سندھ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی انتخاب سے فرار کی کوششیں ناکام انتخابات کا اعلان بات جماعت اسلامی کی ”حق دو کراچی تحریک“ کا سنگ میل
ملک کے مسائل کی طرح کراچی کے مسائل بھی بڑے ہیں۔ بجلی، گیس، پانی، انفرااسٹرکچر… ہر ہر عنوان سے لوگ تکلیف اور مشکل میں ہیں اور ان تمام مشکلات کا حل صرف بلدیاتی انتخابات میں ہے، لیکن حکمراں اس سے گریز کرتے رہے ہیں۔ بات صاف ہے کہ سندھ حکومت کسی بھی طور پر بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی۔ قانونی طور پر بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن میں بلدیاتی انتخابات کرانے ہوتے ہیں، لیکن ایسا تاحال نہیں ہوسکا ہے، اور 2020ء میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے باوجود کراچی اور حیدرآباد میں انتخابات نہیں ہوسکے ہیں۔ انتخابات سے فرار کے لیے ایک جانب سندھ حکومت مسلسل پولیس کی نفری کا بہانہ بنارہی ہے اور دوسری جانب ایم کیو ایم حلقہ بندیوں اور درست مردم شماری کے نام پر وقت گزاری کررہی ہے۔ اس سے قبل انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات 24 جولائی کو کرانے کا بحالتِ مجبوری اعلان کیا گیا تھا، تاہم صوبے بھر میں سیلابی صورتِ حال کا بہانہ بنا کر پولیس کی نفری نہ ہونے پر سیکورٹی فراہم کرنے سے معذرت کرلی گئی تھی۔ جس کے بعد 28 اگست کی تاریخ رکھی گئی، لیکن اس تاریخ سے چند دن قبل پھر ایک اور تاریخ 23 اکتوبر رکھ دی گئی تھی، مگر تیسری مرتبہ بھی انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ سندھ حکومت اور اُس کے اتحادیوں کا یہ طرزِعمل بتاتا ہے کہ وہ انتخابات کو کسی بھی حالت میں ملتوی کرنا چاہتے ہیں جس کا کوئی قانونی جواز بھی نہیں بنتا۔ لیکن جماعت اسلامی سندھ حکومت کو کسی طور پر انتخاب سے فرار کا راستہ نہیں دینا چاہتی اور وہ مستقل اس کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ اب ایک بار پھر الیکشن کمیشن نے کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری 2023ء کو کرانے کا علان کردیا ہے اور اس ضمن میں اُس نے وفاقی حکومت، وزارتِ داخلہ، چیف سیکرٹری سندھ اور آئی جی سندھ کو خاص سیکورٹی انتظامات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ اس سے قبل 15 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، رہنما ایم کیو ایم وسیم اختر، ایڈمنسٹریٹر کراچی اور پی پی پی رہنما مرتضیٰ وہاب اور انسپکٹر جنرل سندھ پولیس الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جانے کے بعد جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ تاخیر کے خلاف درخواستوں پر تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے 16 نومبر کو فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد 18 نومبر کو سنایا، جس میں سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق 60 روز میں تمام اقدامات مکمل کرے۔ عدالتِ عالیہ سندھ نے یہ بھی کہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ 2 ماہ کے اندر اندر ہونی چاہیے، اس کے علاوہ عدالت نے سندھ حکومت کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو نفری فراہم کرے۔
اس سے قبل بھی عدالت الیکشن کمیشن سے متعلق اس طرح کے ریمارکس میں کہتی رہی ہے کہ الیکشن کروانا آپ کی ذمے داری ہے۔ بار بار الیکشن کیوں ملتوی کیے جارہے ہیں؟ الیکشن کمیشن کوئی اسکول ہے جو چھٹی کی وجہ سے اجلاس نہیں ہوسکا! آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کی رپورٹس کہاں ہے؟ چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ سیلاب میں کون سی پولیس جاتی ہے؟ بتائیں سیلاب زدگان کے پاس پولیس کیا کررہی ہے؟ کوئی ایک گاؤں بتادیں جہاں پولیس نے سیلاب متاثرین کے لیے آپریشن کیا ہو؟ سندھ میں مجموعی نفری کتنی ہے؟ اور بتائیں کہ پولیس کہاں کہاں تعینات ہے؟ اور یہی سوالات کراچی کے عوام بھی کرتے رہے ہیں کہ آیا ان بہانوں کا حقیقت سے کوئی تعلق بھی ہے یا صرف بہانا ہے، اور الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کا کوئی گٹھ جوڑ ہے؟ کیونکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات پہلے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ملتوی کیے، پھر انہوں نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ سیلاب کی وجہ سے سیکورٹی اہلکار متاثرہ علاقوں میں ریلیف و ریسکیو میں مصروف ہیں۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان کی خواہش کے مطابق حیلے بہانے کے بعد ویسا ہی کیا جیسا وہ چاہتے تھے، جس پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ”بلاول بھٹو آپ نے کہا تھا کہ میں کیسے ناظم آباد کے پولنگ اسٹیشن پر پولیس والے لگاسکتا ہوں، لیکن آپ ناظم آباد کی مجاہد کالونی میں لوگوں کو مارنے کے لیے سینکڑوں پولیس والے لگا سکتے ہیں۔“
اصل بات یہ ہے کہ یہ صرف بہانے ہیں، پیپلز پارٹی انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتی۔ اور ابھی 15جنوری کی تاریخ کا جو اعلان سامنے آیا ہے اس پر بھی غیر یقینی صورتِ حال ہے۔ اس وقت کراچی کے عوام پیپلز پارٹی اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف سخت ردعمل دے رہے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور بے حسی کے باعث ملک کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت مسائل کی آماج گاہ اور جرائم کا گڑھ بن گیا ہے، سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہیں، عوام کو تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولتیں تک میسر نہیں، کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کررہا ہے۔ پہلے ہی مہنگائی بے قابو ہے لیکن کراچی میں مہنگائی کا ایک طوفان ہے، مارکیٹوں اور بازاروں میں سرکاری نرخ نامے مکمل نظرانداز کرتے ہوئے من مانی قیمتوں پر فروخت جاری ہے۔ سبزیوں، پھلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، جبکہ بچت بازاروں میں ناقص اور باسی اشیاء بیچی جارہی ہیں، لیکن انہیں کوئی دیکھنے اور روکنے والا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ اور کراچی کو 14سال سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کراچی میں حکمراں پارٹیوں کی بلدیاتی انتخابات سے فرار کی کوششیں اُن کی شکست کی واضح علامت ہیں، کیونکہ انہیں نظر آرہا ہے کہ جماعت اسلامی شہر کراچی میں ایک بار پھر ایک بڑی قوت اور طاقت کے ساتھ ابھرتی نظر آرہی ہے۔ اس کی ”حق دو کراچی“ تحریک نے بہت تیزی کے ساتھ پذیرائی حاصل کی ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کراچی کے ہر شہری کی تحریک بن چکی ہے جس کا مظہر سروے کرنے والی تنظیم ”پلس“ کی رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹروں کی اکثریت نے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کو ووٹ دینے کا ارادہ کیا ہے۔
میئر کے لیے ان کے ووٹوں کا تناسب 51 فیصد تک ہے، جبکہ 14 فیصد نے مصطفیٰ کمال کو ووٹ دینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ پلس کنسلٹنٹ کے سروے کے مطابق 53فیصد عوام نے ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا تذکرہ کیا،46فیصد نے سیوریج کے پانی، 42فیصد نے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور 26فیصد نے پانی کے ایشو کے بارے میں رائے دی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ پیپلز پارٹی اور اُس کے اتحادیوں سے بے زار ہیں، اسی لیے حکمراں جماعتیں حیلے بہانے سے انتخابات کی طرف نہیں جانا چاہتیں، کیوں کہ انہیں شاید یہ نظر آرہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات جب بھی ہوں گے نتیجہ جماعت اسلامی کے حق میں ہی بیلٹ باکس سے نکلے گا، کیوں کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے لوگوں کا مقدمہ لڑا ہے اور ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ اس وقت بلدیاتی انتخابات بالخصوص کراچی کی ضرورت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے جس نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے اس پر وہ عمل درآمد کراتا بھی ہے یا نہیں؟