نوازشریف دوستی اور تعلقات کے نام پر واجپائی سے ہاتھ ملا بیٹھے، مگر فوج نے واجپائی کو سلیوٹ کرنے سے انکار کرکے خود کو اس پالیسی سے الگ کردیا
بھارت کے ایک معروف دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ واجپائی کی کشمیر لگیسی محض ایک نعرے کے سوا کچھ نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک حریت راہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ نے انہیں بتایا تھا کہ واجپائی اگر 2004ء کے الیکشن جیت جاتے تو مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا، مگر مجھے اس سے اتفاق نہیں۔
پروین ساہنی سابق فوجی اور ایک مصنف و تجزیہ نگار ہیں۔ وہ نریندر مودی کے بھارت میں اعتدال کی ڈوبتی اور کمزور ہوتی ہوئی چند آوازوں میں سے ایک ہیں۔ ایک دور تھا جب بھارت میں کشمیر کے حوالے سے خشونت سنگھ، کلدیپ نیر، منی شنکر آئر، سی راجا موہن، سیما مصطفیٰ، ایم جے اکبر اور جسٹس وی ایم تارکنڈے جیسے تجریہ نگار تھے جو ذہنی اور عملی طور پر بھارتی ہونے کے باوجود بھارت کو کشمیر پر متوازن مشورے دیتے تھے۔ ان میں سے کئی اِس دنیا سے کوچ کر گئے اور کچھ نے ہندوتوا کی لہروں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ پروین ساہنی بھارت کی سیاسی کشمکش میں نریندر مودی کے ناقد اور کانگریس کے ہمنوا ہیں۔ انہوں نے واجپائی کی کشمیر لگیسی یا میراث کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے بحث کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ پاکستان اور کشمیر کے اُن خوش فہم عناصر کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اس انتظار اور امید پر جیتے رہے کہ واجپائی کشمیر کا مسئلہ حل کریں گے، اور وہ مودی کو واجپائی بننے کی دعوت دیتے اور اس توقع کا اظہار کرتے رہے۔ واجپائی نے کشمیر پر ایک نئی اپروچ اپنائی اور اُس وقت اپنائی جب پاکستان خود بھی بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے پر آمادہ ہوچکا تھا۔ واجپائی نے پہلے لاہور کا دورہ کرکے اعلانِ لاہور کیا جس میں کشمیر کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ واجپائی کا یہ دورہ اپنے اثرات دکھانے سے پہلے ہی کرگل تصادم کی نذر ہوگیا۔ اُس وقت عمومی تاثر یہ تھا کہ واجپائی اور نوازشریف مسئلہ کشمیر کے حل پر متفق ہوچکے تھے، مگر نہ تو نوازشریف اور نہ واجپائی کبھی اس حل کے خدوخال بیان کرسکے۔ اس حل کے خدوخال اُس وقت اُبھرے جب جنرل پرویزمشرف نے سارک کانفرنس میں روٹھے ہوئے واجپائی کو منانے کے لیے اچانک مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، جس کے جواب میں واجپائی نے اس ہاتھ کو ناگواری کے ساتھ تھام لیا۔ اس کے بعد واجپائی انتخاب ہار گئے اور من موہن سنگھ وزیراعظم بنے، اور یوں مذاکرات کے ٹوٹے ہوئے تار دوبارہ جڑ گئے۔ اس کے ساتھ ہی جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کے ذریعے ایک حل کے خدوخال ظاہر ہونے لگے، مگر بھارت نے کبھی اس فارمولے سے اعلانیہ اتفاق نہیں کیا، جس کی وجہ سے یہ یک طرفہ اور تصوراتی حل ہی رہا۔ وکلا تحریک نے اس سلسلے کو بھی توڑ دیا اور اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر پر کوئی ٹھوس بات چیت نہ ہوسکی۔
واجپائی کی کشمیر پر میراث کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اُس دور میں کشمیر کے حوالے سے خاصے سرگرم را اور آئی بی کے سابق سربراہ اے ایس دولت اپنی کتاب ’’کشمیر واجپائی ائرز‘‘ میں بھی کہیں یہ بات ثابت نہ کرسکے کہ واجپائی مسئلہ کشمیر کس طرح حل کرنا چاہتے تھے، یا اُن کے ذہن میں کیا نقشہ تھا۔ اٹل بہاری واجپائی نے اگر اس حوالے سے کچھ کیا تو یہ کہ انہوں نے پنڈت چانکیہ کی پالیسی پر عمل درآمد کی بہترین کوشش کی جس کے تحت مخالفین کے کیمپوں میں ہر سطح پر تقسیم کا عمل گہرا کیا۔ واجپائی نے پاکستان کی طرف شاخِ زیتون اُچھال کر سب سے پہلے پاکستان میں سول ملٹری کشمکش کو تیز کیا۔ نوازشریف دوستی اور تعلقات کے نام پر واجپائی سے ہاتھ ملا بیٹھے، مگر فوج نے واجپائی کو سلیوٹ کرنے سے انکار کرکے خود کو اس پالیسی سے الگ کردیا۔ یہ تقسیم بعد میں نوازشریف کی برطرفی کی صورت میں 12 اکتوبر پر منتج ہوئی۔ واجپائی نے کشمیریوں کے متفقہ اور مسلمہ آزادی پسند کیمپ حریت کانفرنس کی طرف شاخِ زیتون اُچھالی جس کے نتیجے میں واجپائی سے ملاقات کرنے یا نہ کرنے کے نام پر ایک اختلافِ رائے پیدا ہوا جو بڑھتے بڑھتے حریت کانفرنس کی تقسیم پر جاکر ختم ہوا۔ واجپائی کے دور میں کشمیر میں مسلح حریت پسندوں کی سب سے بڑی اور داخلی مزاحمت کی علامت حزب المجاہدین کو سیزفائر پر آمادہ کیا گیا جس کے نتیجے میں حزب المجاہدین نے سیز فائر کا اعلان کیا، مگر اس کے نتیجے میں اختلافات پیدا ہوئے اور مسلح مزاحمت میں عبدالمجید ڈار اور سید صلاح الدین کے درمیان گہری دراڑ پیدا ہوگئی۔ واجپائی کی اسی پالیسی نے کشمیر میں رائے عامہ کو پہلی بار تقسیم کیا اور کئی برس سے ہر قسم کے انتخابی عمل سے دور کشمیری عوام نے2002ء کے لوک سبھا انتخابات میں پہلی بار لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر ووٹ ڈالے ۔ آخر میں واجپائی کی اس پالیسی نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں بھی رائے کی تقسیم کو گہرا کردیا۔ جنرل پرویزمشرف کی قیادت میں کچھ لوگ بھارت کے ساتھ پیس پروسس کے راستے پر دوڑنے لگے، اور کچھ اس عمل کو قطعی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے رہے۔ اس طرح واجپائی نے جو پالیسی اپنائی اس میں کشمیر کے بجائے بھارت کا ہی مفاد غالب تھا، اور وہ آزادی پسندوں اور اُن کے ہمدردوں میں دوریاں پیدا کرکے بھارت کے مفادات کو تقویت دیتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہرو سے مودی تک تھوڑے سے فرق کے ساتھ بھارت کے تمام حکمرانوں کا رویہ ایک رہا ہے۔