(15 ستمبر 1933ء۔22 مارچ 2021ء)
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر پروفیسر گوہر صدیقی مرحوم و مغفور کی شخصیت پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔
خوش نصیب اور قابلِ رشک ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ربّ کریم اپنی بندگی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے عشق کی دولت سے نوازنے کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا کی خدمت کی توفیق اور عجز و انکسار کی دولت سے بھی سرفراز کرتا ہے۔ پروفیسر گوہر صدیقی کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں تھا۔
ان کے بزرگ مغلوں کے دور میں اُن کے بچوں کے اتالیق کے طور پر حجاز مقدس سے ہندوستان آئے تھے۔ مغل حکمرانوں نے اُن کی خدمات کے صلے میں اُن کی خواہش معلوم کی تو انہوں نے مال و دولت یا جاگیر طلب نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ ہمیں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے قرب و جوار میں بسا دیں۔ اس طرح ان کے بزرگوں کا خاندان حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار سے 22 میل کے فاصلے پر بسا دیا گیا، جہاں ان کے دادا، دادی، والد اور والدہ پیدا ہوئے۔ ننھیال اور ددھیال کا تعلق بھی وہیں سے تھا۔
گوہر صدیقی صاحب کی ولادت پٹیالہ میں ہوئی جہاں ان کے والد گرامی بوجہ ملازمت مقیم تھے۔ اُن کے والد ظہور محمد شہید محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ وہ ریاست پٹیالہ اور اس کے قرب و جوار کی ریاستوں میں تعینات رہے۔ 1947ء میں وہ پٹیالہ شہر کے سب سے بڑے پولیس افسر تھے۔ ان کی دادی 16 سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں۔ 19 سال کی عمر میں دادا کا انتقال طاعون کی وبا میں ہوگیا تھا۔
قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو پٹیالہ میں ان کے عزیز و اقارب اور ڈیڑھ سو کے قریب دوسرے مسلمان حفاظت کی غرض سے ان کی سرکاری قیام گاہ میں پناہ گزین ہوئے جو کہ دو ایکڑ پر مشتمل تھی۔ بدقسمتی سے مسلّح جتھوں نے ان کے گھر پر حملہ کردیا جس میں وہ خود، ان کے سب سے چھوٹے بیٹے ادریس محمد سمیت 108 افراد شہید ہوگئے اور باقی زخموں سے چُور تھے۔ انہوں نے اپنے زخمی بیٹے گوہر صدیقی کو تلقین کی کہ اپنی ماں اور دونوں بہنوں کو لے کر پاکستان چلے جائو، وہاں پہنچ کر اپنی تعلیم پر توجہ دینا تاکہ تم پاکستان کی بہتر خدمت کرسکو۔ واضح رہے گوہر صدیقی کے اپنے بازو میں گولی پیوست تھی اور ان کی بہن کے سر میں کرپان کا دو انچ گہرا زخم لگا تھا جس سے وہ لہولہان تھیں۔
گوہر صدیقی صاحب اپنی زخمی والدہ جن کی عمر اُس وقت تیس سال کے قریب تھی (جب کہ خود گوہر صدیقی صاحب کی اپنی عمر 14 سال تھی) اور اپنی دونوں بہنوں (جو اُن سے بہت چھوٹی تھیں) کو لے کر مہاجرین کی ٹرین کے ذریعے براستہ لاہور ضلع جھنگ میں شاہ جیونہ پہنچے۔ وہاں پہنچنے کے چند دنوں بعد ہی انہوں نے ہائی اسکول شاہ جیونہ میں آٹھویں کلاس میں داخلہ لے لیا۔
وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ اور دونوں بہنوں کی کفالت کے لیے رات میں چوکیداری کی نوکری اور دن میں اسکول کے بعد ایک چکی پر محنت مزدوری کرتے رہے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد انہوں نے جھنگ شہر میں ایک رفاہی ادارے کے تحت چلنے والے پرائیویٹ اسکول میں جونیئر ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی لیکن تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے ایم اے اردو پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا البتہ بی ایڈ ریگولر طالب علم کی حیثیت سے لاہور ٹیچر ٹریننگ کالج سے پاس کیا۔ انہوں نے پہلی جماعت سے لے کر آخر تک تمام امتحانات اچھی پوزیشن کے ساتھ پاس کیے تھے۔
اُن کی خوش قسمتی یہ تھی کہ جب وہ پیدا ہوئے تو ان کے برابر والے مکان میں قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوریؒ رہائش پذیر تھے۔ اگرچہ وہ جج کی حیثیت سے انبالہ ڈویژن میں تعینات تھے، لیکن اُس وقت وہ پٹیالہ شہر میں عارضی طور پر اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھے۔ انہوں نے ہی گوہر صدیقی صاحب کے کان میں اذان دی اور پہلی گھٹی پلائی تھی۔ واضح رہے کہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری اردو زبان کے اوّلین سیرت نگاروں میں سے ایک ہیں، انہوں نے کئی کتب کے علاوہ سورہ یوسف کی تفسیر ’’الجمال والکمال‘‘ کے نام سے بھی لکھی تھی۔ یہ کہنا تو دشوار ہے کہ اردو زبان میں سیرت النبیؐ کے پہلے مصنف کون تھے کیوں کہ مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ نے یہ لکھا تھا کہ اُن سے پہلے سیرت پر ایک کتاب کسی اور مصنف کی بھی ہے۔ البتہ یہ بات بالکل درست ہے کہ علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کی سیرت النبیؐ کی تصنیف سے پہلے اُن کی سیرت کی کتاب تین جلدوں میں’’رحمت اللعالمینؐ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی تھی۔ گوہر صدیقی صاحب اپنی اس خوش بختی پر ہمیشہ نازاں رہے کہ اللہ نے انہیں قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی وجہ سے عشقِ رسولؐ کی دولت عطا فرمائی۔
سرہند شریف میں ایک طرف پنجابی بولنے والے، دوسری طرف اردو بولنے والے رہتے تھے، لیکن ان کو دونوں زبانوں پر مہارت حاصل تھی۔ جھنگ آنے کے بعد انہوں نے اس علاقے کی علمی زبان کے ساتھ ساتھ عام دیہاتی زبان پر دسترس حاصل کی۔ اس بات کی تصدیق جھنگ کے اہم شاعر ڈاکٹر صفدر سیال نے کی، جنہوں نے کہا کہ ایسی معیاری زبان میں مَیں بھی تقریر نہیں کرسکتا۔ دعوتی اور سیاسی جدوجہدکے لیے مقامی زبان پر مہارت بنیادی ضرورت ہے۔
گوہر صدیقی صاحب سے غائبانہ تعارف تو اُن کے اردو ڈائجسٹ میں چھپنے والے افسانوں اور انشائیوں سے ہوا تھا۔ وہ گاہے بہ گاہے اردو ڈائجسٹ میں لکھتے رہتے تھے۔ البتہ اُن کو1966ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کُل پاکستان اجتماع عام لاہور کے اجلاس میں پہلی بار دیکھا۔
میں 1985ء میں ملک میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کی کوریج کے لیے ہفت روزہ ’تکبیر‘ کی طرف سے جھنگ گیا تھا۔ تکبیر کا اجرا محمد صلاح الدین (شہید) نے عرب نیوز سعودی عرب کے سید محمد علی مرحوم اور میری شراکت داری میں ایک سال قبل 1984ء میں کیا تھا۔
جھنگ شہر میں گوہر صاحب کے علاوہ دو مزید سیاسی لوگوں سے تعارف تھا۔ ایک نواب افتخار انصاری مرحوم اور دوسرے چودھری محمد ادریس مرحوم۔ یہ دونوں حضرات 1962ء کی مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے۔ ان دونوں حضرات سے میری ملاقات رہی۔ چودھری محمد ادریس سے میں نے کہا کہ آپ کا جو تجزیہ ہے وہ اپنی جگہ، لیکن مجھے کسی ایسے آدمی کا نام بتا دیں جو گروہی سیاست سے ہٹ کر غیر جانب دارانہ تجزیہ کرکے میری رہنمائی کرسکے۔ تو انہوں نے جماعت اسلامی پر اپنے سبّ وشتم کے بعد کہا ’’تمہاری اس معاملے میں ایک شخص ہی رہنمائی کر سکتا ہے جو ہے تو اگرچہ جماعت اسلامی کا لیڈر، لیکن وہ اتنا دیانت دارانہ تجزیہ کرے گا جس سے تمہاری صحیح رہنمائی ہوسکے گی‘‘۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس کا نام گوہر صدیقی ہے اور میرا یہ آدمی آپ کو اُن کے گھر پہنچا دے گا۔
گوہر صدیقی صاحب کے حکیمانہ اور دیانت دارانہ تجزیے اور مشورے کی ایک شہادت جھنگ کی معروف سیاست دان عابدہ حسین نے بھی دی۔ ان کے والد کرنل عابد حسین نے اپنی بیٹی کو سیاسی امور میں مشورہ کرنے کے لیے 12 افراد کی ایک فہرست دی تھی۔ یہ تمام افراد ان کے سیاسی مخالف تھے۔ ان میں پروفیسر گوہر صدیقی بھی شامل تھے۔ کرنل عابد حسین نے اپنی بیٹی سے کہا کہ ان سے جب بھی میں نے کوئی مشورہ مانگا، انہوں نے دیانت داری سے دیا۔ یہ بات عابدہ حسین نے گوہر صدیقی کو بتائی تھی۔
میں چودھری محمد ادریس کے آدمی کے ساتھ گوہر صدیقی صاحب کے گھر عامر کالونی پہنچا، تو ان کے گھر سے بتایا گیا کہ وہ تنظیم اساتذہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور گئے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ گوہر صدیقی صاحب تنظیم اساتذہ کے بانی اور پہلے صدر تھے۔ اس موقع پر تو ان سے ملاقات نہ ہوسکی البتہ میری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ اگلے سال 1986ء میں استاذِ محترم پروفیسر سید لطف اللہ مرحوم نے مجھے فون کیا اور کہا کہ تم میرا یہ کام کرنا کہ میرے مہمان آرہے ہیں، میں نے اپنے گھر پر ان کی رہائش اور طعام کے سارے انتظامات کردیے ہیں، لیکن میں گھر پر نہیں ہوں گا کیوں کہ میرے قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے۔ پروفیسر صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ تم ان کو ائرپورٹ سے لے کر میرے گھر پہنچا دینا۔ تو میں نے عرض کیا کہ سر میں ان کو اپنے گھر نہ لے آئوں؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، ان کو حج پر جانا ہے اور صبح ان کے ساتھ حاجی کیمپ جانا ہے اور وہاں تمام ضروری کارروائی پوری کرانی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ کام میں بھی کروا سکتا ہوں اور اس کے بعد آپ سے ملانے کے لیے آپ کے گھر بھی لے آئوں گا۔
اس طرح میرا پہلا تفصیلی تعارف گوہر صدیقی صاحب سے ہوا۔ اُس وقت میری والدہ بھی حیات تھیں۔ اُن کی گوہر صاحب کی والدہ کے ہم عمر ہونے کی وجہ سے اور تقسیم کے وقت ایک جیسے حالات سے گزرنے کی وجہ سے انسیت پیدا ہوگئی۔ میں نے گوہر صاحب سے درخواست کی کہ جب آپ حج سے واپس آئیں تو میرے ہی گھر قیام کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھئی اس کی اجازت تو تمہیں پروفیسر لطف اللہ صاحب سے لینی ہے، اگر وہ راضی ہوں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے لطف اللہ صاحب کی خدمت میں درخواست کی تو انہوں نے اسے قبول کرتے ہوئے کہا: لیکن ایک دن میرے گھر ضرور رہنا ہے۔
میرے گھر ان کے چند دنوں کے قیام نے مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کا گرویدہ بنادیا۔ اُن کی بڑی خوبی میں نے یہ محسوس کی کہ وہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے تھے اور ان کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی تھیں۔ وہ اپنے سیاسی خیالات اور مسلک سے اختلاف رکھنے والوں کے نام بھی عزت و احترام سے لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جھنگ شہر کے تمام مکاتبِ فکر میں ان کا احترام پایا جاتا تھا۔ ان کو ’’جھنگ کا سرسید‘‘ کا خطاب دینے والے ڈاکٹر سلیم صفدر سیال کا تعلق اہلِِ تشیع مکتب فکر سے تھا۔ وہ ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تحقیقی کام کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل بھی تھے۔ (ڈاکٹر سلیم صفدر سیال نے پاکستان میں پائی جانے والی کالی بھینسوں پر تحقیق کی تھی اور اسے ’’بلیک گولڈ‘‘ کا نام دیا تھا۔)
گوہر صدیقی صاحب نے مجھے بتایا کہ 1950ء کے ابتدائی عشرے میں اپنے اسکول میں ایک ساتھی استاذکے ذریعے جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے۔ گوہر صدیقی صاحب 1956ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور 1960ء میں ضلع جھنگ کے امیر اور صوبائی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے، جب کہ 1965ء میں وہ مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے دو مرتبہ چار، چار سال کے لیے رکن منتخب ہوئے۔ 1964ء میں ان کی شادی ضلع گوجرانوالہ کے امیر جماعت اسلامی چودھری محمد اسلم کی صاحبزادی طاہرہ بتول سے ہوئی، ان کا نکاح مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے پڑھایا تھا (طاہرہ بتول کے والد چودھری محمد اسلم کا102 سال کی عمر میں گزشتہ سال امریکہ میں انتقال ہوا، وہ آخر تک جماعت اسلامی کے رکن رہے)۔ طاہرہ بتول نے عصری تعلیم کے ساتھ مولانا محمد چراغ سے تفسیر قرآن سبقاً سبقاً بھی پڑھی تھی۔ تاہم ان کا چھ سال بعد ہی چھاتی کے کینسر کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ گوہر صاحب نے ملتان، لاہور جہاں جہاں ممکن تھا ان کا علاج کروایا لیکن بدقسمتی سے کینسر کی تشخیص خاصی دیر سے ہوئی۔ ان سے ایک بیٹا صہیب فاروق اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کی دوسری شادی 1972ء میں لیہ گورنمنٹ ہائی اسکول کی سینئر ٹیچر حلیمہ سعدیہ انصاری بی اے، بی ایڈ سے ہوئی۔ انہوں نے شادی کے بعد سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر گوہر صاحب کے قائم کردہ غزالی اسکولز میں پڑھانا شروع کردیا۔
گوہر صاحب کے انتقال کے ایک سال بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ ان سے تین بیٹے جنید فاروق، وقاص فاروق، منیب فاروق اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ گوہر صاحب کے سب سے بڑے بیٹے صہیب فاروق ائر فورس میں پائیلٹ تھے۔ گوہر صاحب نے 2000ء میں ان سے کہا کہ اب میری صحت ایسی نہیں اس لیے تم فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر میرے ساتھ تعلیم کے شعبے میں میری معاونت کرو۔ فرماں بردار بیٹے نے مستعفی ہونے کی درخواست دے دی حالانکہ اُس وقت کمانڈر صہیب فاروق پاکستان نیوی کے سربراہ کے جہاز کے پائیلٹ تھے جنہیں کمانڈر صہیب فاروق کو ریلیز کرنے پر تامل تھا۔ انہوں نے صہیب فاروق کو اپنے فیصلے سے باز رکھنے کے لیے کہا کہ اس سے تمہیں بڑا مالی نقصان ہوگا۔ تمہیں وہ پلاٹ بھی سرینڈر کرنا پڑے گا جو تمہیں اسلام آباد میں فوج کے کوٹے پر ملا ہے اور پنشن میں بھی بہت کٹوتی یا مکمل طور پر ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب درست، مگر میں اپنے باپ کے حکم کو نہیں ٹال سکتا۔ اس کے بعد فوج نے ان کے بارے میں یہ انکوائری کی کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دوسرے ملک میں اچھی ملازمت کے لیے جانا چاہتے ہوں۔ جب ان کا پورا اطمینان ہوگیا تو ان کی ریٹائرمنٹ کی درخواست منظور کی۔
گوہر صدیقی صاحب نے پہلے ان کو ایک اسکول دیا جسے انھوں نے کامیابی کے ساتھ چلایا۔ واضح رہے کہ گوہر صدیقی صاحب نے اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو، کامیابی کے ساتھ چلتے ہوئے اسکول سپرد کیے۔ ان کے سارے بیٹے، بیٹیاں اور بہوئیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
گوہر صدیقی صاحب کا ایک بڑا اور نہایت قابلِ قدر کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے اسکولوں میں زیر تعلیم متمول خاندانوں کے بچوں کو حفظِ قرآن کی دولت سے سرفراز کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ پانچویں جماعت کے بعد موسم گرما کی تعطیلات میں اپنے اسکول کے ذہین بچوں کو ایک مستند قاری صاحب سے دو ماہ میں یہ اندازہ لگواتے تھے کہ کن بچوں میں قرآن حفظ کرنے کا رجحان اور صلاحیت موجود ہے۔ اس کے بعد ان کے والدین سے یہ درخواست کی جاتی تھی کہ اگر آپ اپنے بچوں کو حفظِ قرآن کرنے کی اجازت دے دیں تو میں چار سال میں حفظ ِقرآن کے ساتھ جماعت ششم تا ہفتم امتحانات کی پوری تیاری کرواکے گورنمنٹ بورڈ سے آٹھویں جماعت کا امتحان دلوا دوں گا، اس طرح ایک سال زائد لگاکر آپ کا بچہ آٹھویں جماعت پاس کرنے کے ساتھ ساتھ حافظِ قرآن بھی بن جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت ان کے اسکولوں میں زیر تعلیم متمول خاندانوں کے سینکڑوں بچے حفظِ قرآن کی دولت سے سرفراز ہوئے۔ ان بچوں نے اعلیٰ تعلیم کے مدارج بھی طے کیے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ مناصب تک پہنچے۔
انہوں نے جماعت اسلامی کے تحت دو ایکڑ رقبے پر ایک دینی مدرسہ جامعہ معارف اسلامیہ بھی قائم کیا جس کے وہ سربراہ رہے، اور اس وقت اس ادارے کے سربراہ جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد خان بلوچ ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بچیوں کی دینی تعلیم کے لیے مدرسۃ البنات بھی قائم کیا۔ انہوں نے شاہ جیونہ میں کلیم میں ملنے والی اپنی زرعی اراضی فروخت کرنے کے بعد اس میں سے اپنی دونوں بہنوں کا حصہ ادا کرکے بقیہ رقم سے اسکول اور کالج قائم کیا اور عامر کالونی میں اپنا ذاتی گھر تعمیر کیا۔
گوہر صدیقی صاحب نے اپنے اسکولوں میں یہ اہتمام بھی کیا کہ بچوں کو خوش خطی سکھانے کے لیے تختی لکھوائی جائے (جس کے نام سے بھی آج کے بچے قطعی ناآشنا ہیں)۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اسکول میں ایک بڑا کمرہ مختص کرتے تھے جس میں بچوں کو نہ تو تختی دھونی پڑتی تھی اور نہ ان کے کپڑے خراب ہوتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے الگ اسٹاف رکھا تھا جو تختی لکھنے کے پیریڈ سے پہلے بچوں کو باقاعدہ صاف ستھرے ایپرن پہناتے تھے اور ان کے سامنے تختیاں رکھ دی جاتی تھیں۔ تختی لکھنے کے بعد استاذ اس کی اصلاح کرتا تھا اور بچوں سے اس کی تصحیح کروائی جاتی تھی، اس کے بعد بچے تختیاں وہیں چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔
بڑے بیٹے صہیب فاروق کو ائیر فورس میں جانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں کیڈٹ کالج قائم کرنے کا اجازت نامہ مل گیا۔ یہ پاکستان کا پہلا طلبہ و طالبات کیڈٹ کالج ہے جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں آباد غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے بچے بھی زیر تعلیم ہیں جو کہ پارسی، ہندو، سکھ اور کرسچین مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔گوہر صاحب کی ہدایت پر روزِ اوّل سے ہی وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذاہب کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
گوہر صاحب نے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے بڑے بیٹے صہیب فاروق کو روزِاوّل سے ہی پورے اختیار کے ساتھ کالج چلانے کی ذمے داری دے دی تھی جسے وہ بڑی کامیابی سے نبھا رہے ہیں۔ کیڈٹ کالج کی طالبات جھنگ شہر کے کیمپس میں زیر تعلیم ہیں اور طلبہ شہر سے بیس میل دور بیس ایکڑ رقبے پر نئے تعمیر ہونے والے کیمپس میں منتقل کردیے گئے ہیں جہاں ایک بہت خوب صورت مسجد گوہر صدیقی کی پہلی بیگم کے نام سے مسجد طاہرہ تعمیر کی گئی۔
ڈاکٹر سلیم صفدر سیال نے انہیں ’’جھنگ کے سرسید‘‘ کا خطاب یوں ہی نہیں دیا تھا۔ گوہر صدیقی صاحب انتقال سے دو سال قبل علالت کی وجہ سے اپنی تمام مصروفیات ترک کرچکے تھے لیکن انتقال سے چھ ماہ قبل ان کی عمر 88 سال سے اوپر ہو چکی تھی اس کے باوجود وہ ہمت کرکے اسکول گئے جہاں انہوں نے حسب معمول کلاس لی۔ واضح رہے گوہر صدیقی صاحب نے 60 سال کلاس میں کھڑے ہوکر پڑھایا، وہ کلاس لیتے وقت کبھی کرسی پر نہیں بیٹھے۔ ان سے براہِ راست تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد پچاس ہزار سے زائد، اور ان کے کالج اور اسکولوں میں دوسرے اساتذہ سے ان کی نگرانی میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے متجاوز ہے۔
1975ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے گورنمنٹ اداروں میں اساتذہ کی ایک نئی تنظیم قائم کرنے کا ٹاسک دیا۔ محترم پروفیسر صاحب نے تین سال کے مختصر وقت میں پورے ملک کی جامعات اور کالجوں کے دورے کرکے تنظیم کو کھڑا کیا اور پہلے صدر کی ذمے داری بھی نبھائی۔
بھٹو دور میں نجی تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا گیا تو گوہر صدیقی صاحب کا قائم کردہ غزالی کالج بھی قومی تحویل میں چلا گیا جس کے وہ پہلے سے ہی پرنسپل تھے، اس طرح اپنے ہی کالج میں وہ ملازم پرنسپل ہوگئے لیکن انہوں نے اس حیثیت میں بھی ایک مثالی پرنسپل کا لوہا سب سے منوایا۔
گوہر صدیقی صاحب کا معمول تھا کہ اپنی زیر نگرانی چلنے والے غزالی اسکولوں میں قومی ترانے کے بعد قرآن پاک کی کسی آیت یا حدیث کے ترجمے اور تفسیر کا اہتمام کرتے تھے اور ان کے اسکولوں میں نماز باجماعت کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔
گوہر صدیقی صاحب اپنے محلے کی مسجد جس کی وہ مجلسِ منتظمہ کے صدر بھی تھے، نمازِ فجر کے بعد مختصر درسِ قرآن اور درسِ حدیث دیتے تھے جسے سننے کے لیے دوسرے محلے کے لوگ بھی کوشش کرکے وہاں نمازِ فجر کے لیے آتے تھے۔
پروفیسر صاحب نے قرآن و حدیث پڑھانے اور سمجھانے کے لیے عربی زبان بھی سیکھی۔ ان کا ادبی ذوق عمدہ تھا۔ مولانا رومؒ اور علامہ اقبالؒ کے کلام سے خصوصی انسیت تھی۔ اسی لیے شاگردوں میں ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے اسکولوں میں بیت بازی، ادبی نشستوں اور مشاعروں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
1992ء میں ادارہ’’اسلامی نظامتِ تعلیم‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا ہیڈ آفس لاہور میں ہے۔ 2006ء تک اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے، جس کے بعد یہ ذمے داری نہایت قابل نوجوان ڈاکٹر حسن صہیب مراد (شہید) کے سپرد کردی۔ شمالی علاقہ جات کی سیر کے دوران ڈاکٹر صاحب کی اچانک شہادت کے بعد آج کل سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم ڈائریکٹر جنرل ہیں، جبکہ ادارے کا نیا نامNational Association For Education (NAFE)تجویز کیا گیا ہے۔
2000ء میں پروفیسر گوہر صدیقی صاحب اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی دعوت پر امریکہ تشریف لے گئے۔ اس دوران وہاں کی مختلف ریاستوں میں اسلامی حلقوں سے خطاب کیے۔ وہ حکومتِ کویت کی دعوت پر دو بار کویت گئے جہان انھوں نے نیشنل چینلز اور ریڈیو پر لیکچر دیے۔
1990ء میں غزالی ٹرسٹ کے نام سے دیہات اور غریب علاقوں میں چیریٹی اسکولوں کا نظام کھڑا کیا جن کی ابتداً 200 اسکولوں کی Donation سے کی گئی۔ ان دوروں میں یقین دہانی اور کیش کی صورت میں اکٹھی کی گئی رقم سے اسکول قائم کیے گئے جن کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ یہ ادارے پنجاب بھر کے مختلف شہروں میں کام کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ معیاری تعلیمی سلیبس کے نام پر مغربی طاقتوں کے منصوبہ برائے ذہن سازی کے مقابلے میں معیاری کتب تیار کرنے کے واسطے ایک ادارہ AFAAQ قائم کیا گیا جس کا پہلا پرائمری قاعدہ خود اپنے ہاتھوں سے تحریر کیا، اور آج یہ ادارہ ملک بھر کے ہر تعلیمی ادارے کی ضرورت ہے۔ یہ خودمختار ادارہ اربوں روپے کے کاروبار کے فوائد بھی تحقیق کے کاموں میں صرف کررہا ہے۔
’’شاہراہِ تعلیم‘‘ اور ’’افکارِ معلم‘‘ کے نام سے 1988ء میں دو نئے جرائد کا آغاز کیا گیا جن کے ذریعے اساتذہ کی تربیت کا ایک مربوط نظام تشکیل دیا گیا۔
میری ان سے پہلی تفصیلی ملاقات کراچی میں 1986ء میں ان کے حج پر جانے اور وہاں سے واپسی پر ہوئی۔ اس کے بعد مجھے جب بھی موقع ملا میں صرف ان سے ملنے اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے دل کی سیاہی کے دھبے دور کرنے کی کوشش میں جھنگ جاتا تھا۔ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ تمہارا جھنگ سے کیا تعلق ہے کہ تم وہاں بار بار جاتے ہو؟ تو میں ان سے کہتا کہ تم کبھی میرے ساتھ چل کر تو دیکھو، تمہیں بھی مزا آجائے گا۔ ان کا طرزِ رہائش سادہ مگر پُروقار تھا۔ ان کا بچپن تو ناز و نعم میں پلا تھا مگر 14 سال کی لڑکپن کی عمر سے ہی مشقت کی زندگی گزار کر اپنی دنیا آپ بنائی۔ وہ اپنی زبان پر مشکلات کی شکایت کے بجائے خدا کی شکر گزاری کی روش پر چلنے کی کوشش کرتے تھے۔ بقول ڈاکٹر کلیم عاجز
گزری ہے ہم پر جو تم پر گزر جاتی
تم جو ہم سے کہتے تو ہم سے نہ سنا جاتا
ان کا انتقال کورونا کی وبا کے زمانے میں ہوا۔ اس زمانے میں حکومت کی طرف سے بھی جنازے میں شرکت کی محدود اجازت تھی اس کے باوجود گوہر صاحب کا جنازہ جھنگ شہر کی تاریخ کے چند بڑے اور تاریخی جنازوں میں سے ایک کا منظر پیش کررہا تھا۔ ان کی نمازِ جنازہ جماعت ِاسلامی کے سینئر رہنما حافظ محمد ادریس صاحب نے کیڈٹ کالج گرائونڈ میں پڑھائی۔
جس طرح کی زندگی گزار کر انہوں نے اپنی دنیا آپ بنائی اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اپنے پائوں پر کھڑا کیا، اس پر سید ضمیر جعفری مرحوم کا یہ شعر بے ساختہ یاد آتا ہے:
عصرِ حاضر تجھ کو کیا معلوم ہم کیا لوگ تھے
جو صدی آئی نہیں اُس کی صدا ہم لوگ تھے