے ہیں:
وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں اُن سے
حضور آہستہ آہستہ، جناب آہستہ آہستہ
وہ مشہور گانا بھی آپ کو زبانی یاد ہوگا ’’بن کے، ٹھن کے جیسے حُور، ایسے بیٹھے ہیں حضور…‘‘اوراستاد قمرؔ جلالوی کی وہ غزل بھی، جس کا پہلا مصرع ہے: ’’کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو‘‘۔ اپنی غزل اور لحد میں لیٹے لیٹے استاد یہ دردمندانہ اپیل دائر فرماتے ہیں:
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے
حضور شمع نہ لایا کریں جلانے کو
’فیض‘ کا مطلب سب کو معلوم ہے۔ فائدہ، نفع، بھلائی، علمی یا روحانی صحبت کا اثر۔ کسی کی ذات سے لوگوں کو فائدہ یا برکت حاصل ہو تو اسے اُس ذات کا فیضان کہتے ہیں۔ فیض کی جمع فیوض ہے۔ بہت سے لوگوں کو بہت فیض پہنچانے والا فیاض ہوتا ہے اور اس کی فیاضی سے فائدہ اٹھانے والا ’فیض یاب‘ ہوتا ہے۔ جس شخص سے کسی کو (بالخصوص ہم کو) فائدہ نہ پہنچے اُسے ہم جھٹ ’بے فیض‘ کہہ دیتے ہیں۔
گنج کے معنی ہیں سونے چاندی یا مال و دولت کا خزانہ، دفینہ، زیرِ زمیں پنہاں زر وجواہر۔ اسی وجہ سے ذخائر سے مالامال منڈیوں کو بھی گنج کہا جاتا ہے۔ بعض علاقوں کے نام انھیں منڈیوں اور بازاروں کے نام پر’گنج‘ مشہور ہوجاتے ہیں، جیسے پہاڑ گنج، بلال گنج، منشی گنج اور نرائن گنج۔ راولپنڈی کا ایک علاقہ تو ’گنج منڈی‘ ہی کے نام سے مشہور ہوگیا ہے۔’گنجور‘ خزانے کے مالک، خزانے دار اور خزانچی کو کہتے ہیں۔ اگر کوئی بزرگ ایسے ہوں جو فیض کے بے بہا خزانوں کے مالک ہوں تو ہم اُن کو ’’حضور فیض گنجور‘‘ کے لقب سے یاد کریں گے۔
جس شخص کے سر پر بال نہ ہوں، یا اُگتے ہی نہ ہوں اُسے ہندی میں جانے کیوں ’گنجا‘ کہہ دیا گیا۔ اور بال نہ ہونے کو ’سر پرگنج‘ قرار دے ڈالاگیا۔ سر پر ہے اگر گنج تو ہرگز نہ کیجیے رنج، کیوں کہ ایسے لوگ اکثر ’’گنجور‘‘ یعنی دولت مند ہوتے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی نکل جائیے آپ کو جا بجا، کو بہ کو یہ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ نظر آجائیں گے۔ پوری دنیا میں ’گنجوں‘ کو عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کہیں ’ڈاک صاحب‘ اور کہیں ’ڈائریکٹر صاحب‘ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ سوائے پاکستان کے۔ پاکستان میں یہ گنجینہ بہ افراط پایا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں پوری قوم یہ نعرہ لگایا کرتی تھی کہ’’گنجے کے سر پر ہل چلے گا‘‘۔ جن حضور فیض گنجور کی شان میں یہ نعرہ لگایا جاتا تھا، ایک روز بھرے جلسے میں اپنے سر سے ماؤ کیپ اُتارکر اور مجمعے کے آگے سر جھکا کر کھڑے ہوگئے۔ چمک اور چکاچوند سے آنکھیں چندھیاتا ہوا اپنا گنجا سر لوگوں کو دکھاکر، طیش بھرے منہ سے جھاگ اُڑاتے ہوئے سوال کیا: ’’یہ تمھارے باپ کا سر ہے کہ اس پر ہل چلاؤگے؟‘‘ سوال سن کر لوگوں کو فوراً یاد آگیا کہ انھوں نے باپ (’’ڈیڈی‘‘) سے کیا سلوک کیا تھا۔