معاشی عدم استحکام نو منتخب وزیراعظم لز ٹرس کو بھی لے ڈوبا،رشی سوناک پہلے غیر برطانوی نژاد وزیراعظم
نومنتخب برطانوی وزیراعظم لزٹرس بھی صرف 45 دن اپنے عہدے پر رہنے کے بعد مستعفی ہوگئیں۔ ان کے استعفے کا مطالبہ کنزرویٹو پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے کیا جارہا تھا۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن کے استعفے کے بعد سے پیدا شدہ بحران تاحال حل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ برطانوی معیشت اس وقت حکومتی پالیسیوں کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی، کورونا اور اب پے در پے حکومتوں کی تبدیلی نے برطانوی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ معیشت سنبھلنے کے بجائے بدترین بحران کا شکار ہورہی ہے، جس کا لامحالہ اثر عوام پر پڑ رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سالانہ مہنگائی 17 فیصد سے بھی زائد ہے لیکن اس کے برعکس سرکار کی جانب سے کم از کم تنخواہوں کی مقررہ حد میں اضافہ محض 10 فیصد کیا گیا ہے، جس میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں اضافہ شامل نہیں ہے، جس کی وجہ سے نرسیں، ڈیلیوری ڈرائیور، ٹرین کا عملہ، اساتذہ، ائرلائن ملازمین اور ائرپورٹ کا عملہ ہڑتالیں کررہے ہیں۔ برطانیہ کی تین لاکھ نرسوں اور پندرہ ہزار افراد پر مشتمل ایمبولینس سروس کے عملے نے بھی ہڑتال کی کال دی ہے جس پر عمل درآمد کی صورت میں برطانوی نظامِ صحت بہت بری طرح متاثر ہوگا۔ اس وقت برطانیہ کا نظام صحت بحرانوں کی زد میں ہے، ڈاکٹروں کی قلت پر بمشکل قابو پایا گیا تو اب نرسوں کی قلت کا سامنا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ہیلتھ کیئر ورکرز کی شدید ترین قلت ہے جس کو دور کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے اسپیشل ویزوں کا اجراء کیا ہے۔ برطانوی معیشت کی کارکردگی بدتر ہوتی جارہی ہے اور آئی ایم ایف کی وارننگ کے باوجود کوئی بہتری نہ آنے پر معاشی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے برطانیہ کی ریٹنگ مستحکم سے غیر مستحکم کردی ہے، جس سے آنے والے دنوں میں برطانیہ میں معاشی ترقی کی رفتار مزید متاثر ہوگی۔ برطانیہ کی سیاست ایک طرف بحران کا شکار ہے تو دوسری جانب برطانیہ کے معاشی عدم استحکام نے سیاسی عدم استحکام کو مزید گہرا کردیا ہے۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن بھی برطانوی وزیراعظم لزٹرس کے استعفے کے بعد اپنی تعطیلات ترک کرکے واپس لندن پہنچ گئے جہاں انہوں نے ایک بار پھر کوشش کی کہ کنزرویٹو پارٹی ان کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کردے، تاہم ان کو پارٹی کے مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل نہ ہوسکی، اور ان کے سابق وزیر خزانہ بھارتی نژاد برطانوی رشی سوناک کو پارٹی نے وزیراعظم نامزد کردیا ہے جو اسی ہفتے اپنے عہدے کا چارج لے لیں گے۔ رشی سوناک پہلی مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کے ٹکٹ پر یارکشائر سے 2015ء میں رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے ان کا سفر جاری ہے۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن کے ساتھ 2020ء تا 2022ء وزیر خزانہ بھی رہے، اور ان کی شہرت کی وجہ کورونا کی وبا کے دوران فرلو اسکیم تھی جس میں کورونا کے دوران کام نہ کرنے والے افراد اور کاروبار کو ان کی آمدن کا 80 فیصد حکومت کی جانب سے گھر بیٹھے ادا کیا گیا۔ اس اقدام نے رشی سوناک کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا اور اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو حکومت کی جانب سے رقوم کی ادائی کی وجہ سے برطانوی معیشت کا بیڑا غرق ھوگیا اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث کساد بازاری میں اضافہ ہوا اور اس خسارے کو دیگر جگہوں سے پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی نژاد نامزد وزیراعظم رشی سوناک کے والدین افریقہ سے ہجرت کرکے برطانیہ آئے تھے۔ ان کے والد ڈاکٹر اور والدہ فارماسسٹ تھیں۔ رشی کی پیدائش برطانیہ ساؤتھ ہیمپٹن کی ہے۔ وہ مئی 1980ء میں پیدا ہوئے۔ برطانیہ کی اعلیٰ ترین درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں معروف امریکی درسگاہ اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے فل برائٹ اسکالر کی حیثیت سے ماسٹرز کیا۔ رشی سوناک آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے 30 ویں برطانوی وزیراعظم ہوں گے۔ اس کے علاؤہ وہ کم عمر ترین اور پہلے غیر برطانوی نژاد اور پہلے ہندو وزیراعظم بھی ہوں گے۔ اگر رشی سوناک کو دیکھا جائے تو وہ بھی ایک سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، خاص طور پر ان کا سسرال ارب پتی ہے اور اس وقت ان کے اور ان کی اہلیہ کے موجودہ سرمائے کا تخمینہ 730 ملین برطانوی پائونڈ ہے۔ ماضیِ قریب میں ان کی اہلیہ بھی ٹیکس چھوٹ سے ناجائز فائدہ اٹھانے جیسے الزامات کی زد میں رہی ہیں۔
دوسری جانب سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ گوکہ اس وقت نئے وزیراعظم کے انتخاب کے بعد شاید یہ سیاسی بحران چند دن کے لیے ٹل جائے کیونکہ موسم سرما میں انتخابات کروانا برطانیہ میں ایک مشکل کام ہے۔ لیکن حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی میں شدید تقسیم، تین ماہ میں تین وزرائے اعظم کی تبدیلی اور شدید معاشی عدم استحکام سے نمٹنے کا واحد راستہ عام انتخابات ہی نظر آتے ہیں۔ سیاسی پنڈت عام انتخابات کے قبل از وقت ہونے کی بھی پیش گوئی کررہے ہیں لیکن اس وقت شدید ترین مسئلہ افراطِ زر، مہنگائی اور توانائی کی بے مہار قیمتیں ہیں جنہوں نے برطانوی عوام کو شاید تاریخ میں پہلی بار تین وقت کے بجائے ایک اور دو وقت کھانا کھانے، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ سالِ گزشتہ اگست تک برطانیہ میں دس لاکھ ملازمتوں پر افراد کی ضرورت تھی جن کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار رک چکی تھی۔ یورپی یونین، افریقی ممالک اور بھارتی باشندوں کو ویزے دینے کے بعد اسٹوڈنٹ ویزا پر پورے خاندان کو بلاکر ان اسامیوں کو کسی حد تک پُر تو کرلیا گیا لیکن تاحال بہت سے شعبہ جات میں اب بھی اسامیاں خالی ہیں جن کو پُر کرنے کے لیے حکومت نئی ویزا اسکیموں کا اجراء کرنے کی منصوبہ بندی تو کررہی ہے لیکن اس شدید مہنگائی کی وجہ سے شاید ان نئے ویزوں کا اجراء بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو برطانیہ ہجرت پر آمادہ نہ کرسکے۔
اس تمام صورت حال میں رشی سوناک وزیراعظم بننے جارہے ہیں کہ جب مسائل کا انبار ہے، معیشت اور معاشی ترقی رک چکی ہے، بے روزگاری اور بھوک کا شاید موجودہ تاریخ میں پہلی بار برطانوی عوام کو سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان حالات میں ملک کو معاشی ترقی کی جانب گامزن کرنا یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ حکومت اس وقت سخت اقدامات سے بھی شاید گریز کرے کیونکہ ایک سال کے بعد الیکشن آنے والا ہے اور حکومت کے سخت اقدامات کی عوام کی جانب سے پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے شاید موجودہ حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی اپنی جیت کا تسلسل برقرار نہ رکھ سکے۔ یہ تو آنے والا وقت فیصلہ کرے گا کہ رشی سوناک کی پالیسیاں کیا معاشی دباؤ میں کمی کا باعث بن سکیں گی، اور کیا ان کی سربراہی میں کنزرویٹو پارٹی ایک بار پھر الیکشن میں سرخرو ہوسکے گی؟ بہرحال رشی سوناک غیر برطانوی نژاد وزیراعظم کی حیثیت سے ایک تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں۔ وہ برطانیہ جو کل برصغیر پر حکومت کرکے گیا تھا آج خود اس کے حکمران اسی برصغیر سے ہیں۔ یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا موڑ ہے جو کہ برطانوی تاریخ میں شاید ہمیشہ یاد رکھا جائے۔