ایران میں ہنگامے

”حجاب تنازع“ سیاسی تقسیم کی علامت بن گیا

ایران میں نوجوان کرُد خاتون مہسا المعروف ژینا امینی کی زیر حراست موت کے بعد سے ہونے والے احتجاج و ہنگاموں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تمام شہروں میں زن، زندگی اور آزادی (کرد تلفظ ژن، ژیان، آزادی) کا نعرہ لگاتی خواتین سڑکوں پر ہیں۔ پولیس سے تصادم میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ایرانی کردستان کے دوسرے بڑے شہر سقز کی رہائشی 22 سالہ ژینا اپنے بھائی سے ملنے تہران آئی۔ اُسے 13 ستمبر کو تہران کی مرکزی شاہراہ سے ”گشتِ ارشاد“ (اخلاقی پولیس)نے اُس وقت گرفتار کرلیا جب وہ اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ نجی گاڑی میں تھی۔ گرفتاری کے وقت اس کے بھائی سے کہا گیا کہ مہسا کو ”نصیحت“ کے لیے حراستی مرکز لے جایا جارہا ہے اور ایک گھنٹے میں اسے گھر واپس پہنچا دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد اہلِ خانہ کو اطلاع دی گئی کہ مہسا کو دورانِ حراست دل کا دورہ پڑا ہے اور اسے پولیس کی نگرانی میں تہران کے نجی اسپتال ”بیمارستانِ کسریٰ“ پہنچایا جارہا ہے۔ ژینا کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا جہاں وہ 16 ستمبر کو دم توڑ گئی۔

مہسا کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد حوالات لے جاتے ہوئے پولیس کی گاڑی میں اس پر تشدد کیا گیا۔ ثبوت کے طور پر ان لوگوں نے پہلے سے موجود زیرحراست افراد کے تاثرات پیش کیے ہیں جس کے مطابق تھانے پہنچتے وقت مہسا کی حالت غیر تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی بینائی ختم ہوچکی ہے اور گاڑی سے اترتے ہی وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑی۔ کسریٰ اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہاں آنے سے پہلے ہی مہسا کا دماغ مُردہ ہوچکا تھا۔ کسریٰ نے اس کے لیے brain deadکی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مہسا کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کی بہن کے سر اور پیروں پر تشدد کے نشان تھے۔ حوالات میں قید دوسری خواتین کا کہنا ہے کہ تھانے لاتے ہوئے پولیس افسران نے مہسا کو گالیاں دیں جس کا اس لڑکی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، اور مشتعل ہوکر پولیس افسران نے مہسا کو مارا پیٹا اور ضرب و شلاق کے دوران سر پر لگنے والی چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی۔ مہسا کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ایک پولیس والے نے اس لڑکی کے سر پر ڈنڈا بھی مارا۔ دوسری طرف ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ مہسا کو دل و دماغ کا عارضہ تھا۔ ایک ماہرِ آعصاب ڈاکٹر نوشیروانی کا کہنا ہے کہ آٹھ برس کی عمر میں آپریشن کے ذریعے ایک رسولی (tumor) مہسا کے دماغ سے نکالی گئی تھی اور ڈاکٹروں نے مزید رسولیوں کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ مہسا کے والد نے حکومتی دعوے کو جھوٹ قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی صحت مند نوجوان لڑکی تھی جسے کسی قسم کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا۔

کہا جارہا ہے کہ مہسا کے اسکارف میں سے کچھ بال نظر آرہے تھے جو گشتِ ارشاد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کا سبب بنے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ”گشتِ ارشاد“ ایرانی پولیس کے خصوصی دستے ہیں جنھیں اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور ”غیر مناسب“ لباس پہنے ہوئے افراد کی ”اصلاح“ کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔ مقامی قانون کے تحت گھر سے باہر نکلتے وقت خواتین کے لیے اپنے سرکو پوری طرح ڈھانپنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایسا لباس پہننے کی بھی اجازت نہیں جس میں جسم کے خدوخال نمایاں ہوں۔ چست لباس پر پابندی مردوں کے لیے بھی ہے اور گھر سے باہر ایسی ہاف پینٹ پہننا ممنوع ہے جس میں گھٹنے عریاں ہوں۔

ان ہنگاموں کے دوران ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک آئے ہوئے تھے۔ امریکی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مہسا کی موت کی تحقیقات انصاف کا تقاضا ہے اور ایرانی حکومت عدل و انصاف کے معاملے میں اپنے فرض سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ احتجاج بھی عوام کا حق ہے اور اس حق کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے، تاہم احتجاج کے نام پر ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایرانی صدر نے برطانیہ اور امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں شہری ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں ایک ”زیرتحقیق“ واقعے پر قیامت کھڑی کردینا دہرے معیار کی بدترین مثال ہے۔

دیکھ غافل اپنی آنکھوں کا ذرا شہتیر بھی

اس صورتِ حال کی وضاحت کے لیے امریکی نیوز چینل سی این این کی ایرانی نژاد میزبان کرسچین امان پور نے ایرانی صدر سے انٹرویو کی درخواست کی۔ صدر رئیسی اس شرط پر راضی ہوئے کہ ان کی گفتگو براہِ راست (live) نشر کی جائے گی۔ ملاقات سے پہلے ایرانی صدر نے کہا کہ انٹرویو کے دوران امان پور صاحبہ کو اسکارف اوڑھنا ہوگا۔ خاتون صحافی نے اس شرط کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ملاقات نیویارک میں ہورہی ہے جہاں قانونی طور پر ایسی پابندیاں نہیں۔ جواب میں ایرانی صدر نے کہا کہ وہ میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنی ثقافت اور تہذیب کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ چنانچہ امان پور صاحبہ نے یہ انٹرویو منسوخ کردیا۔ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کرسچین امان پور نے صدر رئیسی کے معاون کا پیغام نقل کیا جس کے مطابق ایرانی حکام نے کہا کہ ”اگر امان پور صاحبہ اسکارف نہیں اوڑھتیں تو انٹرویو نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہماری قومی عزت کا معاملہ ہے“۔

جہاں اس واقعے کے خلاف احتجاج جاری ہے وہیں حجاب کے حق میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تہران میں ہزاروں برقع پوش خواتین اسلامی ایران کے بانی حضرت آیت اللہ خمینی کی تصاویر لے کر سڑکوں پر نکل آئیں جن میں طالبات کی اکثریت تھی۔ یہ خواتین ”حجاب ہماری آبرو“ کے نعرے لگارہی تھیں۔ تہران کے علاوہ مشرقی آذربائیجان، جنوبی خراسان، بلوچستان ہرمزگان، کاشان، قم، یزد، بوشہر، کرمان، وسطی فارس، مغربی آذربائیجان اور ایلام میں بھی برقع پوش خواتین نے مظاہرے کیے۔

حجاب ایران میں ہمیشہ سے جذبات کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔ جب 1978ء میں شاہ ایران کے خلاف عوامی تحریک میں شدت آئی تو ایرانی خواتین نے اسکارف اور چادر کو شاہ ایران کے خلاف نفرت کا استعارہ بنالیا۔ مظاہرین کی ترجمان فاطمہ تہرانی نے امریکہ کے مشہور صحافی آنجہانی والٹر کرانکائٹ(Walter Cronkite) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی خواتین شاہ ایران کو ”چڑانے“ کے لیے اسکارف اوڑھ رہی ہیں۔ شاہ صاحب حجاب کے سخت خلاف تھے اور اسے خواتین کی غلامی کی علامت کہا کرتے تھے۔

حالیہ مظاہروں میں حکومت مخالف خواتین، سرکار کے خلاف نفرت کے اظہار میں اسکارف جلا رہی ہیں۔ ایران میں خواتین کے آرائشِ گیسو کے مراکز پر بالوں کی تراش خراش کی تو اجازت ہے لیکن انہیں اتنا چھوٹا کرنا کہ مردوں سے مشابہت پیدا ہو، منع ہے۔ حکومت مخالف خواتین نے اب بطور احتجاج بال کٹوانے شروع کردیے ہیں۔

حالیہ ہنگاموں میں فرقہ وارانہ پہلو بڑا نمایاں ہے۔ مہسا چونکہ کرد تھی اس لیے کردستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ کردستان میں سُنّیوں کی اکثریت ہے۔ اسی طرح سُنّی بلوچستان بھی حکومت مخالف مظاہروں کی لپیٹ میں ہے۔

حالیہ تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ نوجوانوں خاص طور سے لڑکیوں میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جامعات کے ساتھ اب اسکولوں کی بچیاں بھی سڑکوں پر ہیں اور ان کا خاص ہدف حجاب ہے۔ طالبات چھوٹے بالوں (boy cut) کے ساتھ بلا اسکارف اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر نشر کررہی ہیں۔ ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی ہیں لیکن اس معاملے میں ریاستی جبر ناقابلِ قبول ہے۔ دوسری جانب مغربی ممالک کا ردعمل بہت سخت ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور یورپی یونین نے ایرانی خواتین پر ”تشدد“ کی مذمت کرتے ہوئے ایرانی حکام پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔

اسی دوران 15 اکتوبر کو تہران کے مضافاتی علاقے اوین میں واقع زندانِ اوین کی آگ نے مزید سنسنی پیدا کردی ہے۔ یہ قید خانہ شاہ ایران نے سیاسی قیدیوں خاص طور سے حکومت مخالف طلبہ کو زیرحراست رکھنے کے لیے 1972ء میں قائم کیا تھا۔ جب شاہ کے خلاف آیت اللہ خمینی نے تحریک شروع کی تو اس کی پشت پر جامعات کے طلبہ تھے، جن کی بڑی اکثریت کو اوین جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ بڑی تعداد میں پروفیسر بھی گرفتار ہوئے۔ ان اساتذہ نے جیل میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اس کا نام جامعہ زندانِ اوین پڑگیا۔ انقلاب کے بعد نئی حکومت نے اپنے مخالفین کی مزاج پرسی اور گوشمالی کے لیے اس جیل کا استعمال شروع کیا، اور کہا جاتا ہے کہ سیکڑوں خواتین سمیت موجودہ حکومت کے پندرہ سو مخالفین اس وقت زندانِ اوین میں بند ہیں۔ حالیہ ہنگاموں کے دوران گرفتار ہونے والے مظاہرین بھی یہاں رکھے گئے ہیں۔ تہران کے گورنر محسن منصوری نے سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA کو بتایا کہ کچھ قیدیوں نے سلائی کڑھائی کے تربیتی مرکز کے ایک حصے کو آگ لگادی جس پر فوراً قابو پالیا گیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق اس واقعے میں 6 افراد زخمی ہوئے اور کسی شخص کے ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔ حسبِ توقع امریکہ اور مغربی ممالک کو اس واقعے پر سخت تشویش ہے۔

حجاب و پردے کی شرعی حیثیت کے بارے میں علمائے کرام بہتر رائے دے سکتے ہیں، لہٰذا ہم اپنی گفتگو اس مسئلے کے سیاسی پہلو تک محدود رکھ رہے ہیں۔ یورپی یونین اور امریکہ کا کہنا ہے کہ لباس کا انتخاب ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور ریاست کو اس سلسلے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ اسکارف کے معاملے میں مہسا کی گرفتاری ہی غلط تھی اور لباس کے لیے تشدد ”تہذیب“ کے خلاف ہے۔ بظاہر مغرب کا یہ موقف منطقی نظر آتا ہے لیکن ستم ظریفی کہ ایران و افغان خواتین کی ”آزادیِ لباس“ کے لیے فکرمند مغرب کو فرانس کی مسلم خواتین کے بنیادی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں، جہاں قانون کے تحت پبلک مقامات پر اسکارف اوڑھنا منع ہے۔ حتیٰ کہ دکان کی مالکہ بھی اپنی دکان پر سر نہیں چھپا سکتی۔ غسلِ آبی و آفتابی کے لیے ساحلِ سمندر یا تیراکی کے حوض پر جانے والی خواتین کو ساتر لباس کی اجازت نہیں اور ان کے لیے bikiniپہننا ضروری ہے۔ فرانس کے وزیرثقافت کہہ چکے ہیں کہ جن خواتین کو ستر کا خیال ہے وہ ساحلوں سے دور رہیں۔

ایران اور افغانستان میں سر ڈھانپنے پر اصرار غلط، اور فرانس میں بچیوں کے سر سے حجاب نوچ لینے کی اجازت کو دہرے معیار کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے! فرانس کے بعد اب سوئٹرزلینڈ میں بھی حجاب کو غیر قانونی قرار دینے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ سوئستانی پارلیمان ایک مسودئہ قانون پر بحث کررہی ہے جس کے تحت ڈاک خانوں سمیت تمام سرکاری دفاتر، پارک، ساحل اور دوسرے پبلک مقامات پر برقع اوڑھنا جرم قرار دیا جارہا ہے جس کے مرتکبین کو ایک ہزار ڈالر جرمانہ کیا جائے گا۔ اگر لباس کا انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے تو جو بات ایران میں غلط ہے اسے یورپ میں درست کیسے کہا جاسکتا ہے؟

…………………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔