پارلیمانی بالادستی کی جنگ؟

پاکستان میں سیاسی قیادتیں عمومی طور پر قومی سیاسی مسائل کا حل سیاسی فورم پر تلاش کرنے کے بجائے عدلیہ کے کاندھے استعمال کرتی ہیں۔ جو مسائل سیاسی فورم پر حل ہونے چاہئیں ان کو عدالتوں میں لے جانے سے سیاسی مسائل مزید گمبھیر ہوجاتے ہیں، کیونکہ جب سیاسی فیصلے عدالتوں سے سامنے آتے ہیں تو جہاں ان کی حمایت کی جاتی ہے وہیں ان پر حد سے زیادہ تنقید بھی ہوتی ہے۔ ایک عمومی سیاسی رویہ یہ بن گیا ہے کہ اگر فیصلہ اپنے حق میں آئے تو عدلیہ آزاد بھی ہوتی ہے اور اس پر عملاً زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں، لیکن فیصلہ خلاف آتا ہے تو اسے قبول کرنے کے بجائے اس پر نہ صرف شدید تنقید ہوتی ہے بلکہ اسے متنازع بناکر عدلیہ پر جانب داری کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ پر موجود دبائو کی وجہ سے مسائل مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔

یہی بات حالیہ دنوں میں چیف جسٹس اسلام آباد جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی فراغت پر اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے بقول ’’ریاست اپنی ذمے داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہے۔ سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہیے اور باہمی تنازعات کو عدالتوں میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ کے فورم پر حل کرنا چاہیے، سردست سیاسی معاملات پر مکالمے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے پارلیمان سے بہتر کوئی دوسرا فورم نہیں ہوسکتا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنا منتخب سیاست دانوں کا فریضہ ہے، اور عوام انہیں اس پارلیمنٹ کے لیے منتخب کرتے ہیں جسے دستور نے بھی سب اداروں پر فوقیت دی ہے۔ عدلیہ بھی اختیارات کی تقسیم کے اصول کو مدنظر رکھنے کی پابند ہے۔ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور ہمارا ایک مخصوص کردار ہے، اور ہم صرف فیصلہ دے سکتے ہیں۔ آئین کی عمل داری اسی وقت ہوسکتی ہے جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو، اور سیاسی قیادت ہی آئین کی عمل داری کو مضبوط کرسکتی ہے۔‘‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بنیادی بات کہہ دی ہے کہ اگر ملک میں سیاست، جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے تو اس کے لیے سیاسی نظام، سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کو ہی مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر سیاسی قیادتیں اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے کسی اور پر اس کا بوجھ ڈال کر خود کو بچانا چاہتی ہیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ موجودہ سیاسی بحران کو ہی دیکھیں… حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، دونوں ہی اپنے سیاسی مسائل پارلیمنٹ یا سیاسی فورمز پر حل کرنے کے بجائے اوّل اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں، یا دوسری طرف ان کا جھکائو عدلیہ کی جانب ہوتا ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کچھ فیصلے کرتی ہیں تو اس پر سیاسی قیادتوں میں ماتم بھی ہوتا ہے اور پھر ناکامی کا بوجھ بھی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو سیاست دانوں کو پارلیمانی نظام مستحکم کرنے یا عملی طور پر پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے سے روکتی ہیں؟ عمومی طور پر سیاسی فریقین ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پارلیمانی نظام کو کسی بھی صورت مستحکم نہیں کرنا چاہتی اور بار بار کی سیاسی مداخلتوں کے باعث پارلیمانی نظام کمزور ہے۔ یہ سیاسی فریقین کا آدھا سچ ہے، جبکہ پورا سچ یہ ہے کہ جہاں اسٹیبلشمنٹ بہت سے معاملات کی ذمے دار ہے، وہیں سیاسی فریقین نے بھی اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس ملک میں سیاست، جمہوریت، آئین، قانون اور پارلیمان کی بالادستی کو مستحکم کرسکتا۔ اس لیے خود سیاست دانوں کو بھی… چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا حزبِ اختلاف سے… تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کی حکمت عملی میں بھی نمایاں تضادات ہیں۔

پارلیمانی نظام کی کامیابی کا دارومدار حقیقی معنوں میں پارلیمنٹ پر ہوتا ہے۔ پارلیمانی طرزعمل اور طریقہ کار طے کرتا ہے کہ ہم کس حد تک جمہوری اصولوں کی بنیاد پر پارلیمانی نظام کو چلارہے ہیں۔ پارلیمانی نظام کے حوالے سے 6 بڑے مسائل ہیں:

(1) بیشتر وزرائے اعظم اور کابینہ پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ان کی تسلسل کے ساتھ پارلیمنٹ میں عدم موجودگی، غیر ذمے داری، عدم دلچسپی کی وجہ سے پارلیمنٹ کو جواب دہ بنانا مشکل ہوگیا ہے۔

(2) پارلیمنٹ میں موجود اسٹینڈنگ کمیٹیاں غیر فعال ہیں اور وزرا کے عدم تعاون کی وجہ سے بھی اپنے مقاصد پورے نہیں کرپا رہی ہیں۔

(3) جب اہم سیاسی فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے پسِ پردہ فورمز پر ہوں اور ان اہم فیصلوں پر پارلیمنٹ کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر پارلیمانی نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان رہیں گے۔

(4) وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی طاقت کابینہ ہوتی ہے۔ لیکن مکمل کابینہ کے مقابلے میں کچن کیبنٹ کی بالادستی، یا پارلیمانی نظام کو باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

(5) جب حکومت پارلیمنٹ کے سامنے اپنے سیاسی فیصلوں پر جواب دہ نہ ہو، اور حزبِ اختلاف بھی اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے بجائے محض حکومتوں کو گرانے کا سازشی کھیل اختیار کرلے تو پھر پارلیمانی نظام کوکامیابی سے چلانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔

(6) پارلیمنٹ اور عوام کے مفادات کے درمیان ٹکرائو ہو، یا عوامی مفادات کو نظرانداز کرکے پارلیمانی نظام مخصوص طاقت ور طبقوں کے مفادات کی ترجمانی کرے تو ایسا نظام بھی لوگوں میں افادیت کھودیتا ہے۔

یہ سوال عام آدمی کی سیاست سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس معاشرے میں موجود پڑھا لکھا طبقہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ پارلیمانی نظام میں ہمارے مسائل کا حل نظر نہیں آتا۔ ان کے بقول ہمارا یہ پارلیمانی نظام طاقتور طبقات کے مفادات کا کلب ہے جس کا واحد مقصد ان مخصوص طبقات کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ اسی طرح جب پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کی حیثیت محض ایک ڈیبیٹنگ کلب کی بن جائے تو اس سطح پر ہونے والے مباحث سے عام آدمی کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارا پارلیمانی نظام قومی مسائل کے حل کے بجائے محض ایک ایسا کلب بن گیا ہے جو ارکانِ اسمبلی میں سرکاری ترقیاتی وسائل کی تقسیم یا نوکریوں کی بندر بانٹ، من پسند سرکاری ملازمین کے تبادلوں کے کھیل، ترقیاتی بجٹ کی سطح پر لوٹ مار یا ارکانِ اسمبلی کی مراعات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ قانون سازی، عمل درآمد کا نظام اور اصلاحات کا عمل بہت پیچھے چلاگیا ہے جو پارلیمانی نظام کی افادیت کو کمزور کررہا ہے۔ جب پارلیمانی نظام کمزور ہو تو اس کا براہِ راست فائدہ ان ہی قوتوں کو ہوتا ہے جو ملک میں غیر سیاسی نظام کی بالادستی چاہتی ہیں۔

اسی طرح یہ بحث بھی ہونی چاہیے کہ کیا پارلیمانی نظام کی بالادستی سیاسی جماعتوں کے ایک کمزور نظام اور ان کے داخلی غیر جمہوری نظام سے ممکن ہوسکے گی؟ کیونکہ سیاسی جماعتیں خود تو اپنے جماعتی نظام میں جمہوریت پر یقین نہیں رکھتیں اور معاملات کو آمرانہ انداز میں چلانے کو ہی ترجیح دیتی ہیں، ایسے میں ملک میں سیاست اورجمہوریت کی کامیابی کے دعووں میں کتنی حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی کمزوری کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام اور سیاسی حکومتوں نے سول سوسائٹی کو بھی کمزور کیا، اور ایسی قانون سازی کی جو ملک میں سول سوسائٹی کے کردار کو محدود کرتی ہے۔ حالانکہ سول سوسائٹی ایک ایسا نگرانی کا واچ گروپ ہے جو سیاسی نظام پر دبائو ڈال کر عوامی مفادات کی سیاست کو تقویت دیتا ہے۔ اس لیے پارلیمانی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے ہمیں ایک واضح اور شفاف روڈمیپ درکار ہے جو سیاسی نظام میں ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ کام محض سیاسی نعروں، جذباتیت پرمبنی گفتگو، خوشنما نعروں اور اپنے ذاتی مفادات کے کھیل کے ساتھ ممکن نہیں۔

اب حالات بھی بدل گئے ہیں اور لوگوں کی سوچ اور فکر میں بھی خاصی نمایاں تبدیلیاں سامنے آرہی ہیں۔ یہ سیاسی گاڑی پرانے انجن سے نہیں چل سکے گی۔ ہمیں اس کے لیے اب اپنے سیاسی نظام میں غیرروایتی اور پرانے خیالات سے باہر نکل کر جدیدیت کے ماڈل کو اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا میں موجود جمہوری ملکوں سے سیکھنا ہوگا کہ انہوں نے کیسے اپنے نظاموں میں ترقی کی اورکیسے خود کو ایک بہتر سیاسی، جمہوری اورپارلیمانی نظام میں ڈھالا ہے۔ ہم دنیا کے بہتر تجربات سے سیکھ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اپنے داخلی سیاسی اور پارلیمانی نظام کا محاسبہ کرکے اصلاح کے پہلو تلاش کریں، یہی ہمارے قومی مفاد کا تقاضا بھی ہے اور ضرورت بھی۔