الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ متوقع تھا۔ عمران خان کو نااہل ہی ہونا تھا، کیونکہ الیکشن کمیشن کی سیاسی پھرتیاں ظاہر کررہی تھیں کہ وہ یہی فیصلہ کرے گا جو سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی پنڈت پہلے ہی یہ پیشگوئی کرچکے تھے کہ عمران خان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ مقدمے میں نااہلی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہمارے یہاں قانونی فیصلوں کو کبھی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھا جانا چاہیے، اور یہ فیصلہ بھی قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ سیاسی تقاضوں کو جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے۔کیونکہ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی یہی کوشش تھی کہ وہ کسی بھی طریقے سے عمران خان کو تکنیکی یا قانونی بنیادوں پر سیاسی میدان سے باہر کردیں، کیونکہ عمران خان کی مقبولیت ان کے سامنے ایک بڑی سیاسی دیوار بن گئی تھی اور ان مخالفین کے لیے سیاسی محاذ پر مقابلہ اب آسان نہیں رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان بھی پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ان کے مخالفین تکنیکی بنیادوں پر انہیں سیاسی میدان سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔
جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کا مقدمہ قانونی ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ عمران خان کا مقدمہ سیاسی ہے، اور سیاسی محاذ پر ہی ان کو ایک بڑی سیاسی مخالفت کا سامنا ہے۔ یہ مخالفت جہاں سیاسی محاذ پر پائی جاتی ہے وہیں طاقت ور طبقے یا پس پردہ فیصلہ کن قوتوں سے بھی مختلف محاذوں پر عمران خان کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ کیونکہ مقبول سیاسی جماعت ہو یا سیاسی قیادت، اسٹیبلشمنٹ کے حلقے اسے آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ اس سے قبل یہی کھیل ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے ساتھ ہوچکا ہے، اور اب بظاہر لگتا ہے کہ عمران خان کی باری ہے۔ مگر عمران خان کا کمال یہ ہے کہ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاست نہیں کررہے، بلکہ ان کے کھیل کی بنیاد سیاسی میدان اور عوامی مقبولیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے وزیراعظم ہائوس سے نکلنے کے بعد نہ صرف پچاس سے زیادہ عوامی جلسے کیے جو اپنی مقبولیت یا حاضری کے تناظر میں بہت بڑے تھے، بلکہ انہوں نے پنجاب اور دیگر صوبوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں سات نشستوں میں سے چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے انتخابی میدان میں بھی سیاسی برتری حاصل کی ہے۔
عمران خان کا سیاسی بیانیہ غلط ہے یا درست، یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ دونوں صورتوں میں وہ اپنے بیانیے کی سیاسی اہمیت منوا چکے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا بیانیہ درست ہے۔ یقینی طور پر انہوں نے اس بیانیے میں سیاست بھی کی ہوگی اور اس میں کچھ مرچ مصالحہ بھی لگایا ہوگا، مگر سیاست دان یہ سب کچھ کرتے ہیں، اور ایسا کرنا ان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ بظاہر عمران خان کے سیاسی مخالفین ان کے مقابلے میں متبادل بیانیے کی تلاش میں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے توشہ خانہ مقدمے کے فیصلے سے قبل آڈیو لیکس کا اسکینڈل بھی سامنے آیا اور مخالفین کا خیال تھا کہ اس سے عمران خان کو کمزور کیا جاسکے گا۔ لیکن حالیہ ضمنی انتخاب میں یہ تجربہ بھی ناکام رہا، اور اب الیکشن کمیشن کا حالیہ فیصلہ بھی کم ازکم ان کی سیاسی مقبولیت کو کم نہیں کرسکے گا۔ اس کی ایک وجہ الیکشن کمیشن کا کمزور فیصلہ ہے۔ بہت سے قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے میں کئی قانونی سقم ہیں اور اعلیٰ عدالتوں میں اس کو کوئی پذیرائی نہیں مل سکے گی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کو تو اس مقدمے میں نااہل کیا جارہا ہے، مگر دیگر حکومتی اور ان کے اتحادی سیاست دانوں کے ساتھ نیب، الیکشن کمیشن اور عدالتوں سمیت احتساب کے دیگر اداروں کا جو سلوک دیکھنے کو مل رہا ہے اس میں سوائے مفاہمت اور مقدمات کے خاتمے کے کچھ بھی نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنی ابتدائی سماعت میں صاف کہہ دیا ہے کہ عمران خان کے الیکشن لڑنے پر کوئی پابندی نہیں اور وہ محض ایک سیٹ کے لیے نااہل ہوئے ہیں، اور وہ کہیں سے بھی دوبارہ انتخاب لڑسکتے ہیں۔ اس لیے یہی امید ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف جب ایک طرف حکمران اتحاد کے لوگ بدعنوانی کے مقدمات سے باہر نکالے جارہے ہیں تو عمران خان کے خلاف اس طرز کی کارروائی کو سیاسی انتقام ہی سمجھا جائے گا۔ لوگ یک طرفہ قانونی کارروائی کو قبول نہیں کریں گے۔ ایک طرف سب سیاسی فریقین کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یعنی سازگار ماحول فراہم کرنے کی بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف عمران خان کی اس طرح کی نااہلی کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی ان طور طریقوں سے کوئی بھی آنے والے انتخابات کی ساکھ یا اہمیت کو قائم کرسکے گا۔
بنیادی طور پر ہماری سیاست ایڈونچرز یا سیاسی مہم جوئی کے گرد گھومتی ہے۔ اس میں کردار بدلتے رہتے ہیں مگر سیاسی اسکرپٹ لکھنے والے اس کھیل میں مہم جوئی کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کھیل سے نہ تو ماضی میں کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔ یہ عمل قومی سیاست اور معیشت کو عدم استحکام سے دوچار کرے گا۔ بنیادی طور پر رجیم چینج کے بعد جو ملکی منظرنامہ بن رہا ہے وہ قوم کے سامنے ہے، اور تبدیلی کے اس عمل نے قومی سیاست اور جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی، کیونکہ تبدیلی کا یہ عمل سیاسی اور جمہوری کم، اور سازشی کھیل کا زیادہ حصہ تھا۔ اس کا اعتراف اب خود حکومتی وزرا یا ارکانِ اسمبلی کررہے ہیں کہ ہمیں حکومت کے کھیل میں زبردستی دھکا دیا گیا ہے اور ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ عمران خان قومی سیاست کے کوئی آئیڈیل کردار نہیں، اور ان کے کھانے میں بہت سی غلطیاں یا ناکامیاں ہیں، مگر ان کی سیاسی مقبولیت کا مقابلہ بھی سیاسی بیانیے یا سیاسی میدان میں ہی ہوگا۔ ہمارے فیصلہ ساز بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کے الزامات سے کسی کا سیاسی قد کاٹھ کم نہیں ہوتا، اور ماضی میں یہ تمام تجربے ناکام ہوگئے ہیں۔ اس لیے خدارا ملک کو تجربہ گاہ نہ بنایا جائے، اس طرح کے اقدامات سے کسی کو بھی کچھ نہیں مل سکے گا۔ ہمیں اس طرز کی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور بلاوجہ پسِ پردہ قوتوں کے ایجنڈے کے مقابلے میں قومی سیاست اور ریاست کی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے۔
یہ یاد رکھیں کہ سیاست سے کسی کو آئوٹ کرنے کا اصل حق عوام کا ہے، اور یہ حق عوام کو انتخابات کی صورت میں ملتا ہے۔ اس لیے جو کھیل ہم نے بے نظیر اور نوازشریف کے لیے کھیلا وہ بھی غلط تھا، اور اب بھی جو کھیل کھیلا جارہا ہے، غلط ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا ہمارے ملک کے سیاسی اور دیگر فریقین ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟ یا وہی پرانا کھیل نئے سیاسی رنگوں کی بنیاد پر کھیلنے کا عمل جاری رہے گا؟ اور جس کا مقصد سوائے سیاسی طاقت کے حصول کے، کچھ بھی نہیں۔ یہ ایک نئی دنیا ہے جہاں سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی اجارہ داری ہے، اور اب اس کھیل کی حرکیات بدل گئی ہیں۔ پرانے طرز کے کھیل نہ صرف برے طریقے سے بے نقاب ہورہے ہیں بلکہ اپنی اہمیت بھی عملاً کھو بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے محاذ پر نوجوانوں کا جو بیانیہ چل رہا ہے اسے بالادستی حاصل ہے، اور بدقسمتی سے اس کھیل میں اداروں پر جو تنقید ہورہی ہے وہ بھی قابلِ توجہ ہے، اور سنجیدگی سے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل سیاسی معرکہ پنجاب میں ہے جہاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں پانی پت کی جنگ کا ماحول ہے۔ پنجاب میں پچھلے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ عمران خان کے مقابلے میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ عمران خان کے خلاف جاری تمام منفی مہم بھی حکمران اتحاد کو مطلوبہ نتائج نہیں دے رہی، اور یہی بڑا چیلنج ہے جس پر حکمران اتحاد کو زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی مسائل، تنازعات اور ٹکرائو یا مخالفت کے ماحول کو ایک بڑی سیاسی کشیدگی یا سیاسی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ذمے داری کسی ایک فریق پر عائد نہیں ہوتی، بلکہ سیاسی اور غیر سیاسی تمام فریقین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملات کو بند گلی میں نہ لے کر جائیں۔ سیاست اور جمہوریت آگے بڑھنے کا راستہ نکالتی ہیں، اور سیاسی مسائل سے محض قانونی بنیادوں پر نمٹنے کی پالیسی سے قومی سیاسی یا جمہوری مسائل کا حل ممکن نہیں۔ بالخصوص جب معاملات یا احتساب کے عمل کو پسند و ناپسند یا سیاسی بارگیننگ کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جائے گی تو اس کو کوئی نہ پہلے تسلیم کرتا تھا اور نہ اب تسلیم کرے گا۔