خیبر پختون خوا ایک بار پھر تحریک انصاف کا گڑھ ثابت ہوا ہے
گزشتہ اتوار کو خیبرپختون خوا کے قومی اسمبلی کے تین حلقوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے تینوں نشستوں پر پی ڈی ایم کے امید واروں کو ایک بار پھر پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ عمران خان نے حلقہ این اے 31 پشاور میں 25ہزار، چارسدہ میں تقریباً10 ہزار، اور مردان میں 8 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ اے این پی اور جے یو آئی کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ واضح رہے کہ این اے 31 پشاورکے ضمنی انتخاب میں بظاہر تو 8 امیدوار مدمقابل تھے، لیکن اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور کے درمیان دیکھنے میں آیا۔ اس حلقے میں مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 62 ہزار اور خواتین ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 10 ہزار991 تھی۔ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتیجے کے مطابق عمران خان نے یہاں سے 57 ہزار824 ووٹ لیے ہیں، جبکہ پی ڈی ایم اور اے این پی کے مشترکہ امیدوار حاجی غلام احمد بلورکو 32 ہزار253، جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار حاجی محمد اسلم کو3 ہزار 817 ووٹ پڑے ہیں۔ عمران خان نے دوسری مرتبہ یہ حلقہ جیتا ہے، جبکہ پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر تیسری مرتبہ اس حلقے سے کامیابی ملی ہے، تاہم 2013ء کے انتخابات کے مقابلے میں عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی ہے جنہیں اُس وقت 92 ہزار سے زائد ووٹ پڑے تھے۔ اس طرح سابقہ ووٹوں کی نسبت اِس مرتبہ غلام احمد بلور کے ووٹ 8 ہزار بڑھے ہیں۔ مجموعی طور پر اِس مرتبہ ووٹ ڈالنے کی شرح 20.28 فیصد رہی۔
اسی طرح مردان کے حلقہ این اے 22 کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق عمران خان نے جے یو آئی کے امیدوار مولانا محمد قاسم کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ اس حلقے پر 4 امیدوار کھڑے تھے لیکن اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور جے یو آئی کے مولانا قاسم کے درمیان تھا۔ اس علاقے کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا دعویٰ تھا کہ مولانا قاسم آسانی کے ساتھ عمران خان سے جیت جائیں گے، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں بھی جے یو آئی کے امیدوار کو اس حلقے میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔انتخابی نتائج کے مطابق عمران خان نے 76681ووٹ لیے جبکہ مولانا قاسم کو68181 ووٹ پڑے۔ یہاں پر جمعیت (ف) کو8500 ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری عبدالواسع نے یہاں سے پہلی دفعہ انتخاب لڑتے ہوئے 8238 ووٹ حاصل کیے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24 چارسدہ پر بھی بڑا دلچسپ مقابلہ تھا۔ اس حلقے میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے امیدوار ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں، یہاں پر بھی 4 امیدوار مدمقابل تھے لیکن اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور اے این پی کے ایمل ولی کے درمیان ہوا، جس میں عمران خان نے 78589ووٹ لیے جبکہ ان کے مدمقابل ایمل ولی نے 68356 ووٹ حاصل کیے۔ اس حلقے میں مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 91 ہزار 16، اور خواتین ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 35 ہزار846 ہے۔ ووٹنگ کے لیے یہاں پر384 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔ جماعت اسلامی کے امیدوار مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ نے 7883، اور مزدور کسان پارٹی کے سپرلے مہمند نے 349 ووٹ حاصل کیے۔ یہاں ووٹ ڈالنے کا تناسب 29.02فیصد رہا۔
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 31 صوبے کی سیاسی اور پارلیمانی سیاست کے لیے نہایت اہم حلقۂ نیابت چلا آرہا ہے۔ ماضی میں ایک آزاد امیدوارکے علاوہ یہاں سے تقریباً تمام سیاسی جماعتیں یعنی قیوم خان لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔2018ء تک اس حلقے کا نام این اے ون پشاور تھا، لیکن نئی حلقہ بندیوں کے بعد اس حلقے کو حلقہ این اے 31 میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ملک میں 1970ء کے پہلے عام انتخابات میں اس حلقے سے سابق وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان کامیاب ہوئے تھے۔ 1977ء کے انتخابات میں یوسف خان خٹک قیوم لیگ کے ٹکٹ پر اس نشست سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے، تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں محمد یونس الٰہی سیٹھی بطور آزاد امیدوار اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 1988ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے آفتاب احمد خان شیر پاؤ، جبکہ 1988ء کے ضمنی انتخاب میں اے این پی کے غلام احمد بلور پہلی مرتبہ اس نشست پر کامیاب ہوئے، اور 1990ء کے انتخابات میں بھی وہ یہاں سے بے نظیر بھٹو کو شکست دے کر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ 1993ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سید ظفر علی شاہ مرحوم نے غلام احمد بلور کو شکست دی تھی، تاہم 1997ء میں یہ نشست دوبارہ غلام احمد بلور نے جیت لی تھی۔2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے (جماعت اسلامی)کے امیدوار شبیر احمد خان اس حلقے سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے، جبکہ 2008ء میں غلام احمد بلور پھر سے کامیاب ہوئے تھے، لیکن پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے2013ء کے انتخابات میں انہیں بھاری اکثریت کے ساتھ شکست دی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں بھی یہ نشست پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی نے جیتی تھی جس کو اپریل میں اُن کے استعفے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے خالی قرار دیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور حکومتی اتحاد کے مشترکہ امیدوار حاجی غلام احمد بلور نے حلقہ این اے 31 کے نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے انہیں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت میں واضح کمی ہوئی ہے، مجھے اتحادیوں نے استطاعت کے مطابق سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شکست تسلیم نہیں کرتا، صوبائی حکومت کی انتظامیہ نے مجھے ہروایا ہے،انتخابات میں حکومت کی مشینری ہمارے خلاف خوب استعمال ہوئی، حکومت نے پولنگ اسٹیشن کے اندر و باہراپنے لوگ تعینات کیے تھے۔ غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ مشورہ کرکے الیکشن کمیشن یا ہائی کورٹ جاؤں گا۔ غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر بیٹھے ایجنٹ سرکاری ملازمین ہی تھے جن کی مدد سے نتائج کو تبدیل کیا گیا، جس کے خلاف میں ساتھیوں سے مشاورت کے بعد قانونی جنگ لڑوں گا۔ غلام احمد بلور کا کہنا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے، 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے 90 ہزار ووٹ لیے تھے اور اب ووٹوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔
چارسدہ کے ضمنی انتخاب میں این اے 24 پر پی ٹی آئی کے مرکزی چیئرمین عمران خان سے شکست کھانے والے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی نے کہا ہے کہ تاریخی طور پر یہاں ہمیشہ انتخابات کومینج کیا گیا ہے۔ اتوار کے روز بھی یہی کیا گیا، ایک رات پہلے بتادیا تھا کہ صوبائی حکومت ووٹوں کی خرید و فروخت اور بوگس ووٹ ڈلوانے کی سازش کررہی ہے۔ آڈیو کالز کے ثبوت موجود ہیں جس میں اس دھاندلی کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی تھی، دس ہزار کے قریب جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں، ووٹوں کی تصدیق کے لیے الیکشن کمیشن جائیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختون خوا کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد خیبر پختون خوا ایک بار پھر تحریک انصاف کا گڑھ ثابت ہوا ہے جس پر خوشی میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سارے صوبے میں جشن منایا ہے، جبکہ پی ڈی ایم کی صفوں میں ماتم کا سماں لگ رہا ہے۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی پشاور، مردان اور چارسدہ میں پی ٹی آئی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جیت کی خوشی میں ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کی۔ کارکنوں نے جلوس نکالے اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لیے بھاری اکثریت کے ساتھ شکست حیران کن ثابت ہوئی ہے، اس لیے پی ڈی ایم کے کارکنوں کی جشن منانے کی تیاری دھری کی دھری رہ گئی اور تینوں اضلاع میں اپنے امیدواروں کی شکست کے باعث جشن نہیں منایا گیا بلکہ زیادہ تر لوگ انتخابات میں شکست کو دھاندلی قرار دے رہے ہیں اور الزام لگایا جارہا ہے کہ ٹرن آئوٹ کم ہونے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کس طرح پول ہوئے ہیں؟ اس کے لیے صوبائی حکومت کو موردالزام ٹھیرایا جارہا ہے۔ عام انتخابات سے قبل حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج سے پی ٹی آئی کا مورال لازماً بلند ہوگیا ہے، جبکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے لیے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
ان انتخابات کے نتائج سے متعلق سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خوا کی قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر پی ڈی ایم کا اتحاد صرف امیدوار کھڑے کرنے تک محدود رہا جبکہ تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف پارٹی امیدوار نے ہی تمام مہم چلائی ہے، عوامی نیشنل پارٹی کی تمام تر توجہ چارسدہ پر مرکوز رہی، جبکہ جمعیت علمائے اسلام کی توجہ صرف مردان تک محدود رہی ہے، پشاور میں پولنگ کے روز تمام سرگرمیاں بلور خاندان تک ہی محدود رہیں۔ پی ڈی ایم کی سرگرمیاں پشاور میں چند ریلیوں اور کارنر میٹنگز تک محدود رہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار غلام احمد بلور کی انتخابی مہم رکن صوبائی اسمبلی ثمر ہارون بلور نے چلائی اور پشاور کا حلقہ مقامی قیادت نے ہی سنبھالے رکھا، تاہم انتخابات کے روز جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے غلام احمد بلور کی حمایت میں نہ تو ورکرز نکلے اورنہ ہی ووٹرز نکالے جا سکے۔ چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے صوبائی صدرکوجتوانے کے لیے بہت زور لگایا، عوامی نیشنل پارٹی کی تمام قیادت چارسدہ میں موجود رہی اور کارنر میٹنگز کے ساتھ ساتھ جلسے بھی منعقد کیے گئے، ایمل ولی کے لیے پی ڈی ایم نے بھی جلسہ کیا، تاہم انتخاب کے روز جمعیت اور قومی وطن پارٹی سمیت پیپلز پارٹی متحرک نظر نہ آئیں۔ مبصرین کے مطابق چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کو اپنا انتخاب خود لڑنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح مردان میں جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار مولانا قاسم بھی صرف جمعیت کے ووٹ پر ہی تکیہ کیے ہوئے تھے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے انتہائی قلیل ووٹ ان کے حق میں آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم ایک دوسرے کے حق میں ووٹرز نکالنے میں ناکام رہی ہے۔
ووٹرز کی عدم دلچسپی اور کم ٹرن آئوٹ کے باعث سیاسی جماعتوں کی گاڑیاں پشاور کی سڑکوں پر خالی گشت کرتی رہیں، جبکہ چند گاڑیوں میں ہی ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن تک لایا گیا۔ بیشتر گاڑیاں الیکشن دفاتر اور پولنگ اسٹیشنوں کے باہر خالی ہی کھڑی رہیں۔ ووٹرز کو متاثر کرنے اور اپنے پولنگ ایجنٹس اور ورکرز کے لیے تیار کی جانے والی بریانی کی درجنوں دیگیں بھی کارکنان اور ووٹرز کی راہ تکتی رہ گئیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اورتحریک انصاف کی جانب سے ووٹرز کو گھروں سے نکالنے اور پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کے لیے ہائی ایس فلائنگ کوچ، کیری، سوزوکی اور چھوٹی گاڑیوں کا بندوبست کیا گیا تھا، تاہم اتوار کے روز ووٹرز کی انتہائی کم تعداد نے تمام تیاریوں پر پانی پھیر دیا۔
ضمنی انتخابات میں عوام نے گالم گلوچ اور الزامات کی سیاست مسترد کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ پشاور، مردان اور چارسدہ میں پہلی مرتبہ انتہائی کم ٹرن آئوٹ دیکھا گیا، جس کی بنیادی وجہ تمام امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم میں منشور اور پروگرام کے بجائے صرف مخالفین پر الزامات اور گالم گلوچ پر ووٹ مانگنا قرار دیا جارہا ہے۔ مبصرین کے مطابق پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی مہم مخالفین پر الزامات اور گالم گلوچ پر چلائی گئی، دونوں جماعتوں کے امیدواروں نے عوام کو جیت کی صورت میں اپنا لائحہ عمل اور ترقیاتی پلان نہیں دیا جس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد نے
انتخابی مہم کا حصہ بننا پسند نہیں کیا۔ مبصرین کے مطابق ضمنی انتخابات میں بڑی تعداد میں صرف اُن جماعتوں کے ووٹرز نے ہی ووٹ ڈالا ہے جن کے امیدواران کھڑے تھے، باقی جماعتوں نے دلچسپی کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جس کی توقع کی جارہی تھی، جبکہ پی ٹی آئی کا ایک بڑا حصہ اس وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں آیا کیونکہ انہیں بھی انتخابات میں اپنے امیدوار کی جیت کی صورت میں یقین تھا کہ وہ اسمبلی میں نہیں جائے گا لہٰذا اس سے بہتر ہے کہ ووٹ ہی نہ ڈالاجائے، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کا ووٹر بھی منظر سے غائب رہا، جبکہ پی ڈی ایم کی حمایت میں تمام جماعتیں ایک ساتھ نظر نہیں آئیں اور معاملہ صرف اور صرف امیدوار کی پارٹی تک ہی محدود رکھا گیا۔
واضح رہے کہ الیکشن کے روز پشاور میں تمام بازار کھلے رہے، جبکہ اتوار کے روز شہری ووٹ ڈالنے کے بجائے بازاروں میں خریداری کرتے نظر آئے۔ تمام بازار آباد، جبکہ پولنگ اسٹیشن ویران رہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اتوار کے روز ضمنی انتخابات کرانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ شہریوں کو حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے، تاہم ضمنی انتخابات کے روز چھٹی ہونے کے باوجود پشاور کے شہری ووٹ ڈالنے کے بجائے بازاروں میں خریداری کرتے رہے۔ پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ ایجنٹ اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان انتظار کرتے رہے جس کی وجہ سے پولنگ اسٹیشن سنسان رہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ضمنی انتخابات میں مضبوط پوزیشن نے حکومتی اتحاد کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ ضمنی انتخابات میں مستحکم پوزیشن کے ساتھ عمران خان حقیقی آزادی مارچ کی کال جلد دے سکتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان حقیقی آزادی مارچ سے قبل ضمنی انتخابات میں اپنی اور پارٹی پوزیشن کا جائزہ لینا چاہتے تھے، ضمنی انتخابات میں ایک بار پھر عمران خان کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اس مقبولیت کو بنیاد بناتے ہوئے لانگ مارچ کی کال دے سکتی ہے، اور اس حوالے سے کپتان نے اہم مشاورت بھی شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان 30اکتوبر سے پہلے پہلے لانگ مارچ کی کال دے سکتے ہیں اور لانگ مارچ کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختون خوا پر سب سے زیادہ انحصار کیا جائے گا۔ لانگ مارچ کے لیے ٹاسک تمام تنظیموں کے حوالے کردیا گیا ہے اور جلد ہی اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق لانگ مارچ کے اسلام آباد میں داخلے کے حوالے سے اب تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے، تاہم یہ ضمنی انتخابات اور ان کے پی ٹی آئی کے حق میں آنے کے بعد عمران خان کے پاس پی ڈی ایم حکومت کے خلاف صف بندی کااخلاقی جواز بھی ہاتھ آگیا ہے، لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال کب دیتے ہیں اور اس ضمن میں اس مارچ کو کامیاب بنانے کے لیے وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔