بھارت نے کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے اور انہیں اقلیت میں بدلنے کے لیے اسرائیل کے تجربات سے استفادہ کرنا شروع کردیا ہے
امریکی یہودی کمیٹی ’’اسرائیل امریکن جیوش کمیٹی‘‘ کا ایک وفد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ ملاقات کرکے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعاون کے نئے امکانات اور راستوں پر بات چیت کررہا تھا، تو عین انہی لمحوں میں دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کے زرعی اتاشی یائر ایشیل کنڑول لائن کے قریب دو زرعی فارموں کا دورہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اسرائیل مقبوضہ کشمیر میں بھارت اسرائیل زرعی منصوبے کے تحت دو سینٹر آف ایکسی لنس کھولنے کے لیے تیار ہے، ہم اپنی جدید ٹیکنالوجی جموں و کشمیر کے کسانوں کو دینے کو تیار ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسرائیل کی طرف سے زرعی شعبے میں دلچسپی کا خیرمقدم کیا ہے۔
اسرائیل اور بھارت کے درمیان کھلے تعلقات کا آغاز تیس سال قبل ہوا تھا، اور نریندر مودی کے دور میں یہ تعلقات بلندیوں کی انتہا پر پہنچ گئے۔ مودی نے ان تعلقات کو باضابطہ اونرشپ دی اور وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بنے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ نریندر مودی نے اس دورے میں فلسطینیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا اور رام اللہ (Ramallah) کا دورہ کرنے سے قطعی احتراز کیا۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بھارت اب فلسطینی عوام کی تحریک اور مستقبل کے بارے میں اپنا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل کرچکا ہے، اور اس فریم میں فلسطینیوں کی الگ حیثیت یا ریاست کا کوئی تصور نہیں۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت پر جھپٹّا مارا تو مغرب کی خاموش تماشائی کی حیثیت اور کردار کی پرتیں کھلنا شروع گئیں۔ بھارت نے کشمیر میں اپنے راستے کے تمام قانونی اور آئینی بیریئر اکھاڑ پھینکتے ہوئے دنیا کے چند طاقتور ملکوں کو بتایا تھا کہ وہ انہیں کسی نہ کسی انداز میں اس نئی حاصل کردہ اسپیس میں شریک کرے گا۔ ان میں سرفہرست اسرائیل تھا، جبکہ عرب دنیا کا دوسرا نمبر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ اگست کے قدم کے خلاف عرب دنیا نہ صرف خاموش رہی بلکہ پاکستان اور عمران خان کو ایسے ہی صبر کی تلقین کرتی رہی جس ’’صبر وتحمل‘‘ کا مظاہرہ انہوں نے فلسطین میں کیا تھا۔ صبر و تحمل کی اس تلقین پر پاکستان اور عرب ملکوں کے درمیان تلخی کا ماحول بھی بنا اور پاکستان کے وزیراعظم نے کوالالمپور کانفرنس کا فیصلہ کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہم خیال ملکوں کا او آئی سی سے ہٹ کر ایک نیا پلیٹ فارم بنانے کی دھمکی دی۔ عرب ملکوں کے پیروں تلے سے زمین سرکنے ہی لگی تھی کہ پاکستان کو اندر سے مجبور کرکے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا۔
اب عربوں کو تو کشمیر میں محض شراکت داری کا لولی پاپ ہی دیا گیا ہے، اصل شراکت دار اسرائیل ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی زمین انچوں، گزوں اور ایکڑوں میں ہتھیانے کا مجرم ہے۔ اسرائیل نے پہلا کام ہی یہ کیا تھا کہ فلسطینیوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں، جب یہودیوں کی آبادی ان علاقوں میں بڑھ گئی تو یہودی اکابرین کے ”اعلانِ بالفور“ پر عمل درآمد کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوا۔ بین الاقوامی طاقتیں اسی موقع کی تاک میں تھیں، انہوں نے بیرونی مدد کرکے اسرائیل کی ریاست قائم کردی۔ بعد میں فلسطینی در بہ در ہوتے چلے گئے اور ان کی زمینوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر ہوتی رہیں۔ آج فلسطین ایک نقطہ ہے اور اسرائیل ایک بڑا دائرہ۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان فوجی تعاون تو تیس برس سے جاری ہے، اور یہ تعاون 1990ء میں اُس وقت بے نقاب ہوا تھا جب کشمیری حریت پسندوں نے جھیل ڈل میں ایک شکارے پر حملہ کرکے اسرائیلی کمانڈوز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سیاحوں کے روپ میں کمانڈوز تھے جنہوں نے حریت پسندوں کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ بعد میں یہ تعلق مختلف واقعات کی صورت میں عیاں ہوتا چلا گیا۔ اب بھارت نے کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے اور انہیں اقلیت میں بدلنے کے لیے اسرائیل کے تجربات سے استفادہ کرنا شروع کردیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کشمیریوں کی زمینیں عرب باشندوں کے ناموں سے یا انہیں آگے رکھ کر خریدی یا استعمال میں لائی جائیں مگر اس کے پیچھے حقیقت میں اسرائیل اور بھارت ہی ہوں گے۔ بھارت نے پانچ اگست کے فیصلے کے ذریعے متروکہ املاک کے نام پر مختلف جنگوں اور دوسرے مواقع پر نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی زمینوں کا کنٹرول اور حقِ ملکیت حاصل کرلیا ہے۔ فی الحال تو انہیں نئی زمینیں حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، مگر ہتھیائی گئی زمینوں کو ماڈل بستیاں یا باغ بنانے کے بعد کشمیر کے دوسرے زمینداروں کو بھی اپنی طرف دیکھنے اور شراکت داری قبول کرنے پر مجبور کریں گے۔ اسی لیے کشمیر کی سب سے بڑی صنعت سیب کو حیلوں بہانوں سے تباہ کیا جارہا ہے تاکہ باغوں کے مالکان نئے تجربات کے نام پر بھارت اوراسرائیل کی شراکت داری قبول کرلیں۔اونٹ کو خیمے میں سر دینے تک مشکل ہوتی ہے، یہ کام ایک بار ہوگیا تو پھر خیمہ اس کے سر پر ہوتا ہے۔