سردار اختر مینگل کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن کے وفد کا دورۂ کوئٹہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طالب علموں کی مبینہ ہراسگی اور حبس بے جا میں رکھنے کی شکایات اور مسائل کی جانچ کی خاطر اپریل 2022ء میں کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔ کمیشن کے کنوینر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل بنائے گئے۔ اُن کی سربراہی میں کمیشن کے متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔ چناں چہ کمیشن نے15تا17نومبر کوئٹہ کا دورہ بھی کیا۔ اطلاع دی گئی کہ سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر کامران مرتضیٰ، سینیٹر مشاہد حسین، رکن قومی اسمبلی اسد عمر، افراسیاب خٹک، ناصر محمود کھوسہ، علی احمد کرد ایڈووکیٹ، حفیظ الرحمان چودھری، ڈاکٹر عاصمہ فیض، اسی طرح وفاقی سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری انسانی حقوق کمیشن اور سینیٹ سیکریٹریٹ کی سیکریٹری کی آمد ہے۔ چناں چہ سردار اختر مینگل کے ہمراہ سینیٹر کامران مرتضیٰ، افراسیاب خٹک، علی احمد کرد ایڈووکیٹ، ڈاکٹر عاصمہ فیض آئے۔ آمد کے روز عدالت روڈ پر قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کا دورہ کیا اور متعلقہ لوگوں کو سنا، ان کی شکایات قلم بند کیں۔ یہاں سے فراغت کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ گئے جہاں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان بار کونسل، کوئٹہ بار اور سپریم کورٹ بار نے استقبالیہ دیا تھا۔ یہاں وکلا رہنمائوں اور کمیشن کے نمائندوں نے تقاریر کیں۔ اگلے روز کمیشن نے جامعہ بلوچستان کا دورہ کیا اور بلوچ طلبہ تنظیموں کے نمائندوں اور کارکنان سے مسائل پر گفتگو کی، ان کے تحفظات سپردِ قلم کیے۔ اس موقع پر جامعہ کے وائس چانسلر بھی موجود تھے۔ اسی روز گورنر ہائوس میں قائم مقام گورنر جان محمد جمالی کی موجودگی میں صوبے کی تمام جامعات کے وائس چانسلر صاحبان سے ملاقات کی۔ کمیشن وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ جاکر عبدالقدوس بزنجو اور ان کی کابینہ سے ملا۔ آخری روز یعنی 17نومبر کو سی ایم سیکریٹریٹ میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان، آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور صوبے کے تمام ڈویژنل کمشنرز نے شرکت کی۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ ا ور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے بریفنگ دی۔ کمیشن کے کنوینر اور ارکان نے حکام سے سوالات کیے۔ کمیشن کی آمد سے قبل صوبے کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں کمیشن کی ہدایات کے تحت سیل قائم کیے جاچکے تھے کہ جہاں لاپتا افراد کے لواحقین رجوع کریں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مذکورہ معاملات کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کا کوئی بھی اجلاس نہ ہوسکا تھا۔ بعد ازاں 3 اکتوبر 2022ء کو سردار اختر مینگل کمیشن کے کنوینر بنائے گئے۔ چونکہ کمیشن اپنے تئیں تحقیقات اور معروضی احوال تحریری طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کو پیش کرے گا، چناں چہ یہاں کمیشن کا دائرۂ کار و اختیار دیکھنا ہوگا کہ آیا بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی مشکلات اور ان کی گرفتاریوں کا مسئلہ حل کرنا اسلام آباد ہائی کورٹ کے پیش نظر ہے یا بلوچستان کے اندر صورتِ حال بھی؟ چوں کہ ایک عرصے سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلبہ کے مسائل پر قومی اسمبلی، سینیٹ اور دوسرے فورمز پر احتجاج ہوتا رہتا ہے، جس کے پیش نظر معزز عدالت نے معلومات کی خاطر کمیشن کی تشکیل کا حکم دیا۔ دیکھتے ہیں کمیشن کی مرتب رپورٹ پر معزز عدالت مزید کیا رائے اور احکامات صادر کرتی ہے؟
بلوچستان کے ان لاپتا افراد کا مسئلہ یقیناً حساس ہے، مگر اتنا ہی گمبھیر اور گنجلک بھی ہے، جس کے فوری حل اور تدارک پر… ایسے حالات میں کہ جب کالعدم اور مسلح گروہ ریاست کے خلاف فعال دکھائی دیتے ہوں… سردار اختر مینگل قادر نہیں کہ فریقین کو ایک میز پر بٹھا سکیں تاکہ یہ قضیہ ہمیشہ کے لیے حل ہو۔ لاپتا افراد کا مسئلہ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری نے 2013ء میں کئی کئی دنوں تک طویل طویل سماعتوں کے ساتھ سنا۔ تب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تھے۔ پولیس، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، آئی جی پولیس، پولیس کے دوسرے حکام اور ایف سی کے افسران عدالت میں طلب کیے گئے، یہاں تک کہ چیمبر میں خفیہ اداروں کے حکام بھی حاضر ہوئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کمرۂ عدالت میں سماعت میں مصروف تھے کہ سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر کوئلہ کان کے سات مزدوروں کی لاشوں کے ہمراہ مزدور احتجاج کے لیے پہنچ گئے۔ یہ کالعدم گروہ کا نشانہ بنے تھے۔ وہ دیر تک رونے دھونے کے بعد لاشیں اٹھا کر چلے گئے اور جسٹس افتخار چو دھری نے کچھ سنا ہی نہیں۔ گویا افتخار چودھری مسئلے کا احاطہ ہی نہ کرسکے، ایک ہی پہلو کے ساتھ سماعت پہ سماعت کرتے رہے۔وگرنہ ان سماعتوں کے وقت بھی فوج، ایف سی، پولیس، اساتذہ، ڈاکٹرز، مزدور اور آباد کار سینکڑوں کی تعداد میں آزادی کی بات کرنے والے مسلح گروہوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ چناں چہ یہ سلسلہ تب اور نہ ہی آج رکا ہے۔ مسلح گروہ اپنے نعروں کے ساتھ اب بھی ریاست پر حملہ آور ہیں۔ روز فورسز اورتنصیبات پر حملوں کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔ نیزکسی کے قتل کی ذمے داری مخبر کہہ کر قبول کی جاتی ہے۔ ہرنائی میں ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ دو افراد کو مغوی بناکر بدلے میں اپنے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ یہ گروہ کہتے ہیں کہ ان کے گرفتار لوگوں کے ساتھ جنیوا کنونشن کے تحت سلوک کیا جائے کہ یہ جنگی قیدی ہیں۔ اب ایسی فضا میں کیا ضمانت ہے کہ آئندہ کوئی فرد لاپتا ہوگا اور نہ حبسِ بے جا میں رکھا جا ئے گا۔ جنگ کی صورت میں ریاست اور اس کے اداروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟یقینا صوبہ بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔ لہٰذا امن کے امکانات پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ اس نوع کی سیاسی تگ و دو وقتی اورانتخابی سیاسی حاصل پرتو منتج ہوسکتی ہے مگر درپیش آزمائش کا حل ہر گز نہیں ہے۔ حل اس قضیے کا ہمہ پہلو ہم آہنگی،بات چیت اور اس کے نتیجے میں مسلح سیاست سے دست برداری ہے۔ یہ اگر صوبے کی کسی جماعت اور رہنما کے بس میں ہے تو آگے بڑھیں۔اس ضمن میں حکومتوں ہی کی پیشرفت معنی رکھتی ہے،اورصوبے کی موجودہ حکومتی اشرافیہ کا مسلط کیا جانا اور اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کا سوال کس سے کیا جائے؟