دو صوبوں میں حکومت کے باوجود احتجاج…!
شہرِ اقتدار کب کسی کا ہوا ہے؟ یہاں تخت گرائے اور تاج اچھالے جاتے ہیں۔ یہ بے وفا شہر ہے اور جائے عبرت بھی ہے۔ یہ شہر سیاسی تابوت روانہ کرنے کی بندرگاہ ہے، یہاں سے ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیربھٹو اور نوازشریف کے سیاسی تابوت روانہ کیے گئے، مگر اقتدار کے نشے میں مدہوش لوگ کب عبرت حاصل کرتے ہیں! اب عمران خان نااہل قرار پائے ہیں… وہ ساڑھے تین سال حکومت کے سربراہ رہے، مگر ملک کی اندرونی سلامتی، سفارت کاری، دفاع، بے روزگاری، غربت، ترقی کے منصوبوں پر بات کرنے کے بجائے ابھی تک ایمپائر… وکٹ… نوبال سے باہر نہیں نکلے۔
لاہور سے چلنے والا حالیہ لانگ مارچ ابتدائی تین چار دنوں میں اپنا جو رنگ دکھا پایا ہے اس بارے میں اب تک کا تجزیہ یہی ہے کہ اونچی دکان اور پھیکا پکوان۔ تحریک انصاف کو زمین پر وہ حمایت میسر نہیں جس طرح سوشل میڈیا کا میدان سجا ہوا نظر آتا ہے۔ بلاشبہ یہ دیگر سیاسی جماعتوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور متحرک ہونے کے علاوہ مثالی طور پر فعال ہے۔امکان ہے کہ جب یہ سطور شائع ہوں گی لانگ مارچ راولپنڈی پہنچ چکا ہوگا یا اس کے قریب ہوگا۔ تحریک انصاف کا مارچ اسلام آباد میں داخلے سے قبل راولپنڈی میں دو مقامات پر پڑائو ڈالے گا، اور روٹ ایسا بنایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے تمام حلقے اس میں شامل ہوں، اسی لیے گوجر خان، مندرہ اور مری روڈ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ لانگ مارچ کے شرکاء رات سڑک پر گزاریں گے اور عمران خان راولپنڈی پنجاب ہائوس میں، جہاں تمام انتظامات مکمل ہیں۔
لاہور سے راولپنڈی تک عمران خان نے نوازشریف اور اعظم سواتی اور شہبازگل کے نام لے کر عسکری اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کیے رکھا، وہ اسی اسٹیبلشمنٹ سے جلد انتخابات اور شہباز حکومت ہٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن راولپنڈی پہنچ کر ان کے بیانیے میں بہت واضح فرق محسوس ہوگا،کوئی نہیں جانتا کہ عمران خان یہاں کیا کہیں گے۔ پُرامن احتجاج کی قانون اجازت دیتا ہے لیکن اسلام آباد کے شہری ایسے احتجاجوں سے تنگ اور عاجز آئے ہوئے ہیں کہ یہ کیسی عجیب آزادی کا مطالبہ پنجاب اور کے پی کے میں حکومت قائم ہونے کے بعد بھی کیا جا رہا ہے! ایک طرف تو حقیقی آزادی مارچ اور دوسری طرف غیر جمہوری طاقتوں سے التجائیں کی جارہی ہیں۔ حقیقی آزادی مارچ، تبدیلی مارچ، پاکستان بچانے کا مارچ، جہاد، رجیم چینج کے خلاف مارچ اور پتا نہیں کیا کیا نام ہیں جو تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو دیے جارہے ہیں۔ یہ ایک ایسا لانگ مارچ ہے جس کے لیے پہلے ایوانِ صدر میں فوجی قیادت سے در پردہ بات چیت ہوتی رہی، مطالبہ تسلیم نہیں ہوا تو لاہور سے اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اس کا آغاز ارشدشریف کے قتل اور تدفین کے اگلے روز اور ڈائریکٹر جنرلز آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کی عمران خان کے بیانیے کے خلاف پریس کانفرنس کے بعد ہوا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہائبرڈ نظام کا بت ٹوٹ گیا ہے۔ اسی سبب ہائبرڈ نظام سے مستفید ہونے والے اپنے ہی سرپرستوں کے درپے ہوگئے ہیں۔ یوں اس پریس کانفرنس سے ایک پیج کے دور کا ڈراپ سین ہوگیا۔ ابھی انہیں پورا ہفتہ لانگ مارچ کے ساتھ چلنا ہے۔ 4 نومبر تک اسلام آباد پہنچنے کا پروگرام ہے، تاہم اس دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک بہت بڑی پیش رفت ہوئی، جسے تاریخ بھی کہا جاسکتا ہے۔ قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ براہِ راست میڈیا سے مخاطب ہوئے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کے بعد پورا ملک حیرت میں ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کو خود آنا پڑا۔ کہا جارہا ہے کہ وہ خود اس لیے آئے کہ براہِ راست جواب دینا ضروری ہوگیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ سری لنکا کی مثال دے کر سرمایہ کاروں کو روکا جارہا تھا، ایف اے ٹی ایف بھی الگ سے ایک چیلنج تھا جس سے ملک اب باہر آگیا ہے۔ ارشد شریف کے قتل پر پاک فوج کے خلاف بیانیہ بناکر اسے دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش ہورہی تھی، فیٹف کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی کوشش کی جارہی تھی، سری لنکا کی مثال دے کر ملک کو ایک ناکام اور دہشت گرد ملک بناکر پیش کرنے کی کوشش کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کے لیے خود براہِ راست سامنے آنا پڑا۔
سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اپنی ہی فوج کو طرح طرح کے ناموں سے پکار کر شرمندہ کیا جارہا ہے۔ اس پس منظر میں اہم سوال تھا کہ کیا کوئی خوف لاحق ہے کہ خاموش ہیں؟ کیا ڈر گئے ہیں؟ یا پس پردہ وہ بھی اس بیانیہ کا حصہ ہیں؟ ان سب سوالوں کے جواب کے لیے پریس کانفرنس ہوئی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کے اپنے ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ لانگ مارچ میں لاشیں گریں گی، اگر خدانخواستہ کچھ ہوا تو ذمے داری فوج پر ڈال دی جائے گی، اس کے بعد ملک چلانا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی سازش کے جواب کے لیے پریس کانفرنس ہوئی۔ اس پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا گیا ہے تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی جانب سے اس کی تردید نہیں کی گئی۔
اس پریس کانفرنس کی کوکھ سے اہم قانونی نکتہ جنم لیتا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے خلاف وفاقی حکومت کوئی ریفرنس سپریم کورٹ بھیجنا چاہے تو اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟ کیونکہ یہ پریس کانفرنس فردِ جرم سے کم نہیں ہے۔ جنرل ندیم انجم کا یہ جملہ کہ ’’نیوٹرل، جانور، میر جعفر اور میر صادق اس لیے نہیں کہا گیا کہ غیر قانونی کام کیا، بلکہ اس لیے کہا گیا کہ ایسا کرنے سے منع کردیا، یہ نہیں ہوسکتا کہ جسے دن کی روشنی میں غدار کہیں اُس سے رات کو چھپ کر ملاقاتیں کریں، اگر آپ کی نظر میں سپہ سالار غدار ہے تو ماضیِ قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے؟ اُن کو غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کیوں کی؟ اور آج بھی ان سے چھپ کر کیوں ملتے ہیں؟‘‘ یہ جملے ہی پریس کانفرنس کا جوہری عرق تھے۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ملک میں انتہائی غیر معمولی سیاسی صورت حال بنی ہوئی تھی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے بقول ’’مجھے شعوری احساس ہے کہ آپ لوگ مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں اور میں آپ کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، میں آپ کے پاس اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں جس کے افسران اور اہلکار پوری دنیا میں اور پاکستان کے اندر اس ملک کی پہلی دفاعی لائن بن کر چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں، لیکن جب انہیں جھوٹ کی بنیاد پر بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اس ایجنسی اور ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میں خاموش نہیں رہ سکتا۔
جب جھوٹ اتنی آسانی، روانی اور فراوانی سے یک طرفہ طور پر بولا جائے کہ ملک میں فتنہ و فساد کا خطرہ ہو تو خاموشی بھی اس کے لیے ٹھیک نہیں ہوتی۔ میرے ادارے کے جوانوں پر جھوٹی تہمتیں لگائی گئیں جس پر مجھے میڈیا کے سامنے آنا پڑا۔ میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے جتنا ضروری ہے اُتنا سچ بولوں گا۔ ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، مسلسل جھوٹ سے فتنہ و فساد کا خطرہ ہو تو سچ کا چپ رہنا نہیں بنتا۔ پاکستان کا آئین آزادیِ اظہار کا حق دیتا ہے لیکن کردارکشی کی اجازت نہیں دیتا، اگر کوئی ادارے پر اُنگلی اٹھا رہا ہے تو حکومت کو اِس پرایکشن لینا چاہیے اورحکومت ایکشن لیتی بھی ہے، ایسا نہیں کہ حکومت چُپ ہے،کسی کو گرفتار کرنا اُن کی نہیں بلکہ حکومت کی صوابدید ہے۔ انہوں نے صاف صاف بتادیا کہ رواں سال مارچ سے فوج پر بہت پریشر ہے لیکن ادارے نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ خود کو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتا ہے، پاکستان نفرت کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوا۔
پریس کانفرنس میں اینکر پرسن ارشد شریف کے واقعے پر بھی گفتگو ہوئی کہ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، ارشد شریف قتل کیس کی غیر جانب دارانہ تحقیقات بہت ضروری ہیں، وہ کینیا کے ہم منصب سے رابطے میں ہیں، کوئی بھی کینیا کی پولیس کے شناخت کی غلطی والے بیان سے مطمئن نہیں ہے، اسی لیے حکومت نے انکوائری ٹیم بنائی ہے، ارشد شریف کے معاملے کی تفتیش کو مکمل غیرجانب دار ہونا چاہیے، ارشد شریف کا اُن کے ادارے کے بعض افسران سے مسلسل رابطہ تھا، ارشد شریف واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے۔
جنرل افتخار بابر نے کہا کہ ارشد شریف کی موت کے معاملے پرانکوائری اعلیٰ ترین سطح کے کمیشن کے ذریعے ہونی چاہیے جس میں مقامی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تحقیقاتی ماہرین شامل ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ10اگست کو پشاور ایئرپورٹ سے ارشد شریف دبئی کے لیے روانہ ہوئے، خیبر پختون خوا حکومت نے ارشد شریف کو ایئرپورٹ تک مکمل پروٹوکول فراہم کیا، 5 اگست کو ارشد شریف سے متعلق کے پی کے حکومت کی طرف سے تھریٹ الرٹ جاری ہوا تھا جس سے متعلق سیکورٹی اداروں سے کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، لگتا ہے کہ اُس الرٹ کا مقصد ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پرمجبور کرنا تھا کیونکہ ادارے کی تحقیق کے مطابق اُس وقت ایسا کوئی تھریٹ تھا ہی نہیں۔
نجی نیوز چینل کے مالک سلمان اقبال نے شہبازگل کی گرفتاری کے بعدحماد یوسف کو کہا کہ ارشدشریف کو باہر بھیج دیا جائے، سلمان اقبال کو پاکستان واپس لاکر شاملِ تفتیش کرنا چاہیے، صرف یہ دیکھا جائے کہ کون میڈیا کارڈ استعمال کررہا ہے۔ مکمل تحقیقات کے بغیر کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس معاملے میں تھرڈ پارٹی ملوث ہوسکتی ہے۔آرمی چیف نے 11مارچ کو کامرہ میں سابق وزیراعظم سے خود سائفر کا تذکرہ کیا تھا، سائفر کے ذکر پر سابق وزیراعظم نے آرمی چیف سے کہا تھا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانا ادارے کے لیے حیران کن تھا، سائفر پر ڈرامائی انداز میں ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے واسطہ نہیں، حقائق منظرعام پر آئے تو من گھڑت اور کھوکھلی کہانی بے نقاب ہوگئی، پاکستانی سفیر کی رائے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، 31مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے قومی سلامتی کمیٹی کو واضح اور پروفیشنل انداز میں بتادیا کہ سائفر میں حکومت مخالف سازش کے شواہد نہیں ملے۔ پاکستان کا چپہ چپہ محفوظ ہے، جو بھی خطرات ہیں ان سے نمٹنے کے لیے ہروقت تیار ہیں، چیلنجز کا احساس ہے اور ان کا جواب بھی رکھتے ہیں۔ اسلام آباد آنا اوراحتجاج کرنا ہر کسی کا آئینی حق ہے لیکن پاکستان میں عدم استحکام نہیں آنے دیں گے۔ ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہم کسی صورت غدار اور سازشی نہیں ہوسکتے۔
ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس غیر معمولی اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اب ضرورت اس اَمر کی ہے کہ فوری طور پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جو بنا کسی تاخیر اپنے کام کا آغاز کرے، شفاف تحقیقات ہوں اور ذمے داران کو منظرعام پر لایا جائے تاکہ کوئی بھی اس واقعے اور صورت حال سے کسی بھی قسم کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔