پاکستانی قوم غور کرے کہ 1951ء سے لے کر آج تک کسی نہ کسی صورت میں قومی انتخابات کا سلسلہ جاری ہے جس میں چند سو خاندان مسلسل حصہ لے رہے ہیں۔ اکثریت اُن خاندانوں کی ہے جن کے آبا و اجداد انگریز کے دور میں بھی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کرتے رہے ہیں۔
جماعتیں تبدیل ہوتی رہیں، افراد بھی تبدیل ہوتے رہے لیکن خاندانوں کی نمائندگی ہر اسمبلی میں بدستور موجود ہے۔ ہر بار کے انتخاب کے اخراجات جمع کیے جائیں تو اب تک ہر خاندان کی دولت ختم ہوجانی چاہیے تھی، بلکہ الیکشن بازوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے کی نوبت آنی چاہیے تھی۔ لیکن معاملہ برعکس ہے۔
ہر انتخاب کے بعد انتخاب لڑنے والوں کی دولت میں اضافہ ہی ہوا ہے، اس لیے کہ یہ پیشہ ور الیکشن باز نام تو ملک و قوم کی خدمت، فلاح اور ترقی کا لیتے ہیں لیکن درحقیقت ساری جدوجہد اور تسلسل اپنے ذاتی اقتدار، اثر رسوخ اور مال و دولت میں بے حساب اضافے کے لیے ہے۔
انتخاب کو مذکورہ قوت نے تجارت بنا دیا ہے، اور پاکستان ستّر سال سے انتخابی تجارت کا شکار ہے جس کی وجہ سے کوئی جماعت برسراقتدار آجائے صورتِ حال بد سے بدتر ہوجاتی ہے۔
اس انتخابی مافیا نے انتخاب کو اتنا مہنگا اور خوف ناک بنادیا ہے کہ شریف، سفید پوش اور مخلص فرد کا انتخاب میں حصہ لینا ناممکن ہوگیا ہے۔
انتخابات کے تجارتی مافیا نے ایسے ایسے جال بچھائے ہیں کہ قانون، ضابطے بے بس نظر آتے ہیں۔
اس مافیا نے کرپشن اور لاقانونیت کو جاری رکھنے کے لیے ایسے سائنسی طریقے ایجاد کرلیے ہیں کہ اندھیرے میں نظر آنے کے باوجود بھی تحقیقاتی ادارے ثبوت و شواہد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اس مافیا نے اپنے اپنے حلقے میں ہزاروں نودولتیے پروان چڑھائے ہیں تاکہ وہ بطور سرمایہ کار امیدواروں پر خرچ کریں۔ امیدوار اخراجات کے گوشوارے میں قانونی حد پوری کردے اور باقی اخراجات جانثاران کے کھاتے میں ڈال دے اور دستاویزی ضرورت پوری کرکے خود بھی ملک و قوم سے اپنے اخراجات مع منافع حاصل کرے اور اپنے سرمایہ کاروں کو اگلے انتخاب تک مال سمیٹنے کے مواقع فراہم کرے۔
اس مافیا کے کسی بھی حصے دار سے اللہ‘ رسولؐ اور دین کے واسطے ایثار کا مطالبہ کریں تو اس کی روح قبض ہوگی، لیکن پیشہ ور انتخاب بازوں کے لیے سب کچھ حاضر۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے کسی سقراط کی ضرورت نہیں۔ اللہ کی راہ میں جزا کا امکان وعدۂ فردا، انتخابی مافیا کے لیے سرمایہ کاری نقد خرچ، نقد منافع۔
پاکستانی قوم اگر ستّر سال سے جاری صورتِ حال کے خاتمے اور خوش حال پاکستان کی متمنی ہے تو اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ وہ انتخابی تجارت کرنے والے قدیمی مافیا سے نجات حاصل کرے، اور اس طرح کہ وہ آئندہ انتخاب میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب کرائے، کیوں کہ:
-1 میدانِ عمل میں موجود امیدواران خود نہیں بلکہ جماعت کے حکم پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔
-2 امیدوار اپنے انتخابی اخراجات کے خود مکلف نہیں بلکہ جماعت تمام اخراجات کی ذمے داری ہے۔
-3 جماعت کے امیدوار بہتر صلاحیت کی بنیاد پر میدانِ عمل میں آتے ہیں، کسی حسب نسب یا مال و دولت کی بنیاد پر نہیں۔
-4 ستّر سال کے دوران جس انتخاب میں جماعتی نمائندہ کامیاب ہوا اُس نے مثالی کردار قوم کے سامنے پیش کیا ہے۔ قومی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
آئیں اپنی حالت بدلیں، پیشہ وروں سے نجات حاصل کریں۔ مخلص، سفید پوش قیادت قائم کریں خوش حال اسلامی پاکستان کے لیے۔ اپنا ووٹ ترازو کے نشان کے لیے استعمال کریں۔