یہ جرمنی کا شہر کولون تھا جہاں 2006ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کی رونقیں برپا تھیں۔ اس ورلڈ کپ کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے حُسنِ ذوق اور تسکینِ تعیش کے لیے دنیا بھر سے ہر رنگ، عمر، نسل اور جسمانی تناسب والی خواتین لائی گئیں۔ ان کی تعداد تقریباً چالیس ہزار تھی۔ ان اسمگل شدہ جسم فروش عورتوں سے کولون شہر کے بیچوں بیچ ایک بارہ منزلہ قحبہ خانہ یا جسم فروشی کا اڈہ آباد کیا گیا، جس کا نام پاشچا (Pascha) تھا۔ اس قحبہ خانے کا شاندار افتتاح ورلڈ کپ کے آغاز والے دن 9 جون 2006ء کو کیا گیا۔ جسم فروشی کے اس پلازہ میں دنیا بھر کے ممالک سے 120 جسم فروش عورتیں لاکر بڑے بڑے شیشوں والے ہال میں سجائی گئیں۔ یہ صرف ایک شہر کے ایک اڈے کی بات ہے، جبکہ پورے ملک میں چالیس ہزار اسمگل شدہ عورتوں سے جرمنی کا ہر وہ شہر آباد کیا گیا جہاں فٹ بال ورلڈ کپ میں شریک 32 ٹیمیں حصہ لینے جارہی تھیں۔ ’’پاشچا‘‘ نے اپنے اس قحبہ خانے پر ان تمام ٹیموں کے ممالک کے پرچم بھی لگا رکھے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عورتوں کے ہمراہ ایک حجاب والی خاتون کا بھی پوسٹر چسپاں کیا تھا۔ اس کے خلاف ایک دن تیس کے قریب مسلمان نوجوان جو چاقوئوں اور ڈنڈوں سے مسلح تھے، احتجاج کرتے ہوئے آئے، جن سے خوف زدہ ہوکر قحبہ خانے کی انتظامیہ نے سعودی عرب اور ایران کے جھنڈوں کو سیاہ کردیا کیونکہ ان پر کلمۂ طیبہ اور اللہ کا نام لکھا ہوا تھا، اور ساتھ ہی حجاب والی عورت کا پوسٹر بھی اُتار دیا۔ جرمنی میں فٹ بال کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر جسم فروش عورتوں کی اسمگلنگ کا خصوصی اہتمام ایک ایسا واقعہ تھا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مہذب کہلانے والی مغربی دنیا جو انسانی اسمگلنگ پر دیگر کمزور ممالک کا معاشی مقاطعہ تک کرتی ہے، وہ کیسے اپنی عیش پسندی اور جنسی خواہشات کی تسکین کے لیے دنیا بھر کی عورتوں کو بلا کر ایک ماہ کے لیے بازار سجاتی ہے۔ اس واقعے کے بعد پوری دنیا میں کھیلوں کے عالمی مقابلوں اور جسم فروشی کے بازاروں کے تعلق پر لاتعداد علمی تحقیقات شروع ہوئیں، یہاں تک کہ امریکہ کی یونیورسٹی آف نبراسکا نے اس باہمی تعلق پر ایک عالمی کانفرنس بلائی جس میں امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی عالمی تعلقات کی کمیٹی کی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس کا عنوان تھا:
“Germany’s World Cup Brothels: 40,000 Women and Children at Risk of Exploitation Through Trafficking”.
’’جرمنی ورلڈ کپ کے جسم فروشی کے اڈے:
چالیس ہزار عورتیں اور بچے انسانی اسمگلنگ کی وجہ سے استحصال کے خطرے میں‘‘۔
اس کے علاوہ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے اسکول آف لا کے سنجیدہ میگزین میں 2008ء میں اینی میری ٹیولا (Anne Marie Tavella)نے جرمنی کے اس فٹ بال ٹورنامنٹ میں جنسی اسمگلنگ (Sex Trafficking) کو بنیاد بنا کر دنیا بھر میں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں کے جنسی اسمگلنگ کے ساتھ تعلق کا جائزہ لیا اور وہ اس قدر بھیانک نتائج سامنے لائی کہ جن کے مطابق کھیلوں کے یہ بڑے بڑے معرکے جب کسی ملک میں سجائے جاتے ہیں تو جہاں ہوٹل اور ٹورازم انڈسٹری کی چاندی ہوتی ہے وہاں نہ صرف یہ کہ اُس ملک میں موجود جسم فروش عورتوں کا کاروبار چمکتا ہے بلکہ دنیا بھر سے عورتوں کو وہاں لانے کے لیے جنسی اسمگلنگ کا دھندہ بھی خوب چلتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ خوفناک انکشاف بھی ہوا کہ یورپ کے پانچ ممالک ایسے ہیں جہاں سارا سال دنیا بھر سے عورتیں جسم فروشی کے لیے اسمگل کرکے لائی جاتی ہیں۔ صرف 1990ء میں تین لاکھ کم عمر بچیاں یورپ کے ممالک میں جسم فروشی کے لیے دیگر علاقوں سے اسمگل کی گئیں۔ اسی رپورٹ نے بتایا کہ جرمنی میں ہر سال اوسطاً ایک ہزار لڑکیاں جسمانی تسکین کے لیے لائی جاتی ہیں۔ جرمنی میں جسم فروشی کے کاروبار سے سالانہ 19 ارب ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ جرمنی کے اس ورلڈ کپ میں ان چالیس ہزار عورتوں کی آمد کی خبر نے دنیا کو چونکا دیا لیکن اس کے باوجود 2008ء میں چین میں اولمپک اور 2010ء میں جنوبی افریقہ میں ورلڈ کپ ہوا، مگر ان دونوں مقابلوں میں بھی ویسے ہی بازار سجے، جسم فروشی ہوئی۔ لیکن اب اس کا ڈھنگ اور طور طریقہ ایسا کیا گیا کہ یہ میڈیا میں رپورٹ نہ ہوسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا بھر کے تحقیقی مقالہ نگاروں نے 2006ء سے اب تک کھیلوں کے ہر بڑے ٹورنامنٹ میں اس غلاظت کے بارے میں باقاعدہ اعداد و شمار پیش کیے۔
قطر میں 2022ء کے ورلڈ کپ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس عالمی معرکے کے لیے یوں تو تیاری کئی سال سے جاری تھی اور لاتعداد پلازے اور ہوٹل تعمیر ہورہے تھے، لیکن قطر کے حکمرانوں نے جس طرح 57 اسلامی ممالک میں ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت کو منوایا ہے، اور جس طرح اس عالمی مقابلے کو شراب و شباب سے پاک کیا ہے اس کی مثال اسلامی دنیا میں نہیں ملتی۔ پڑوس میں دبئی ہے جس میں اگر ایسی کوئی تقریب نہ ہو پھر بھی آپ کو وہاں ہر سامانِ تعیش میسر آئے گا، یہاں تک کہ ایئر پورٹ میں کھانوں کی سجی میز کے بیچوں بیچ ’’لحم الخنزیر‘‘ یعنی ”سؤر کا گوشت“ کی چِٹ بھی نظر آئے گی۔ اس کے بالکل برعکس قطر میں فٹ بال کے اس ٹورنامنٹ میں پہلا اہم حکم نامہ 13 اپریل 2022ء کو سیکورٹی کے سربراہ عبداللہ النصری نے اُس وقت جاری کیا جب اسے کہا گیا کہ اسٹیڈیم میں ایک اسٹینڈ ہم جنس پرستوں (LGBT) کے لیے بھی مخصوص کیا جائے اور وہاں ان کا پرچم لہرایا جائے۔ النصری نے انکار کردیا، جس پر انگلینڈ کی مشہور ٹیم “Three Loins” نے بائیکاٹ کا اعلان کیا، جس پر قطر کی حکومت نے جواب دیا کہ آپ کو اگر ہم جنس پرستی کا پرچار کرنا ہے تو اُس معاشرے میں جاکر کریں جہاں یہ قابلِ قبول ہے۔ آپ قطر میں ایسا کرکے پورے معاشرے کی توہین نہیں کرسکتے۔ اگر کسی نے اسٹیڈیم میں ہم جنس پرستی کا جھنڈا لانے کی کوشش کی تو ہم اُس سے جھنڈا چھین لیں گے، کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ دیکھنے والے غصے میں اس پر حملہ نہ کردیں۔ ٹورنامنٹ کے آغاز تک ’’فیفا‘‘ کے منتظمین اور قطر کی حکومت کے درمیان بحث چلتی رہی کہ ورلڈ کپ کے دوران شراب کی خرید و فروخت ہوسکتی ہے۔ لیکن قطر کی حکومت نے عین آغاز سے ایک دن پہلے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ٹورنامنٹ کے دوران جو مشروبات بھی بیچے جائیں گے اُن میں ’’الکحل‘‘ نہیں ہوگی۔ یہ خبر اُس وقت نشر ہوئی جب ہزاروں شائقین اپنی پروازوں کے ذریعے قطر پہنچ چکے تھے۔ میکسیکو کے سات نوجوان بیئر کے ڈبے پکڑ کر اسٹیڈیم میں داخل ہوئے (جو وہ اپنے ساتھ میکسیکو سے لائے تھے) تو انہیں اندر جانے سے روک دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہزاروں بینر اور ٹینٹ جو بیئر بنانے والی مشہور کمپنی بڈوائزر (Budweiser) نے لگائے تھے، ختم کردیے گئے، حالانکہ یہ کمپنی ٹورنامنٹ کے اسپانسروں میں شامل ہے اور ہر ٹورنامنٹ کے لیے ساڑھے سات کروڑ ڈالر دیتی ہے۔ ’’فیفا‘‘ کے منتظمین نے قطر کی حکومت کے سامنے سرِتسلیم خم کرلیا۔ قطر حکومت نے ان سے صرف اتنا ہی کہا کہ کیا تم دنیا کے کسی ملک میں کھلاڑیوں کو کوئی ایسی حرکت کرنے کی اجازت دو گے جو اُن کے کلچر میں سب سے ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہو؟ ’’فیفا‘‘ نے جواب دیا: نہیں، تو قطری حکام نے ان سے کہا کہ ہمارے ہاں شراب اور جسم فروشی دونوں ناپسندیدہ ترین افعال ہیں۔