معاشی بحران سے نجات کا واحد راستہ

ملکی معیشت کی زبوں حالی مسلمہ ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے نہ بحث مباحثہ کی بلکہ یہ نوشتۂ دیوار ہے اور اس کے سبب عوام اور ملک و قوم کو جو گھمبیر مسائل در پیش ہیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، سالہا سال کی تاریخ دیکھ لیجئے جو حکومت آتی ہے وہ قوم کو یہی بتاتی ہے کہ جانے والی حکومت معیشت کو تباہی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل گئی ہے اور اب ہم اسے ترقی و استحکام کی منزل سے روشناس کرا رہے ہیں ایک درجن سے زائد چھوٹی بڑی جماعتوں کے اشتراک سے وجود میں آنے والی موجودہ حکومت نے بھی اسی دعوے کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے ساڑھے تین برس کے دور حکومت میں چار وزرائے خزانہ کو آزمانے کے باوجود معیشت کو سنبھال سکی ہے نہ مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے مگر اسے کیا کہیے کہ موجودہ حکومت بھی اب تک تمام تر دعوئوں اور چھ ماہ میں دو وزرائے خزانہ کو آزمانے کے باوجود معیشت کو بہتری کی سمت گامزن کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی بلکہ اس عرصہ میں بھی معاشی بحران مزید گہرا ہوتا چلا گیا ہے اور وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے اس دعوے کے باوجود کہ دیوالیہ کا کوئی خطرہ نہیں، معاشی ماہرین اعداد و شمار کے ذریعے یہ باور کرا رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے، اللہ کرے یہ اندیشے اور اندازے غلط ثابت ہوں مگر سوال یہ ہے کہ جب ہمیں اللہ ہی سے دعائوں کا سہارا لینا ہے تو پھر ہمیں اس کے احکام پر بھی توجہ دینا ہو گی بڑا واضح فرمان قرآن حکیم کی دوسری ہی سورت البقرۃ میں موجود ہے کہ: ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو نشو ونما دیتا ہے۔‘‘ پھر سورۂ روم میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’جو سود تم دیتے ہو تا کہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔‘‘ اصل حقیقت یہی ہے کہ ہم نے جو مملکت اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے حاصل کی تھی اور جس کے متفقہ دستور میں ہم نے یہ طے کر دیا تھا کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا جائے گا۔ اس کا سارا نظام اگر ہم کفر کے تابع اور غیروں کے قانون و ضابطہ کے مطابق چلائیں گے تو فلاح ہمارا مقدر کیسے ہو سکتی ہے ؟ معیشت کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں، اس کی اصلاح کے لیے ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کی واضح ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے نظام کفر و سرمایہ داری کے اداروں آئی ایم ایف اور عالمی بنک وغیرہ وغیرہ سے رہنمائی حاصل کریں گے اور ان کی طے کردہ شرائط میں نجات کی راہ تلاش کریں گے تو پھر نتائج اس سے مختلف نہیں ہوں گے جن کا ہمیں آج کل سامنا ہے، مصور پاکستان نے قیام پاکستان سے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ ؎

بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

کہا جا سکتا ہے کہ مغربی دنیا نے بھی تو سرمایہ داری کے انہی اصولوں پر چل کر ترقی و خوشحالی حاصل کی ہے، اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ترقی و خوشحالی ’سراب‘ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اگر امریکہ سمیت ان ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک کے قرض کا حجم دیکھا جائے تو خاصے مختلف اور تلخ حقائق سامنے آتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ‘‘ ہماری کامیابی، ترقی و خوش حالی کے لیے ’’محمدؐ سے وفا‘‘ اولین شرط قرار دی گئی ہے، اسی لیے پیامبر انقلاب، علامہ اقبال نے کہا تھا: ؎

سبب اس کا کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں!

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے 28 اپریل 2022ء کو سود کے خاتمہ سے متعلق دیئے گئے حکم کے خلاف عدالت عظمیٰ میں کی گئی سرکاری اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا اور اسلامی بینکاری نظام کو تیزی سے نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں ہر قسم کے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو یکم جولائی 2022ء تک آٹھ اور باقی تمام غیر شرعی سودی قوانین 31 دسمبر 2022ء تک ختم کرنے جب کہ پورا نظام معیشت پانچ برس یعنی 31 دسمبر 2027ء تک شرعی اصولوں کے مطابق سود سے پاک بنانے کا حکم دیا تھا، حکومت نے اس قرآنی و آئینی ہدایات کے تابع حکم پر عملدرآمد کرنے کی بجائے اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک کے ذریعے اس حکم کے خلاف اپیل دائر کر دی جب کہ چار نجی بنکوں کی جانب سے بھی ایسی ہی درخواستیں دائر کی گئیں اور اپیلوں کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ 1991ء میں بھی سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت نے نہایت واضح، تفصیلی اور جامع فیصلہ دیا تھا مگر اس وقت کی نواز لیگ کی حکومت نے اس کے خلاف اپیل کے ذریعے اسے بتیس برس تک التوا میں رکھ کر سودی نظام جاری رکھنے کا اہتمام کیا… اب بھی اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ نے سرکاری بنکوں کی اپیلیں واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے مگر جب تک حکومت نجی شعبہ کی جانب سے دائر درخواستیں واپس کروانے کے لیے موثر اقدام نہیں کرتی، اور معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اس کی جانب سے نہیں کئے جاتے، جناب اسحق ڈار کا یہ اعلان قوم کو بے وقوف بنانے اور سستی شہرت کے حصول کی ایک کوشش کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ حکومت کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ملک و قوم کی فلاح میں واقعی سنجیدہ ہے اور اس کے لیے اسلامی معیشت و معاشرت کو رائج کرنے کے لیے موثر قانون سازی اور عملی پیش رفت کرنا ہو گی جس کے لیے کسی عدالتی حکم کی بھی ضرورت نہیں قرآن و سنت اور آئین کی رہنمائی ہی کافی ہے…!!!

(حامد ریاض ڈوگر)