بلوچستان:بدامنی کے واقعات میں اضافہ

کالعدم مسلح تنظیم کو کس کی سرپرستی حاصل ہے؟

معلوم نہیں بلوچستان کے اندر غیر یقینی حالات کا اختتام کب ہوگا! بہتری کی توقع صوبے کی موجودہ حکومت سے عبث ہے۔ ادھر بدامنی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خیبر پختون خوا کے علاقے سوات میں ٹی ٹی پی وغیرہ کے کارندوں کی آمد پر پورا منطقہ سراپا احتجاج بن گیا۔ یقیناً ریاست متحرک تھی اور دہشت گرد گروہوں کے سوات وغیرہ میں ٹھکانوں کے امکانات اور اندیشوں کا خاتمہ کردیا گیا۔ یہ گروہ افغانستان کے اندر سے بھتہ وصولی کے لیے فون کرتے ہیں۔ عوامی اور سیاسی حلقوں کی تشویش بجا ہے، تاہم ان کے کئی الزامات درست نہیں ہیں۔ بہرحال خیبر پختون خوا میں ان گروہوں کے خطرات بدستور موجود ہیں۔ یہاں بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بدامنی کے پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وقتاً فوقتاً کارروائیاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں۔ گویا کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ ان گروہوں سے نبرد آزمائی ہورہی ہے۔ ایران کی سرزمین پر ان گروہوں کی موجودگی کی خبریں اور اطلاعات ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ محمد نور مسکانزئی کے قتل میں ملوث گرفتار ملزم نے بھی ایرانی حدود میں تربیت لینے کا انکشاف کیا ہے۔ گرفتار نوجوان شفقت اللہ عرف دلاور عرف سجاد خاران ہی کا رہائشی ہے۔ بقول کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے، یہ نوجوان 2020ء میں کالعدم بی ایل اے سے وابستہ ہوا اور کئی واقعات میں ملوث رہا۔ سی ٹی ڈی نے 29 اکتوبر کو تفصیلات سے آگاہ کیا جس کا اہتمام آئی جی پولیس آفس میں کیا گیا تھا۔ یہاں گرفتار ملزم کی اعترافی ویڈیو بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نمائندوں کو دکھائی اور سنوائی گئی۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل اعتزاز احمد گورائیہ کے مطابق گرفتار شخص محمد نور مسکانزئی کے قتل کا مرکزی ملزم ہے۔

بلاشبہ جسٹس نور محمد مسکانزئی کے قتل کی شرمناک واردات کی ذمے داری حیربیار مری سے وابستہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی تھی۔ اس واقعے نے بلوچستان کو شرمسار کیا ہے اور صوبے کی روایات، شائستگی اور بڑوں کے احترام اور تہذیب کا چہرہ بدنما اور مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ یقیناً صوبے کے اندر اس گروہ کی مذمت اور اس پر ملامت ہوئی۔ پارلیمان میں بیٹھے بعض قوم پرستوں کی خاموشی کو بھی صریح تضاد تصور کیا گیا ہے۔ چناں چہ اس افسوسناک واقعے کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز احمد گورائیہ کی سربراہی میں آٹھ ارکان پر مشتمل اس جے آئی ٹی میں ڈی آئی جی رخشان ڈویژن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) خاران، ملٹری انٹیلی جنس خاران، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) خاران، ایف سی انٹیلی جنس خاران کے نمائندے شامل ہیں۔ ڈی آئی جی اعتزاز گورائیہ نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزم نے کالعدم بی ایل اے میں شامل ہونے کے بعد تربیت ایران کے علاقے سراوان میں حاصل کی تھی۔ یہ ملزم2021ء میں ایف سی چیک پوسٹ خاران پر گرنیڈ لانچر حملے اور خاران کے چیف چوک پر موٹر سائیکل بم دھماکے میں بھی ملوث تھا۔ اس نے جسٹس محمد نور مسکانزئی کے بھائی کی بلاک بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے دو مزدوروں کو بھی فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھا، خاران میں حساس ادارے کے دفتر پر گرنیڈ لانچر حملہ کرچکا ہے، یہاںتک کہ کوئٹہ میں بھی وارداتیں کی ہیں۔ اس نے2022ء میں کوئٹہ کے چمن پھاٹک پر دستی بم حملے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اعتزاز گورائیہ کہتے ہیں:

’’سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کو مشکوک کہنا غلط ہے، کئی بار کارروائیوں میں اہلکار شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، سی ٹی ڈی پولیس کا حصہ ہے، پولیس کے قوانین اور آئین کے تحت کام کرتے ہیں اور اس کا آئی جی پولیس دفتر اور محکمہ داخلہ باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس رکھتا ہے۔ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں پر اگر کسی کو اعتراض و تحفظات ہیں تو محکمہ پولیس سے رابطہ کرسکتا ہے۔ اگر کسی کو شبہ ہے کہ کوئی شخص لاپتا تھا تو اس کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہوگی۔‘‘

گورائیہ کہتے ہیں کہ ’’ہر شخص کو مسنگ پرسن نہیں کہہ سکتے۔ وفاقی حکومت، پولیس، محکمہ داخلہ بلوچستان کا باقاعدہ طریقہ ہے جس کے تحت کسی شخص کو لاپتا قرار دیا جاتا ہے۔ لاپتا افراد کے حوالے سے باقاعدہ فورم موجود ہے۔ تحقیقات کی جاتی ہے‘‘۔

انہوں نے سی ٹی ڈی کی جانب سے گزشتہ ایک دو برسوں کی گرفتاریوں کی تفصیلات بھی پیش کیں اور کہا کہ ’’666 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 121 ملزمان کو سزائیں ہوئیں، بعض کو دس دس اور چودہ چودہ سال بھی سزا ہوئی اور عدالتِ عالیہ نے بھی ان سزائوں کی توثیق کی۔ 36 افراد ضمانت پر، جبکہ 158 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں، جن کی گرفتاری کی کوشش کی جارہی ہے۔کچھ لوگ بری بھی ہوئے ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں اپیلیں دائر کی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کے بعد ایک طرح سے بیانیہ بنایا جاتا ہے تاکہ سیکورٹی ادارے زیادہ آگے نہ بڑھ سکیں‘‘۔

بہرحال یہ حقیقت ہے کہ کالعدم گروہ مختلف ذرائع سے حملوں کی ذمے داری قبول کرتے رہتے ہیں۔12جولائی کو زیارت سے لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کے کزن کے اغوا اور قتل کی ذمے داری کالعدم بی ایل اے بشیر زیب دھڑا قبول کرچکا ہے۔ یہ گروہ اکثر زیادہ نقصان پہنچانے کے دعوے کرتا ہے۔ 25 ستمبر کو ہرنائی کے علاقے خوست میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر حادثے کو بھی اپنی کارروائی کہا۔ اس حادثے میں دو میجر پائلٹ سمیت چھے اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔ ان دنوں اس گروہ نے دو افراد کو ہرنائی کے علاقے زرد آلود اغوا کرلیا تھا جن کی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ بعد ازاں رہائی کے بدلے اپنے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ مغویوں میں ایک صوبیدار کلیم اللہ اور دوسرا محمد فیصل ہے۔ بقول حکام محمد فیصل اینٹوں کا کاروبار کرتا ہے۔ اب یہ گروہ 28اکتوبر کو ایک ہفتے کی ڈیڈلائن دے چکا ہے۔