وزیرِاعظم نے فرمایا……

لکھتے لکھتے اپنا بھی وہی حال ہوا، جوکہتے کہتے میرؔ بد دماغ کا ہوگیا تھا:

شعر میرے ہیں سب خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

صاحبو! یہ شذرات لکھے جاتے ہیں ادب و صحافت کے طالب علموں کے لیے، مگر داد و شاباش ملتی ہے اساتذہ یا ادب و صحافت کے بزرگوں سے۔ بارے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی سے طالب علم محمد عادل نے کچھ عدل گستری سے کام لیا اور بعد تحسین و توصیف کے، یہ سوال کیا:

’’تحریر میں جو علامتیں لگائی جاتی ہیں، مثلاً(!) (:) (:-) ان کو کیاکہتے ہیں؟ ان کے استعمال کا اصول بھی سمجھا دیجیے‘‘۔

جیتے رہو عزیزمن! ان علامتوں کو ’رموزِ اوقاف‘ کہا جاتا ہے۔ رموز جمع ہے رمز کی۔ رمز کا مطلب ہے اشارہ۔ آنکھ، ابرو، ناک، ہونٹ، انگلی وغیرہ کا ہلکا یا خفیف سا اشارہ۔ خفیہ بات، بھید یا راز۔ معمے اور پہیلی کو بھی رمز کہا جاتا ہے۔ جس کلام میں کسی گہرے مفہوم کی طرف محض اشارہ کردیا جائے ایسے کلام کو ’رمزیہ‘ کلام کہتے ہیں۔ مثلاًاردو شاعری کے ’نامعلوم افراد‘ میں سے کسی نامعلوم شاعر کا شعر ہے:

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

اب آپ بیٹھے سوچتے رہیے کہ ’مگَس‘ یعنی شہد کی مکھی کے پَرِ پرواز پر اِن’نامعلوم افراد‘ کی طرف سے پہرہ بٹھادینے میںکیا رمز پوشیدہ ہے؟ جوشخص اشارے کنائے اور رمز سمجھ لیتا ہو اُسے ’رمز شناس‘ کہتے ہیں۔فارسی کی ایک مشہور مثل اردو میں خوب مستعمل ہے: ’رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند‘۔ اپنی مملکت کے راز حکمران ہی جانتے ہیں۔ الغرض رمز اشارے اور رازکو کہتے ہیں اور اس کی جمع رموز ہے۔

’اوقاف‘ وقف اور وقفہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں رُکنا یا ٹھہر جانا۔ ’’ذرا توقف فرمائیے‘‘ کا مطلب ہے ذرا ٹھہریے، ذرا رُک جائیے۔ ’رموزِ اوقاف‘ کا مطلب ہوا رُکنے یا ٹھہرنے کے اشارات۔ گویا سڑک پر گاڑیوں کو روکنے کے لیے، رُکنے یا چلنے کو تیار ہوجانے کے لیے اور چل پڑنے کی اجازت دینے کے لیے جو سرخ، زرد اور سبزروشنیوں کے اشارے لگائے جاتے ہیں، آپ اُن کو بھی ’رموزِ اوقاف‘ کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے شہر اسلام آباد میں ’کرانچی‘ والوں کی طرح،کوئی شخص ان بتیوں کوسگنل یا’’سنگل‘‘ نہیں کہتا۔ کوئی ’رموزِ اوقاف‘ بھی نہیں کہتا۔ سب ’اِشارہ‘ کہتے ہیں۔ایسا اشارہ محبوب کے گھر کے سامنے والے چوک پر لگا ہوا ہو تو کہتے ہیں: ’’اُن کا اِشارہ جان سے پیارا‘‘۔ ایسے چوک پر گاڑی چلاتے ہوئے سامنے سڑک کی طرف دیکھنے کے بجائے آپ محبوب کے دَر ہی کو دُور سے تکتے جاویں تو جان جانے میں بھلا کیا کسر رہ جائے گی؟

اچھی گفتگو کرنے والوں کو اچھی طرح سن کر دیکھیے کہ گفتگو میں دِل کَشی کیسے پیدا ہوتی ہے۔ بات کرتے ہوئے وہ کہیں ٹھہر جاتے ہیں، کہیں نہیں ٹھہرتے۔ کہیں کم ٹھہرتے ہیں، کہیں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ لہجہ بدل بدل کر کبھی تعجب کا اظہار کرتے ہیں،کبھی خوشی کا،کبھی افسوس کرتے ہیں،کبھی غضبناک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح مختلف جذبات کا اظہار کرکے اپنی بات کو زیادہ مؤثر بنا لیتے ہیں۔ جب کسی کی نقل کرتے ہیں تو بالکل اُسی کے انداز میں بولنے لگتے ہیں۔ آپ سمجھ جاتے ہیں کہ گفتگو کا اتنا ٹکڑا ان کا اپناکلام نہیں۔ مگر سوچیے تو سہی کہ تقریر کی یہ ساری کیفیات تحریر میں کس طرح منتقل ہوسکتی ہیں؟

آپ نے صحیح سوچا۔ یہ سب کچھ ’رموزِ اوقاف‘ کے استعمال سے ممکن ہے۔ رموزِ اوقاف تحریر کو لہجہ عطا کردیتے ہیںاور قاری پر تحریر کا مطلب واضح ہوجاتا ہے۔ وہ پوری عبارت روانی سے پڑھتا اور آسانی سے سمجھتا جاتا ہے۔ ہم بھی اپنے کالموں میں علاماتِ وقف کا استعمال فراخ دلی سے کرتے ہیں۔ اس سے کالم پڑھتے وقت قاری کو ٹھہرنے اور ٹھہر کر سانس لینے کے مواقع مل جاتے ہیں۔ اس طرح ایک تو قاری تھکتا نہیں، دوسرے ہمارا کالم پورا پڑھ جانے کے باوجود، سانس لیتے رہنے کی وجہ سے، زندہ بچ جاتا ہے۔ اگلا کالم پڑھنے کے لیے۔

تمام کا تذکرہ تو یہاں ممکن نہیں۔صفحے بھر کے اِس مختصر وقفے میں فقط چند علاماتِ وقف سے واقف کرایا جا سکتا ہے۔ صاحب! جہاں جملہ مکمل ہوجائے، وہاں ختمہ (۔) لگادیا جاتا ہے۔ اس طرح پتا چل جاتا ہے کہ یہاں ایک بات ختم ہوگئی۔ جہاں ہلکا سا توقف کرنا ہو وہاں سکتہ (،) ڈال دیا جاتا ہے۔ ذرا دیکھیے کہ شمیم کرہانی نے اپنے ایک ہی مصرعے میںکتنے ’سکتے‘ ڈال دیے ہیں:

رنگ، خوشبو، صبا، چاند، تارے، کرن، پھول، شبنم، شفق، آبجو، چاندنی
اُن کی دِل کَش جوانی کی تکمیل میں حسنِ فطرت کی ہر چیز کام آگئی

سکتہ استعمال کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس کے لیے یہ مشہور فقرہ دیکھ لیجے: ’’روکومت، جانے دو‘‘ اور’’روکو، مت جانے دو‘‘۔

علاماتِ وقف سے لہجہ کیسے تبدیل ہوتا ہے، اس کی بھی آسان مثال لے لیجے۔ سیدھا سادہ بیان ہے: ’’پاکستان میچ جیت گیا‘‘۔ اس فقرے میں فقط سوالیہ نشان(؟) ڈال دیجے۔ لہجہ ہی بدل جائے گا: ’’پاکستان میچ جیت گیا؟‘‘

جذبات کے اظہار کے لیے (!) ایک کثیر المقاصد علامت ہے۔ اسے کہیں فجائیہ کہتے ہیں، کہیں ندائیہ اور کہیں استعجابیہ۔ ’فجائیہ‘ کہا جاتا ہے خوشی اور غمی کی کیفیت میں منہ سے اچانک یا بے ساختہ نکل جانے والے کلمے کو۔ مثلاً: اُف!، اُفّوہ!، مارڈالا!،واہ واہ!، ارے!، آہ!، افسوس!، سبحان اللہ!، ماشاء اللہ!، مرحبا!، آمین! وغیرہ۔ ’ندائیہ‘ ظاہر ہے کہ پکارنے یا مخاطب کرنے کی علامت ہے: خواتین و حضرات!، سنو!، محترم چچاجان! السلام علیکم!، اے!، او!، ابے! وغیرہ۔ ’استعجابیہ‘ میں حیرت، اچنبھے یا تمنا کا اظہار ہوتا ہے، جیسے: ’’اوہ! بال بال بچا‘‘۔’’یا لَلعجب! تم کیسی باتیں کرتے ہو؟‘‘ یا ’’آفرین! کیا کمال دکھایا ہے‘‘۔ اور ’’کاش! تمام علوم اردو میں پڑھائے جاتے‘‘ وغیرہ۔

قوسین (…) یا خطوطِ وحدانی} […]{ میں عبارت کے ایسے حصے لکھے جاتے ہیں جو جملۂ معترضہ کے طور پر آتے ہیں۔ جملۂ معترضہ وہ جملہ ہے جو عبارت میں تو آجائے لیکن اصل عبارت کے تسلسل سے اس کا تعلق نہ ہو۔ مثلاً:

علامہ شبلی کے مکتوبات شائع ہوگئے ہیں (افسوس کہ نقل در نقل میں کئی اغلاط در آئی ہیں) ان مکتوبات کو جمع کرنے کی ابتدا سید سلیمان ندوی نے علامہ شبلی کی زندگی ہی میں کردی تھی‘‘۔

بعض اوقات اقتباس نقل کرتے ہوئے، متن کی عبارت میں وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وضاحت کو اصل متن سے زائد ظاہر کرنے کے لیے خطوطِ وحدانی میں لکھ دیا جاتا ہے:’’مولانا محترم یہاں [دہلی میں] روزانہ کسی مدرسے یا مسجد میں وعظ کہتے ہیں‘‘۔

کسی کا قول، کوئی اقتباس یا مکالمہ پیش کرنا ہو تو اُسے واوین (’’…‘‘) کے درمیان لکھ دیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف بات واضح ہوجاتی ہے بلکہ تحریر میں حسن اور دل کشی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔کسی چیز کی تفصیلی فہرست دینے سے قبل جو علامت (:-) لگائی جاتی ہے اسے تفصیلیہ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پرپاکستان کے ہوائی اڈّے مندرجہ ذیل ہیں:-سودکی تباہ کاریاں:- ورزش کے فوائد:- وغیرہ

کسی کا شعریا قول پیش کرنے سے قبل اُسے باقی مضمون سے مربوط کرنے کے لیے رابطہ (:) کی علامت لگائی جاتی ہے، مثلاً:

ایک وزیراعظم کو گھر بھیجتے ہوئے، دوسرے وزیراعظم نے فرمایا: ’’تُو چل، میں آیا‘‘۔

رموزِ اوقاف اور بھی ہیں۔ باقی کا مطالعہ خود کرلیجیے، اس وقت ہم ذرا جلدی میں ہیں، ہمیں بھی وزیراعظم کے فرمان پر عمل کرنا ہے۔