مرکزِ تعلیم و تحقیق اسلام آباد کے زیر اہتمام عالمی سیمینار کی روداد سیمینار میں مختلف بین الاقوامی جامعات سے وابستہ اساتذہ، علماء، طلبہ سمیت متعدد اہلِ فکر و دانش کی شرکت
جامعات کے اساتذہ، علماء اور اسلامی تحریک کے خارجہ امور کے ذمہ داران کے خطابات کے علاوہ عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین کے ویڈیو پیغامات، ڈاکٹر قرضاوی کی فکری و دعوتی خدمات پر انہیں زبردست خراج تحسین، مسلم دنیا ایک نڈر و بے باک مسلم مفکر اور عالمی اسلامی تحریکوں کے مشفق رہنما و سرپرست سے محروم ہوگئی۔
ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا پُر نہیں ہوسکتا، مگر ڈاکٹر قرضاوی کی کاوشوں کے نتیجے میں معاصر مسائل میں شرعی رہنمائی کے لیے ان کے پیش کردہ موقف کو پذیرائی ملے گی کہ اسلام کی حقیقی روح، اسلام کے اعلیٰ و ارفع مقاصد اور محکم اصولوں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر احکام میں تیسیر و سہولت کے اصول کی رعایت کی جائے
ڈاکٹر یوسف عبداللہ القرضاوی عصر حاضر کے فقیہ، مجتہد، محقق، مفکر، فکری و نظریاتی تحریکوں کے مربی و قائد، داعیِ الی اللہ اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔ باوجود اس کے کہ ان سے اختلاف بھی کیا گیا اور ایک زمانہ ان کا ناقد بھی رہا، مگر ان کی ہمہ جہت شخصیت و کردار اور ان کے غیر معمولی علمی و فکری کام کے نتیجے میں بجا طور پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ دور میں مسلم دنیا کی انتہائی مؤثر شخصیات میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے آبائی وطن مصر سے طویل جلاوطنی کے باوجود اخوان المسلمون اور تحریک انتفاضہ فلسطین سمیت تمام عالمی اسلامی تحریکوں کی سرپرستی کی۔ انہوں نے پورے عالم اسلام میں بالعموم اور عالمِ عرب میں بالخصوص اپنی تحریروں، خطابات اور علمی کاوشوں کی مدد سے اسلام کے مستحکم طرزِ فکر اور طرزِ استدلال کی آبیاری کی، اور ان کی آراء و افکار سے مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر استفادہ کیا جارہا ہے۔
گزشتہ دنوں الفلاح ہال اسلام آباد میں ڈاکٹر یوسف عبداللہ قرضاوی کی حیات و خدمات اور منہج فکر و استدلال کے سلسلے میں بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سیمینار مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد اور امورِ خارجہ جماعت اسلامی پاکستان کے اشتراک سے منعقد کیا گیا جس میں بین الاقوامی جامعات کے اساتذہ، علما، طلبہ اور اہلِ علم نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ خاص بات یہ تھی کہ اس سیمینار میں شریعت و اسلامی قانون کے ماہرین اور علما نے ڈاکٹر قرضاوی کی علمی و فقہی خدمات کے مختلف پہلو اجاگر کیے، خارجہ امور کے ماہرین نے مسلم دنیا میں اُن کے کردار اور اثرات پر روشنی ڈالی، اور عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین نے اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعے مسئلہ فلسطین و کشمیر سمیت مسلم دنیا کے مسائل کے ضمن میں ڈاکٹر قرضاوی کی کاوشوں پر انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ سیمینار میں رابطوں اور نظامت کے فرائض مفتی عبدالوحید اور مولانا عارف قریشی نے انجام دیے۔
راقم الحروف نے ابتدا میں مرکز تعلیم و تحقیق کی سرگرمیوں کا تعارف پیش کیا، بعد ازاں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی فقہ اسلامی کے میدان میں خدمات پر روشنی ڈالی۔ بلاشبہ ڈاکٹر قرضاوی نے فقہ میں نیا اسلوب متعارف کرایا، انہوں نے شروع سے اپنے آپ کو کسی ایک امام یا فقیہ کی آراء کا پابند نہیں بنایا، ان کے خیال میں ایسا کرنے سے دو قباحتیں لازم آتی ہیں، ایک تو اسلام میں جو سہولتیں معتبر ہیں ان سے عام مسلمان پوری طرح آگاہ نہیں ہوپاتے، دوسرے یہ کہ اس کی وجہ سے قرآن و سنت سے براہِ راست استفادے کے رجحان پر زد پڑتی ہے، نیز معاصر مسائل کے حل میں بھی کئی مواقع پر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے فقہ کی کئی جہتوں کو متعارف کرایا، کتبِ فقہ کی تسہیل کا اہتمام کیا تاکہ آج کے دور کا مسلمان روزمرہ زندگی میں احکام کے حوالے سے بآسانی رہنمائی حاصل کرسکے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے یورپ کے مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کے لیے یورپی کونسل برائے فتویٰ قائم کی، موجودہ دور میں اسلام کے اقتصادی نظام کی تشکیل میں کردار ادا کیا اور عالمی سطح پر دینی طبقات میں وحدت کی فضا عام کرنے کے لیے الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین قائم کی۔
علماء فلسطینی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر نواف التکروری نے فلسطین کاز میں یوسف القرضاوی کے کردار سے متعلق کہا: شیخ القرضاوی اور فلسطین کاز کے ساتھ ان کی وابستگی، اس کے لیے ان کی قربانی اور اسے پوری دنیا میں متعارف کرانے سمیت ان کی کاوشوں کو بیان کرنے کے لیے ایک مکمل کانفرنس کی ضرورت ہے۔ شیخ القرضاوی نے مسئلہ فلسطین پر اپنے ذہن، دل، احساسات، شاعری، تقاریر، فتاویٰ اور مستقل کتب کے ذریعے ہمہ پہلو تگ و دو کی، انہوں نے فلسطین فائونڈیشن کے قیام میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر قرضاوی کے منہجِ فتویٰ کے بارے میں ڈاکٹر حبیب الرحمان مدیر ”مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد“ نے کہا کہ ڈاکٹر قرضاوی نے اپنے منہج فتویٰ کی توضیح خود کی ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی تیسیر و سہولت دینے کے منہج پر عمل پیرا تھے۔ نبی کریم ﷺ کا اسوہ یہی رہا ہے کہ جب آپ کے سامنے دو امور پیش کیے جاتے تھے تو آپ ﷺ ان میں سے آسان پہلو کو اختیار فرماتے تھے۔ ڈاکٹر قرضاوی فتویٰ میں قرآن و سنت کی پیروی کا التزام کرتے تھے۔ انہیں مسائلِ حاضرہ میں کثرت سے رخصتیں دینے کا طعنہ بھی دیا گیا لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ ان کی نظر میں تیسیر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ثابت شدہ شرعی احکام سے چھٹکارا پایا جائے، یا کسی حرام شے کو حلال قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے فقہ میں کسی معین مذہب کی پیروی کو لازم خیال نہیں کیا اور اس معاملے میں انہوں نے وسعت کا مظاہرہ کیا۔ فی زمانہ کئی مسائل میں اس کے بغیر چارہ نہیں۔
حماس کے بیرون ملک سربراہ خالد مشعل نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ڈاکٹر القرضاوی کی خدمات کے بارے میں شرکاء سے مختصر مگر نہایت خوبصورت گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ شیخ قرضاوی کا مسلمانوں پر احسان ہے کہ انہوں نے خاص طور پر ابھرتے ہوئے عصری مسائل اور فقہ مں سادگی و اعتدال کے تصورات کی مدد سے تجدید کی۔ شیخ القرضاوی نے زندگی بھر نہایت بے قراری کے ساتھ اپنے علم، قلم، شعر و ادب کو امتِ مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے وقف کیے رکھا۔ وہ عالم اسلام کے مسائل کے ساتھ مضبوط چٹان بنے کھڑے رہے، وہ مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر اور مسلم دنیا کے دیگر مسائل کے حل کے لیے زندگی بھر کھڑے رہے۔
ڈاکٹر حبیب الرحمان عاصم نے الشیخ القرضاوی کو عہدساز شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کی علمی و فکری خدمات پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر قرضاوی کا میدان صرف فقہ نہیں تھا بلکہ اسلام کے سماجی مسائل پر بھی انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ لکھا ہے اور وہ داعیانِ دین و کارکنانِ تحریکِ اسلامی کی تربیت و تزکیہ کے لیے نہایت فعال کردار ادا کرتے تھے۔ ڈاکٹر قرضاوی شریعت میں معتبر رخصتوں کے قائل تھے مگر انہوں نے عام مفتیانِ کرام کے طرزِعمل سے ہٹ کر معتبر رخصتوں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، اور اس کا دروازہ پوری امت کے لیے کھول دیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ان کی اتباع میں امت کے لیے اجتماعی غور و فکر کے لیے متحرک فورم کا قیام عمل میں لایا جائے۔
یورپ میں مقیم مسلم اقلیتوں کے بارے میں ڈاکٹر قرضاوی کی آراء کا احاطہ ڈاکٹر محمد طاہر منصوری سابق نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد نے کیا۔ انہوں نے ابتدا میں ڈاکٹر قرضاوی کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات صرف تصنیف و تالیف کی حد تک محدود نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے تادم مرگ ڈاکٹر قرضاوی کا مسلم دنیا اور عالمِ عرب کے ساتھ مضبوط علمی و فکری رشتہ قائم رہا۔ اقلیتوں کے سلسلے میں زیادہ تر ان کی توجہ یورپ اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں پر مرتکز رہی اور انہوں نے ان کے درمیان رہ کر قریب سے ان کے مسائل کا مشاہدہ کیا۔ ان کی کوششوں سے 1997ء میں یورپی کونسل برائے افتاء کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر قرضاوی نے مسلم اقلیتوں کے حق میں اسلام کے یسر و سہولت اور رفع حرج کے اصولوں کو نمایاں کیا اور اپنی آراء سے واضح کیا کہ ان مسائل میں ایک فقہی مذہب کی پابندی کے بجائے نہ صرف جملہ مذاہب فقہ بلکہ مسلمانوں کے قرون اولیٰ کے علمی ذخیرے سے استفادے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی نے دارالاسلام اور دارالکفر کی قدیم تقسیم کے بجائے دارالکفر کے بارے میں دارالدعوۃ کا تصور دیا کہ جہاں مسلمان دعوتِ دین کا کام انجام دیں۔
راجا خالد محمود، ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی خدماتِ جلیلہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ قرضاوی صاحب مسئلہ فلسطین کی طرح مسئلہ کشمیر اور کشمیر کی آزادی کے لیے فکرمند رہتے تھے اور انہوں نے اپنے عربی قصائد میں کشمیر کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے سیکریٹری ڈاکٹر علی قرہ داغی نے سیمینار میں ڈاکٹر قرضاوی کی خدماتِ جلیلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ذکر کیا کہ میرا شیخ کے ساتھ تعلق کئی دہائیوں پر محیط رہا ہے اور اس حیثیت سے میں شیخ کے اسلام کو دنیا میں جامع و ہمہ گیر نظام حیات کی صورت میں ثابت کرنے کی کوشش کا شاہد ہوں کہ انہوں نے اس سلسلے میں ملحدین، مستشرقین اور لادین دانش وروں کی ریشہ دوانیوں سے اسلام کو محفوظ بنانے کی تگ و دو کی اور اس سلسلے میں شیخ کی کاوشیں دورِ حاضر کے ممتاز علماء جیسا کہ الاستاد المودودی، حسن البنا، ابوالحسن الندوی اور سعدت النورسی کی طرح تھیں۔ ڈاکٹر القرضاوی نے ملتِ اسلامیہ کے معاشی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بھی لکھا اور بتایا کہ اسلام ان مسائل کا کیسا حل پش کرتا ہے اور اس دور میں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کا کردار کیا ہونا چاہیے۔
سیمینار کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے آصف لقمان قاضی، ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ ڈاکٹر قرضاوی اس صدی کے مجدد تھے، ان کی تحریروں اور علمی کام میں مولانا مودودی کی طرح تنوع پایا جاتا ہے، انہوں نے متعدد فکری و دعوتی موضوعات پر کام کیا ہے۔ ڈاکٹر قرضاوی کی خاص کاوش ان کا عالمی سطح پر علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے، جس کی آج کے دور میں امت کو ضرورت تھی۔ ڈاکٹر قرضاوی کو ان کے بعض فتاویٰ کی وجہ سے مورد الزام ٹھیرانا نامناسب رویہ ہے۔ وہ اسلام کے اعتدال کے اصول پر عمل پیرا تھے۔ ڈاکٹر قرضاوی بلاتخصیص تمام عالمی اسلامی تحریکوں کی قیادت کی نظر میں ان کے روحانی والد کی حیثیت رکھتے تھے اور وہ اسلامی فکر و فلسفہ اور دعوتِ دین دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔ ان کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ الجزیرہ چینل پر ان کا پروگرام دیکھنے والوں کی تعداد چھ کروڑ تک جاپہنچی تھی۔ ان تمام حوالوں سے ان کا کردار ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔