ملک کی جس بھی سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کا نام لیجئے، سب کے سب جمہوریت کو ملک و قوم کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں اور آئین و قانون کی بالادستی کے علم بردار ہیں مگر اس کا کیا کیجئے کہ عمل کی دنیا میں کم و بیش سب کا کردار ان کے دعوئوں اور نعروں کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے، سب نے آئین و قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے اور اپنے اپنے مفاد کی خاطر اس ناک کو جس طرف چاہے موڑ لیتے ہیں آئین کی ایک ہی شق کو اپنے اپنے مطلب کے معانی پہنا کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اب تو کیفیت یہ ہو چکی ہے کہ ایک ہی شق کو ایک ہی سیاستدان مختلف اوقات میں مختلف بلکہ متضاد رنگ میں پیش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ جمہوریت کے اس ملک کی بقا کے ضامن ہونے پر بھی زبانی حد تک تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما بظاہر سو فیصد متفق ہیں مگر یہاں بھی عمل یہ ہے کہ آپس کے اختلافات اور تنازعات باہم مل بیٹھ کر جمہوری طریقے سے بات چیت کے ذریعے طے کرنے کے لیے تمام مقتدر اور مقبول رہنما ایسٹبلشمنٹ سے رابطے میں سہولت محسوس کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے دکھائی دیتے ہیں یا پھر عدلیہ سے رجوع کر کے اس کے پہلے سے فیصلہ طلب عوامی معاملات کے التواء اور عدلیہ کے بوجھ میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں حالانکہ مجلس شوریٰ کا پلیٹ فارم اور باہم گفت و شنید سے مسائل کے حل کی کوشش زیادہ جمہوری اورنتیجہ خیز طرز عمل ہے۔ جمہوریت کے دعویدار سیاست دانوں کا تقریباً متفقہ لائحہ عمل یہ بھی ہے کہ ملک میں انتخابات کا مطالبہ تو بہت زور شور سے کیا جاتا ہے لیکن جہاں انتخابات کروانا اپنے اختیار میں ہے وہاں وہ ان سے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں، سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات آئین و قانون اور جمہوری عمل کا لازمی تقاضا ہے مگر وطن عزیز میں جماعت اسلامی کے واحد استثنیٰ کے ساتھ جس میں ہر سطح کے انتخابات باقاعدگی اور تسلسل سے کروانے کی روایت خاصی مستحکم ہے کسی دوسری سیاسی جماعت میں اندرونی انتخابات کروانے کا رواج ہی نہیں، کم و بیش تمام جماعتیں خاندانی اور موروثی حیثیت حاصل کر چکی ہیں ان میں خاندان سے باہر قیادت کے منصب کو کسی دوسرے فرد کا حق تسلیم کرنے کا تصور ہی ناقابل قبول ہے یہی وجہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت تمام جماعتوں کی قیادت وراثت میں منتقل ہوتی چلی جا رہی ہے، جماعت اسلامی کے علاوہ تحریک انصاف میں بوجوہ سیاسی قیادت کی موروثیت کا یہ تصور نہیں ہے مگر تحریک انصاف بھی عمران خاں کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے اور کئی بار کے اعلانات کے باوجود جماعت کے اندرونی انتخابات کروانے کے متحمل وہ بھی نہیں ہو سکے…!
بلدیاتی ادارے جمہوری نظام میں بنیاد کی اینٹ قرار دیئے جاتے ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو مقامی شہری مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کا موقع ملتا ہے مگر ہمارے یہاں کی سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کی روایت یہی رہی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کروانے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہیں پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو زیادہ تر فوجی آمروں کی حکومتوں ہی میں اختیار اور استحکام ملا ہے دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت بھی ملک کی چھائونیوں کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات تو تقریباً ایک برس قبل ہو چکے ہیں مگر سیاسی جماعتوں کی صوبائی حکومتوں کی کوشش یہی ہے کہ اول تو بلدیاتی ادارے وجود ہی میں نہ آ سکیں اور اگر کسی مجبوری کے سبب ان کے انتخابات کروانا بھی پڑیں تو ان کے منتخب نمائندوں کو اختیارات سے محروم رکھا جائے پیپلز پارٹی اس بات پر بہت نازاں ہے کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں آئین میں اٹھارویں ترمیم منظور کروا کے اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کئے مگر اسی آئین میں بلدیاتی اداروں اور ان کے منتخب نمائندوں کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں، وہ انہیں دینے پر کسی طور آمادہ نہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب میں تاحال بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انتخابات تو کرائے مگر منتخب میئر کا تعلق چونکہ مسلم لیگ (ن) سے تھا اس لیے انہیں چلنے نہیں دیا گیا اور دوبار انہیں ان کے منصب سے ہٹا کر آمرانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ صوبہ خیبر میں بلدیاتی انتخابات کروائے تو گئے مگر جب صوبائی دارالحکومت پشاور اور بعض دیگر شہروں میں تحریک انصاف کے میئر منتخب نہ ہو سکے تو صوبائی حکومت نے اپنی شکست کو خوش دلی سے قبول کرنے کی بجائے بلدیاتی اداروں کے اختیارات بہت زیادہ کم اور محدود کر دیئے جس کے خلاف منتخب نمائندوں نے عدالت سے رجوع کیا جہاں معاملہ تاحال زیر سماعت ہے۔ بلوچستان میں بھی اگرچہ بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں مگر مقامی سرداری نظام کے باعث قطعی غیر موثر ہیں یہاں بھی صوبائی حکومت بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات اور مالی وسائل فراہم کرنے پر تیار نہیں جس کے سبب عوام کے مقامی مسائل جوں کے توں ہیں، یہی وجہ ہے کہ گوادر کے منتخب رہنما مولانا ہدایت الرحمن اپنی ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک دوبارہ منظم کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سندھ میں چودہ پندرہ برس سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو ملک بھر میں سب سے بلند آہنگ عوام کے حقوق کا نعرہ بلند کرتی ہے مگر نچلی سطح کے عوامی جمہوری اداروں کو اختیارت دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سندھ کے اندرونی اور دور دراز علاقوں میں بلدیاتی انتخابات تو کروا دیئے گئے ہیں مگر یہاں کے نمائندوں کے پاس اختیارات اور وسائل نام کی کوئی چیز نہیں جب کہ کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں پیپلز پارٹی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے میں مسلسل لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے احکام کو بھی حیلوں بہانوں سے ٹال دیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی عدالت عالیہ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی انتخابات کروانے سے متعلق جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی درخواستوں کی سماعت کے دوران منصف اعلیٰ کے استفسار پر کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود انتخابات نہ کروا کر توہین عدالت کا ارتکاب کیوں کیا جا رہا ہے؟ الیکشن کمشنر سندھ نے کہا کہ ہم کراچی میں پندرہ دن میں انتخابات کروانے پر تیار ہیں جس پر عدالت عالیہ نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا مگر سندھ کی صوبائی حکومت کے وکیل نے عدالت میں بھی حیلہ جوئی اور بہانہ سازی کا سہارا لیا جب کہ صوبائی کابینہ پہلے ہی تین ماہ تک انتخابات نہ کروانے کا اپنا فیصلہ سنا چکی ہے! کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ہے…؟؟؟
(حامد ریاض ڈوگر)