شہرِ شاداب اسلام آباد سے میاں محمد رمضان صاحب رقم طراز ہیں: ’’کئی روز سے مندرجہ ذیل شعر پر غور کررہا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ شعر ایک مدت سے بڑے بڑے مقررین سے سن رہا ہوں۔ خود بھی کئی بار اپنی تقاریر میں استعمال کیا۔ مگر ایک الجھن ہے، جسے سلجھا نہیں پایا۔ کئی لوگوں سے پوچھا، تسلی بخش جواب نہ ملا۔ سوال یہ ہے کہ نرگس کون ہے؟ اپنی بے نوری پہ کیوں روتی ہے؟ دیدہ ور کے پیدا ہونے کا نرگس کی بے نوری سے کیا تعلق ہے اور وہ کس قسم کے دیدہ ور کے لیے ہزاروں سال روتی ہے؟ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا‘‘۔
عیاں ہے کہ میاں صاحب دلِ درد مند رکھتے ہیں۔ کسی نرگس کو روتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہ پوچھ کر کہ کس قسم کا دیدہ ور چاہیے، شاید وہ نرگس کے لیے جلد از جلد، یعنی سال دو سال کے اندر اندر، کوئی دیدہ ور خود پیدا کرنے کی سعی فرمائیں۔ سو، میاں صاحب کی معاونت کو ہم نے سوالات کا یہی چکّر چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی کے آگے چلادیا۔ پَرچچا تو اور ہی چکّر چلانے لگے۔ بولے:
’’عزیزم! اس شعر میں ’ہزاروں سال‘ محاورے کے ہزار سال ہیں۔ جیسے میں کہوں کہ تم سے ہزار بارکہا کالم نگاری چھوڑو کوئی ’کام‘ کیا کرو۔ حالاں کہ کہا بس دو چار بار ہی ہوگا۔ اسی طرح نرگس بھی فقط تیس پینتیس سال ہی روئی ہوگی جسے شاعر نے مبالغہ کرکے ہزارو ں سال کردیا۔ اب تو تم بھی جان گئے ہو کہ ہمارے کشورِ پنجاب میں والدہ محترمہ کو ’بے بے‘ یا صرف ’بے‘ کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ علّامہ بھی اپنے پنجاب ہی کے تھے۔ پیدائشی سیالکوٹی۔ وہ تو بعد میں لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا، جس کی وجہ سے ایرانی اُنھیں اقبالؔ لاہوری کہنے لگے۔ خیر، یہ جملۂ معترضہ تھا۔ شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ عزیزہ نرگس سلّمہا ہزاروں سال اپنی ’بے‘ محترمہ نوری صاحبہ کی جان کو روتی رہی کہ میرا ’وِیاہ‘ کراؤ۔ مگر ماں غریب بھی کیا کرتی؟ مناسب رشتے اب ملتے کہاں ہیں؟ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں ’دِھی دا بَر‘ پیدا‘‘۔
خیر ہم نے چچا کوکچھ دے دلا کر چکڑالہ شریف رخصت کیا اور میاں صاحب کے مسئلے پر غور کرنے لگے۔ میاں صاحب کا پہلا سوال بھی خوب ہے۔ پوچھتے ہیں وہ کہ نرگس کون ہے؟ تو عرض ہے کہ نرگس ایک پودا ہے۔ اس پودے کے پتّے گھاس کی طرح، مگر اس سے چوڑے ہوتے ہیں۔ موسمِ سرما میں اِس سے ایک شاخ نکلتی ہے۔ اُس شاخ پر پھول کھلتے ہیں۔ پھول کی پنکھڑیاں بالعموم سفید ہوتی ہیں۔ درمیان میں زرد، سبز یا سیاہ پیالہ سا بن جاتا ہے، جو آنکھ کی پُتلی کی طرح نظر آتا ہے۔ یوں یہ پھول آنکھ سے مشابہ ہوجاتا ہے۔ بہت حسین پھول ہوتا ہے۔ نرگس کے پھول بھی نرگس ہی کہلاتے ہیں۔ اِس پھول کا حُسن دیکھ کر حسین آنکھیں ’نرگسی آنکھیں‘ کہی گئیں۔ جس کباب میں سالم انڈا ڈال دیا جائے وہ ’نرگسی کباب‘ ہوجاتا ہے۔ اگر یہی حرکت کوفتے کے ساتھ کی جائے تو’نرگسی کوفتہ‘ کہلائے۔ اُبلے انڈے جس پلائو میں ڈالتے ہیں وہ ’نرگسی پلاؤ‘ کا نام پاتا ہے۔ غرض یہ کہ اس غریب نرگس کی خوب گت بنتی ہے۔ نرگس کے سفید پھول کا پیالہ سیاہ ہو تو اُسے ’نرگسِ شہلا‘ کہتے ہیں۔ ایسا پھول انسانی آنکھ سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ لہٰذا محبوب کی سیاہ آنکھوں کو نرگسِ شہلا سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ محبوب کی آنکھیں بھی خوب آنکھیں ہیں۔ کبھی نرگسِ بیمار ہوتی ہیں، کبھی نرگسِ رنجور۔ نرگس کو اُردو شعرا ہی نے اپنی شاعری میں نہیں باندھا، (بعض معاملات میں اقبالؔ کے ہم خیال) ولیم ورڈزورتھ نے بھی “Daffodils” کا قصیدہ کہا، جو بہت مشہور ہوا۔
رہا یہ سوال کہ ’’نرگس اپنی بے نوری پہ کیوں روتی ہے؟‘‘ تو صاحب! نرگس ہرگز نہ روتی، کہ کھِلنے کے بعد تو ہنسنے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں۔ اس نوخیز کو شعرا نے رُلادیا، اُسے اُس کی بے نوری کا احساس دلا دلا کر۔ شاعروں کا خیال ہے کہ چشمِ نرگس چشمِ بینا نہیں ہوتی۔ پس انسانوں میں سے جو اپنی بینائی سے کام نہیں لیتے (یعنی: ان کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں) مولانا حالیؔ انھیں طعنہ دیتے ہیں:
ہو نہ بِینا تو فرق پھر کیا ہے
چشمِ انسان و چشمِ نرگس میں
شاعر کی نظر میں چوں کہ چشمِ نرگس نابینا ہوتی ہے، چناں چہ وہ اپنی بے نوری پر روتی رہتی ہے کہ کاش اس کے پاس بینائی ہوتی تو اپنا حسن آپ دیکھ سکتی۔ اسی مفروضے پر خودپسند لوگوں کی خودپسندی و خودپرستی کو ’نرگسیت‘ کہا جاتا ہے۔ تیسرے سوال پر عرض ہے کہ دیدہ ور کے پیدا ہونے کا چشمِ نرگس کی بے نوری سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہوتا تو ایسی حسین آنکھوں کو دیکھنے کے لیے ’دیدہ ور‘ صاحب ہزاروں سال بعد نہیں، ہر سال بلکہ سال میں دو بار پیدا ہونا پسند فرماتے۔ بھائی! کھلی آنکھوں سے دیکھنے والا تو کہیں صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔
اقبالؔ کا یہ شعر ان کی طویل نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے دوسرے بند کا چھٹا شعر ہے۔ یہ نظم اپریل 1923ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مصطفیٰ کمال پاشا یورپ سے لڑ کر ترکی کو آزاد کرا چکے تھے۔ رضا خان کی رہنمائی میں ایران نئی کروٹیں لے رہا تھا، یہی رضاخان دو سال بعد رضا شاہ پہلوی بن کر تخت پر براجمان ہوگئے۔ افغانستان میں امان اللہ خان خارجی سیاست کو شکست دے کر اپنی بنیادیں پختہ کرچکے تھے۔ مصر میں سعد زغلول پاشا کی قیادت میں تحریکِ آزادی زوروں پر تھی اور مغرب میں غازی محمد بن عبدالکریم ہسپانوی فوجوں کو شکست دے رہے تھے۔ ہر طرف سے حوصلہ افزا خبریں آرہی تھیں۔ سو، اقبالؔ کو ’طلوعِ اسلام‘ ہوتا نظر آرہا تھا۔ گوکہ بعد میں اقبالؔ، نرگسِ اُمّت کے ان’’دیدہ وروں‘‘ کی ’نرگسیت‘ دیکھ کر مایوس ہوگئے تھے:
نہ مصطفی، نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
مگر روحِ شرق سے پہلے کچھ بدن اقبالؔ نے خود تلاش کرلیے۔ اقبالؔکوفکر تھی کہ ’دِگر دانائے راز آید کہ ناید‘۔ سو انھوں نے دو دیدہ ور ڈھونڈ نکالے۔ ایک قائداعظم محمد علی جناح جن سے اقبالؔ نے مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالنے کو کہا۔ دوسرے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جن کو مسلمانوں کی علمی، فکری اور تحریکی راہ نمائی کی ہدایت کی۔ مشہور ماہرِ اقبالیات، نام وَر محقق ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں: ’’علامہ اقبال سے مولانا مودودی کی پہلی ملاقات جنوری 1930ء میں [مدراس میں] ہوئی… دوسری ملاقات فروری یا مارچ 1937ء میں، اور تیسری ملاقات ستمبر یا اکتوبر 1937ء میں لاہور میں ہوئی‘‘۔ اقبالؔ کی دعوت پر مولانا دکن چھوڑ کر پنجاب میں پٹھان کوٹ، گورداس پور منتقل ہوگئے، جہاں اقبالؔ کے ایما پر اقبالؔ کے دوست چودھری نیاز علی خان نے اپنا ادارہ ’دارالاسلام‘ مولانا کے حوالے کردیا۔ حالات خراب ہوئے تو مولانا لاہور آگئے۔ یہاں 1941ء میں تحریکِ جماعت اسلامی کا آغاز کیا۔ مولانا کی تحریر اور تحریک سے اقبالؔ کا خواب حقیقت میں بدلتا نظر آنے لگا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا جذبہ بیدار ہوا۔ جدید اسلامی تحریکوں کے فکری قائد مولانا مودودی مانے گئے۔ حتیٰ کہ حال ہی میں مولانا مودودی کو ’’عالمی دہشت گرد‘‘ قرار دے کر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ان کی کتب نکال باہر کرنے کا حکم ہوگیا۔ لیکن قرآن کا اعلان ہے کہ اللہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا، خواہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ اقبالؔ کا اس پر ایمان تھا:
وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
پس، آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ ’’دیدہ ور‘‘ علامہ اقبال، قائداعظم اور مولانا مودودی جیسا ہونا چاہیے۔ ہے کوئی؟