بلدیاتی انتخابات کا پھر التوا،جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ
کراچی، جہاں تعلیم ہے، شعور ہے، وسائل ہیں، ملک کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد کراچی میں آباد ہے، اس شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہاں ہر خطے کے باشندے آباد ہیں، یہ قائداعظم کا شہر ہے، اس کا شمار دنیا کے دس بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔ کراچی میں ملک کی 60 فیصد صنعتیں موجود ہیں۔ یہ جمہوریت اور سیاسی تحریکوں کا شہر ہے، لیکن اس وقت بدترین بدانتظامی کا شکار ہے۔ شہر کا انفرااسٹرکچر تباہ ہے، شہر میں شہری جرائم پیشہ افراد کے نشانے پر ہیں، آئے دن لوگ اپنی قیمتی چیزیں لٹا رہے ہیں۔ یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے میں فوری ضرورت کراچی کو بلدیاتی انتخابات کی تھی، لیکن پیپلزپارٹی پہلے دن سے ہی نہیں چاہتی تھی کہ بلدیاتی انتخابات ہوں، اور اس سارے کھیل میں وفاق اور اُس کے متعلقہ ادارے پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے، جس کے نتیجے میں اب ایک بار پھر کراچی کے 7 اضلاع میں 23 اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں اِس بار انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ پندرہ دن بعد فیصلہ ہوگا کہ انتخابات کب ہوں گے۔
اس سارے ڈرامے کا پس منظر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو خط ارسال کیا جس میں کہا گیا کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے دوران پولیس کی نفری پوری نہیں ہے اور اندرونِ سندھ سے بھی پولیس کی نقل و حمل ممکن نہیں کیونکہ دیگر اضلاع میں پولیس فلڈ ریلیف کی کارروائیوں میں مصروف ہے، لہٰذا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو 3 ماہ کے لیے ملتوی کیا جائے۔ لیکن اس پر الیکشن کمیشن نے واضح طور پر کہا تھا کہ مقررہ تاریخ پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ اور الیکشن کمیشن نے حکومتِ سندھ کی درخواست پر جائزہ لینے کے بعد بلدیاتی انتخابات کے التوا کی درخواست مسترد کردی تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی نے دوبارہ خط لکھا اور الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے وفاق سے سیکورٹی اہلکار فراہم کرنے سے متعلق جواب مانگا، جس پر پیپلز پارٹی کی اتحادی وزارتِ داخلہ نے سیکورٹی فراہم کرنے سے منع کردیا اور بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کو باقاعدہ خط لکھا ہے، جس میں بلدیاتی انتخابات کے لیے سیکورٹی اہل کار فراہم کرنے سے معذرت کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ سندھ حکومت کی مشاورت سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا فیصلہ کرے۔
اس تماشے میں اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو وزارتِ داخلہ کو یہ لکھنا تھا کہ وہ سیکورٹی فراہم کرے، لیکن اس نے مشورہ مانگ لیا۔ جبکہ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت اختیار حاصل ہے کہ وہ اداروں کے لوگوں کو طلب کرسکتا ہے، اس لیے چیف الیکشن کمشنر کو واضح طور پر فوج اور رینجرز کو طلب کرنا چاہیے تھا، لیکن اس کے بجائے انہوں نے رائے طلب کی اور وزارتِ داخلہ نے منع کردیا۔ کیا اس سارے عمل میں بات اتنی ہی سادہ ہے؟
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کسی خاص اشارے پر ایک مخصوص سوچ اور طے شدہ فیصلوں کے ساتھ ایک ایک قدم اٹھا رہا ہے اور کبھی الیکشن ہونے کا پُرزور اعلان اور کبھی واپسی… یہ سب ایک حکمت عملی کے تحت ہی ہوا، اور اس فیصلے سے الیکشن کمیشن نے پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور نون لیگ کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی، سندھ حکومت، گورنر، وفاق، ایم کیو ایم اور الیکشن کمیشن اور فیصلہ کرنے والے اصل ادارے.. سب ایک پیج پر اور پوری طرح عیاں ہیں۔ یہ سب مل کر کراچی کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور اس کو نشانے پر رکھا ہوا ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی کو اس پورے گلے سڑے نظام سے بھی اربوں روپے کی ماہانہ آمدنی ہورہی ہے تو وہ کیوں اس پورے نظام کو کسی اور کے حوالے کرے گی؟ کراچی کے لیے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں نے کبھی کسی کو کچھ نہیں دیا۔ تاریخ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے 11سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا، اس پیکیج کا حال عوام کے سامنے ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے کراچی کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے کراچی مرکزی سیاسی دھارے سے الگ ہے، لیکن برعکس اس کے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جماعت اسلامی شہر کراچی کے لیے امید اور حق کی آواز ہے۔ یہ پورے معاشرے کا قرض ہے جو جماعت اسلامی اور اس کے پُرعزم کارکنان ادا کررہے ہیں، اور یہ سب کچھ اس شہر کی حالتِ زار کو درست کرنے، اس کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنانے اور اس کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اپنی اب تک کی جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ وہی اس شہر کو اس کا حق دلانے میں سنجیدہ ہے، اور شہر کو ”اون“ کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو خطرہ ہی یہ ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے پوری فضا جماعت اسلامی کے حق میں بنی ہوئی تھی اور ہے، اور کراچی کے عوام کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی ہو، ان میں سے اکثر کو بار بار یہ کہتے سنا جارہا ہے کہ کراچی کے لیے ووٹ جماعت اسلامی کو ہی دینا ہے کیونکہ کراچی کو دوبارہ چمکتا دمکتا جماعت اسلامی ہی بنا سکتی ہے، اس نے ماضی میں یہ کرکے بھی دکھایا ہے۔ کراچی کے شہری اپنے اور کراچی کے حق کی اس جدوجہد میں گلی محلّوں کی سطح پر جماعت اسلامی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:
”ایک بار پھر جمہوریت کی نرسری پر شب خون مارا گیا ہے، ہم نے خط لکھا کہ بتائیں کون کون سے اہلکار سندھ بھیجے ہیں؟ کوئی ایک نام بھی نہیں آیا۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب! آپ کو آئین نے یہ اختیار دیا ہے کہ آپ پاک فوج اور ریاست کے کسی بھی ادارے کو الیکشن کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ آپ ان سے پوچھ کیوں رہے ہیں؟ آپ کو تو ان کو آرڈر دینا چاہیے تھا، آپ کیوں حکومت کے سہولت کار بن جاتے ہیں؟ ہم ٹیکس دیتے ہیں، ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے حکومت کا نظام چلتا ہے، امداد کے نام پر آئے پیسے بھی ہڑپ کر گئے، ان کے ٹینکوں سے بھی پیسے برآمد ہوتے ہیں، یہ لوگ کراچی کو سانس نہیں لینے دے رہے، یہ ظالم ہیں۔ ہم کراچی کی بقا کے لیے بہت بڑی تحریک شروع کریں گے۔ جمہوریت پر ڈاکے مارنے والے انتخابات سے بھاگتے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب عوام کی رائے ہے۔ جمہوریت کا مرکز بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اگر آئین کے آرٹیکل 220 کے مطابق اختیارات استعمال نہیں کرسکتے تو استعفیٰ دے دیں۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ ”جماعت اسلامی سے پریشان ہوکر الیکشن ملتوی کروائے گئے ہیں، کیونکہ آپ پریشان تھے کہ جماعت اسلامی آگئی تو کوئی سوال کرے گا کہ سڑکیں بنانے میں کرپشن کیوں ہوئی؟ انہیں معیار نہیں بلکہ کرپشن چاہیے۔ ان سے سوال ہوگا کہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار کیوں نہیں بنایا جارہا؟“ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ کسی صورت انتخابات کا التواء قابلِ قبول نہیں ہے، اور وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیوں آپ ایک شہر میں انتخابات نہیں کروا سکتے؟ کیوں آرمی کو سیکورٹی پر نہیں لگایا جاسکتا؟ کیوں رینجرز اہلکار پولنگ اسٹیشنز پر سیکورٹی نہیں دے سکتے؟ یہ سب ملے ہوئے ہیں، کراچی دشمنی میں سب ایک ہیں۔ اکیلی جماعت اسلامی ان گیارہ جماعتوں کا مقابلہ کررہی ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پٹیشن دی گئی، ہائی کورٹ نے 23 اکتوبر کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے 25 اکتوبر کو سماعت رکھی ہے، ہم سپریم کورٹ جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کراچی ترقی کرے گا، پاکستان ترقی کرےگا۔ کراچی میں جن لوگوں کی حکومت رہی ہے اور یہاں کے عوام جن سنگین مسائل سے دوچار ہیں اس کی ذمہ داری جن جن پر عائد ہوگی۔ ہم ان کو بے نقاب کرتے رہیں گے جو 14سال سے حکومت کررہے ہیں اور جو یہاں سے مینڈیٹ لے کر ہر حکومت کے ساتھ شریکِ اقتدار رہے ہیں، اور جن کی حکومت ساڑھے تین سال رہی ہے ہم تو یہی کہیں گے کہ یہ سب اپنے اپنے دور کے ذمہ دار ہیں، اور ان کی نااہلی کے باعث ہی شہر کی آج یہ ابتر حالت ہوگئی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور نواز لیگ اپنے اپنے دور میں کراچی کے عوام کے مسائل حل کروانے کے لیے عملی اقدامات کرتیں تو آج شہر میں موجودہ سنگین صورت حال نہ ہوتی۔ بلدیاتی انتخابات جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک کا ایک سنگ میل ہوں گے۔
بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کراچی شہر کے مسائل کے حل کے لیے فوری ضرورت اور ایک راستہ ہے جسے ملتوی کرواکر کراچی کے ساتھ ہی نہیں ملک کے ساتھ دشمنی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ کراچی کے لوگ شہر میں بلدیاتی انتخابات چاہتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کے بنیادی اور دیرینہ مسائل حل ہوں۔ بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم، صفائی ستھرائی کا نظام بہتر ہو۔ لیکن معلوم نہیں کراچی دشمنی کا یہ سفر ابھی کتنا طویل ہے اور اس کے حقوق کے لیے ابھی کتنی لمبی لڑائی لڑنی ہے۔ بلاشبہ جماعت اسلامی پوری طرح کراچی کا مقدمہ لڑرہی ہے۔ کراچی کے لوگوں کو ماضی کے مقابلے میں بڑی تعداد اور نئے جذبے کے ساتھ کراچی اور اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کے لیے جماعت اسلامی کی اس جدوجہد میں اس کا پوری طرح ساتھ دینا چاہیے۔ یقیناً عوام کی اصل طاقت ووٹ کی طاقت ہے، اور اگر ان کو اس حق کے استعمال سے زیادہ دیر روکا گیا تو انارکی سے شہر کو کوئی نہیں بچا پائے گا۔