دنیا میں انسانوں کی آمدورفت ایک معمول کا عمل ہے، اور گزشتہ چند برسوں سے کورونا، ڈینگی و دیگر امراض کی وجہ سے دنیا سے کوچ کرجانے والوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ سیلابی صورتِ حال اور بحری، برّی و فضائی حادثات کی کثرت بھی رفتگان ِ عالم کی زیادتی کا ایک سبب ہے۔ اب تو اس ہنگامہ خیز اور غیر پُرسکون زندگی میں لوگ اموات کی خبروںکے اس قدر عادی ہوچکے ہیںکہ ایسے واقعات کا کوئی اثرہی نہیں لیتے، اور جلد ہی ایسے واقعات و حادثات نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان رفتگاں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے خلوص، اپنائیت، جذبۂ خیر خواہی و بے غرضی اور اسی قسم کے دیگر محاسن کی وجہ سے ان کے جانے کے بعد عمر بھر لوگ انہیں فراموش نہیں کرپاتے، بلکہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ان کی یادوں کے چراغ مدھم ہونے کے بجائے روشن سے روشن تر ہوتے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مخلص بزرگ ملک نواز احمد اعوان مرحوم تھے جنہوں نے مختصر علالت کے بعد مورخہ 31 اگست 2022ء کو لاہور میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اپنے ان گنت احباب، تلامذہ اور اہلِ تعلق کے دلوں میں خلوص، محبت، بے غرضی اور جذبۂ خیر خواہی پر مشتمل یادوں کے چراغ روشن کرگئے۔ ان کے جانے کے بعد سے یہ شعر حافظے کی لوح پر بار بار نمودار ہورہا ہے جونہ صرف راقم الحروف بلکہ ان کے دیگر اہل ِ تعلق کے حسبِ حال ہے :
لازم نہیں حیات میں احباب کا ہجوم ہو پیکرِ خلوص تو کافی ہے ایک شخص
ان سطور کے عاجز راقم کا ملک نواز احمد اعوان مرحوم (جنھیں ہم ہمیشہ نواز صاحب کہتے تھے) سے تعلقات کا آغاز 1986ء کی ابتدا میں ہوا جو مسلسل ان کی وفات تک جاری رہا۔ ایّامِ رفتہ کے ان 36 برسوں کے تعلقات کی یادیں اتنی زیادہ ہیں کہ اگران تمام کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔ یہ مختصر مضمون ان تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا، لیکن ہم کوشش کریں گے کہ نواز صاحب کی حیات اور شخصی محاسن پر کچھ روشنی ڈالیں۔ کاش کسی علمی و ادبی رسالے کا ان پر خاص نمبر شائع ہو، اپنی طویل علمی و دینی خدمات کی بنا پر جس کے وہ بجاطور پر مستحق ہیں۔
عموماً لوگ بوقتِ پیدائش خوشیاں مناتے اور بوقت ِوفات غم و اندوہ کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن خود نواز صاحب کی نظر میں دنیا سے کوچ کرجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی بلکہ اسے وہ بہت کم اہمیت دیتے تھے۔ ان کی نظر میں اصل اہمیت اس بات کی تھی کہ حیاتِ دنیوی میں انسان کس طرح زندگی گزارتا ہے؟ یعنی اس کی زندگی کسی بلند مقصد یا نصب العین کے حصول کی خاطر بسر ہوتی ہے یا جانوروں کی طرح محض کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کی خاطر۔ وہ اکثر نصیحتاً فرماتے تھے کہ جب انسان آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو زمین کی تمام چیزیں غائب ہوجاتی ہیں، اسی طرح جب انسان کا اللہ سے تعلق مضبوط ہوجائے تو دنیاوی چیزوں کی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔ نواز صاحب کی زندگی میں بار بار یہ دیکھا کہ جب کسی کی وفات کی اطلاع ملتی اور اس اطلاع کی تصدیق اور وجہِ وفات دریافت کی جاتی تو عموماً ان کا یہی جواب ہوتا: ’’ہونا کیا تھا، آئی اور چلے گئے‘‘۔ اسی طرح خود اپنی وفات کے بارے میں وہ کچھ عرصے سے نہایت غیر معمولی انداز سے ذکر کرتے اور یہی کہتے تھے ’’شاید لڑھکنے کا وقت ابھی نہیں آیا‘‘ یا ’’گزشتہ دنوں بخار ہوا اور میں سمجھا کہ لڑھکنے کا وقت آگیا۔‘‘ بالفاظِ دیگر ان کے نزدیک موت کوئی باعثِ دہشت چیز نہیں تھی۔ ان کا عمل اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر کے مطابق تھا:
موت سے وحشت بشر کا اِک خیالِ خام ہے اصل فطرت میں فقط آرام ہی آرام ہے
ملک نواز احمد اعوان مرحوم کا بچپن اور عمر کا آخری دور لاہور میں گزرا، لیکن زندگی کے اہم ترین پچاس برس انہوں نے کراچی کے مرکزی تجارتی علاقے طارق روڈ میں گزارے۔ یہیں ان کی دکان تھی اور بالکل نزدیک رہائش گاہ۔ ان پچاس برسوں کے دوران ان کی دکان (یونائیٹڈ ریفریجریشن سروسز) ایک علمی مرکز کی حیثیت اختیار کرچکی تھی جہاں نہ صرف کراچی بلکہ بیرونِ کراچی کے حضرات کی مسلسل آمد رہتی اور نواز صاحب کی محبت، شفقت، مہمان نوازی اور جذبۂ خیر خواہی کے نتیجے میں وہ اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ نواز صاحب صبح سے شام تک نہ صرف ائرکنڈیشنر، فریج، ڈیپ فریزر کی درستی (Repairing)کا کام کرتے، اس کام میں مشغول اپنے شاگردوں کی مسلسل رہنمائی کرتے بلکہ مہمانوں سے علمی، ادبی اورفنِ خطاطی سے متعلق گفتگو اور ان کی خاطر تواضع بھی کرتے۔ ان کے خلوص، بے غرضی، بے تکلفی اور جذبۂ خیر خواہی کی وجہ سے ان کی شخصیت میں وہ کشش پیدا ہوگئی تھی کہ جو شخص ایک مرتبہ ان سے ملنے آتا وہ مسلسل رابطے میں رہتا۔ وہ علمی و دینی کتب و جرائد کے دس دس بیس بیس نسخے خرید کر احباب میں تحفتہً تقسیم کرتے۔ اسی طرح ان کی عادت تھی کہ طارق روڈ کے ایک مخصوص مقام پر روزانہ دوپہر کو ردی پیپر والوں کے ٹھیلے اچھی طرح دیکھتے اور اگر کوئی دینی و علمی کتاب نظر آتی تو فوراً خرید لیتے۔ انہیں علم ہوتا کہ احباب میں کون شخص کس موضوع سے دلچسپی رکھتا ہے، یا کس موضوع پر تحقیقی کام کررہا ہے، وہ ایسے احباب میں ان کے موضوعات سے متعلق نادر و نایاب کتب فراہم کرکے خوشی محسوس کرتے۔ اگر وہ شخص کراچی سے باہر ہوتا تو اپنی جانب سے بذریعہ ڈاک متعلقہ اشیاء فراہم کرتے۔ اسی طرح دورانِ مطالعہ اگر کوئی اہم مضمون پڑھتے تو اپنی جیب سے فوٹو اسٹیٹ کراکے متعلقہ شخص تک پہنچاتے۔ ان کی یہ علمی فیض رسانی صرف کراچی تک محدود نہیں تھی بلکہ پورے پاکستان بلکہ بیرونی ممالک تک پھیل چکی تھی۔ ان کی یہ فیض رسانی زندگی کے ہر دور میں جاری رہی خواہ وہ آسودگی و مالی فراغت کا زمانہ تھا یا اس کے برعکس۔ لطف یہ کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود وہ کسی بدلے یا جذبۂ تشکر کے قائل نہیں تھے، بلکہ اسے ایک فریضے کے طور پر ادا کرکے خوشی محسوس کرتے۔ راقم نے گزشتہ 36 برسوں کے دوران ان سے زیادہ علمی لحاظ سے فیض رساں شخص کوئی اور نہیں دیکھا۔ ان کی دکان پر آنے والے ہر شخص کی تواضع چائے سے کی جاتی، اور اگر دکان پر چائے منگوانا ممکن نہ ہوتا تو نواز صاحب متعلقہ شخص کو اپنے ہمراہ ہوٹل لے جاتے جہاں چائے پلاتے اور علمی گفتگو بھی کرتے۔ اگر کوئی شخص چائے پینے کا قائل نہیں ہوتا (مثلاً احمد مدنی الخطاط) تو اس کی خاطر تواضع لسّی یا دودھ کا گلاس منگا کر کرتے۔
نواز صاحب کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف بے تکلفی، بذلہ سنجی اور لطفِ مجلس بھی تھا۔ان کی مجلس میں محض خشک علمی موضوعات پرہی گفتگو نہیں ہوتی تھی، بلکہ اپنے مزاج کے مطابق وقتاً فوقتاً وہ ایسے جملے، لطائف و ظرائف اور واقعات بیان کرتے جن سے محفل زعفرانِ زار ہوجاتی۔ اس موقع پر وہ خود بھی لطف محسوس کرتے اور حاضرین کو بھی خوش کرتے۔1986ء سے2017ء تک راقم کی اُن سے تقریباً ہر ہفتے اُن کی دکان پرملاقات، اور اس کے بعد لاہور منتقلی سے وفات تک فون پر گفتگو ہوتی۔ خیر و عافیت کے بعد وہ تازہ ترین مطالعہ کردہ کتب و مضامین کا ذکر کرتے، ساتھ ہی ازراہ تفنن یہ فرماتے کہ طویل عرصہ کراچی میں قیام کے بعد لاہور آکر میں ’مہاجر‘ بن گیا ہوں، اب لاہور اتنا بدل گیا ہے کہ راستوں کا علم ہی نہیں ہوتا کہ کون سا راستہ کہاں جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی فرماتے کہ ان کے ملنے والے تقریباً سب ہی راہیِ ملکِ عدم ہوچکے ہیں اور نئی نسل میں وہ اخلاقی خوبیاں نظر نہیں آتیں جو ان کے بزرگوں میں تھیں۔ اسی سبب وہ وہاں اپنے آپ کو کسی حد تک اجنبی محسوس کرتے تھے اور کراچی اور کراچی کے احباب کو بہت یاد کرتے تھے۔
نواز صاحب کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف فنِ خطاطی سے تعلق اور خطاطی کی کتب و نوادر کا حصول اور ان کی تقسیم بھی تھا۔ خطاطی سے ان کے تعلق کا آغاز ابتدائی قیام ِ لاہور کے دوران ہوا تھا۔ اس حوالے سے انھوں نے راقم سے فرمایا تھا کہ مسلم مسجد لوہاری دروازہ کے نیچے مولوی شمس الدین تاجر کتب نادرہ (وفات:11جنوری1968ء بمقام لاہور)کی دکان تھی۔ مولوی صاحب کی یہ سادہ سی دکان اُس دور کے تمام اہلِ علم کا مرجع تھی کیونکہ مولوی صاحب کے اخلاق، علمی فیض رسانی اور تعاون کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک کے اہلِ علم لاہور میںان کی دکان پر ضرور آتے تھے (ان کے مفصل حالات اور خدمات پر کتاب بہ عنوان ’نذرِ شمس‘ مرتبہ محمد عالم مختار حق 2008ء میں لاہور سے شائع ہوچکی ہے)۔ نواز صاحب بھی روزانہ اس دکان کے آگے سے گزرتے اور شوکیس میں رکھی کتاب ’تحفۂ خطاطین‘ کو غور سے دیکھتے۔ یہ کتاب میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی نے شائع کی تھی۔ ایک روز مولوی صاحب نے نواز صاحب کو کتاب دیکھتے ہوئے دیکھا تو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ کیا یہ کتاب تمھیں پسند ہے؟ نواز صاحب نے کہا کہ مجھے یہ کتاب بہت اچھی لگتی ہے لیکن میرے پاس اتنی رقم نہیں کہ اسے خرید سکوں۔ مولوی صاحب نے اسی وقت کتاب شوکیس سے نکال کر انھیں دے دی اور کہا کہ جتنی رقم دے سکو دے دو، جب رقم کا انتظام ہوجائے تو دے دینا۔کتاب کی قیمت کے حوالے سے مولوی صاحب کا یہ رویہ تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا جس کی تفصیلات ’نذرِ شمس‘ میں مذکور ہیں۔ بہرحال نواز صاحب اس کتاب میں مطبوعہ نوادرِ خطاطی کو بار بار دیکھتے اور یوں ان کے خطاطی سے تعلق کا آغاز ہوا، اور پھر بیرونِ پاکستان کی بھی خطاطی کی بہت سی معیاری کتب انھوں نے حاصل کیں جنھیں وہ اکثر بغور دیکھتے اور نوادر خطاطی کے فنی محاسن ملنے والوں سے بیان بھی کرتے۔ پورے پاکستان کے خطاط ان کا ماہر فن کی حیثیت سے احترام کرتے تھے بلکہ نوادر ِخطاطی کی تخلیق کے دوران مشورے بھی کرتے۔ نواز صاحب بھی نہ صرف ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کرتے بلکہ انھیں خطاطی پر مشتمل کتب، رسائل اور خطاطی کے نوادر کی فوٹو کاپیاں فراہم کرتے۔ صرف یہی نہیں، کئی احباب کو انھوں نے خطاطی کے اصل نوادر بھی تحفتاً پیش کیے مثلاً معروف خطاط خالد جاوید یوسفی صاحب کو انھوں نے عبدالمجید پرویں رقم کی لکھی اصل رباعی(جو راقم کی تالیف ’تذکرۂ خطاطین ‘ میں شائع ہوچکی ہے) اور سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب کے خط میں ’خدایا زعشقِ محمد نواز‘ کی اصل پیش کی تھی۔ راقم کے کتب خانے میں خطاطی کی متعدد کتب و نوادر نواز صاحب ہی کے فراہم کردہ ہیں جن میں سلطان محمد فاتح کے عہد کے خطاطوں کے حالات و نوادر پر مشتمل ترکی کتاب Fatih Devri Hattatlari، احوال و آثارِ خوشنویساں(2جلدیں)از مہدی بیانی، معروف ترک خطاط شیخ عبدالعزیز الرفاعی کا کرّاسہ (احسن النّماذج) کے علاوہ پنّا لال کی خطاطی کا اصل نمونہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ ضیاء الدین احمد برنی کی معروف کتاب ’عظمتِ رفتہ‘ بھی سب سے پہلے نواز صاحب سے حاصل کرکے راقم نے پڑھی تھی جس کا نسخہ انھیں ردی فروش سے ملا تھا۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ملک نواز احمد اعوان صاحب کے شخصی محاسن اتنے زیادہ ہیں کہ یہ مختصر مضمون ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہاں ہم ان کے چند واقعات کا ذکر کریں گے جن سے قارئین کسی حد تک ان کے محاسن کا اندازہ کرسکیں گے:
٭نواز صاحب کی عادت تھی کہ اگر کوئی شخص ان سے امداد کا طلب گار ہوتا تو اس کی ہرممکن مدد کرتے۔ طارق روڈ پر پیروں سے معذور گداگر بھیک مانگ کر گزارا کرتا تھا۔ ایک روز وہ نواز صاحب کے پاس آیا اور گزارش کی کہ اس کی حقیقی بہن کی شادی قریب ہے لیکن اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں۔ نواز صاحب نے اس سے کہا کہ اب تم میرے پاس آہی گئے ہو تو میرا فرض ہے کہ تمھاری ہر ممکن مدد کروں۔ اس کے بعد اس گداگر کی بہن کی شادی کے تمام اخراجات کا انتظام کیا اور احباب کو بھی اس کار ِنیک میں شریک کیا۔
٭ایک مرتبہ نواز صاحب کے ایک دوست ایک افریقی ملک گئے، جب انہیں علم ہوا کہ قیام گاہ سے 70 میل کے فاصلے پر ایک دینی مدرسہ ہے، وہ مدرسہ دیکھنے پہنچ گئے۔ مہتمم مدرسہ نے انہیں پورا مدرسہ دکھایا اور کتب خانہ بھی۔ دوران ِگفتگو مہتمم صاحب نے مطلع کیا کہ انہیں پاکستان کے مطبوعہ قرآن مجید کے نسخوںکی ضرورت ہے کیونکہ ان نسخوں کی کتابت خطِ نسخ کی جس طرز (نسخِ ہندی) میں ہوتی ہے اس سے قرأت میں سہولت ہوتی ہے بہ نسبت عرب ممالک کے مطبوعہ مصاحف کے، جن کی کتابت نسخ ِعثمانی میں ہوتی ہے (نسخِ ہندی قدرے جلی اور روشن جبکہ نسخِ عثمانی خفی ہوتا ہے)۔ ان صاحب نے کراچی واپسی پر نواز صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ اس کے بعد سے نواز صاحب نے نہ صرف خود رقم فراہم کی بلکہ احباب سے بھی گزارش کرکے پاکستانی مطبوعہ قرآن پاک کے نسخے بڑی تعداد میں حاصل کیے، انھیں ڈبوں میں پیک کرایا اور بذریعہ پی آئی اے اس مدرسے تک پہنچائے۔
٭پاکستان کے نامور خطاط حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم جب بھی کراچی آتے سارا دن نواز صاحب کی دکان پر بیٹھتے۔ یہاں نہ صرف خطاطی کے نوادرخطاطی تخلیق کرتے بلکہ نواز صاحب کسی نہ کسی نوجوان کو حافظ صاحب کا شاگرد بھی بناتے۔ ایک روز نواز صاحب نے دیکھا کہ حافظ صاحب نے جوتے بہت پرانے پہنے ہوئے تھے۔ نواز صاحب فوراً اٹھے اور کہا: حافظ صاحب چلیں ذرا سیر کر آئیں۔ اسی بہانے نواز صاحب حافظ صاحب کو باٹا کی دکان لے گئے اور حافظ صاحب کے انکار کے باوجود انہیں نئے جوتے اپنی جانب سے دلائے۔ نواز صاحب کی محبت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ اگر کسی شخص کو وہ کوئی تحفہ دیتے اور متعلقہ شخص انکار کرتا تو ان کا اصرار بہت بڑھ جاتا اور اسے تحفہ دے کر ہی دم لیتے۔
٭نواز صاحب مرحوم کی دکان پر بہت سے اہلِ علم اور طالب علم آتے تھے۔ انھی میں معروف استاد اورتعلیمی امور پر متعددکتب کے مصنف پروفیسر سیّد محمد سلیم مرحوم بھی تھے۔ نواز صاحب نے نہ صرف ان سے حبیب اللہ فضائلی کی کتاب ’’اطلسِ خط‘‘ کا فارسی سے اردو ترجمہ کرایا بلکہ اس میں اضافات کے بعد ’’تاریخِ خط و خطاطین‘‘ کے عنوان سے شائع بھی کرایا۔ اس کے علاوہ ان کے انتقال کے بعد رسالہ ’تعمیر افکار‘ کراچی کا پروفیسر سیّد محمد سلیم نمبر بھی شائع کرایا اور اس نمبر کی خاطر نہ صرف غیر مطبوعہ مواد حاصل کیا بلکہ اہلِ تعلق سے مضامین بھی لکھوائے۔ بعد ازاں کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں اور جب نمبر کی اشاعت کا مرحلہ آیا تو اخراجات کی ادائی کے لیے اشتہارات بھی حاصل کیے۔ یہ نمبر پروفیسر سلیم مرحوم پر سب سے اہم ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نمبر کی تیاری کی خاطر نواز صاحب نے فیصلہ کیا کہ ٹائٹل کی خاطرکسی اہم قرآنی آیت کی خطاطی کرائیں گے چنانچہ المعجم المفھرس لالفاظ القرآن الکریم کو بغور دیکھ کر انھوں نے قرآنی آیت :اِذ جَائَ رَبّہُ بِقَلب سَلیم (الصافا ت۔آیت نمبر84)کی خطاطی لاہور جاکر معروف خطاط محمد علی زاہد سے خط ِ ثلث جلی میں کرائی اور اسے ٹائٹل پر استعمال کیا۔ نواز صاحب فرماتے تھے کہ پروفیسر سلیم مرحوم نے جس طرح ایمان داری سے اور پاکیزہ زندگی گزاری اور جس طرح وہ قلبِ سلیم لے کر اپنے رَبّ کے پاس گئے، مذکورہ بالا آیت اس لحاظ سے یہاں بہت مناسب ہے۔
٭جیسا کہ ذکر ہوا،نواز صاحب کی عادت تھی کہ ملنے والوں میں جس شخص کو جس موضوع سے دلچسپی ہوتی اس سے متعلق کتب، رسائل و مضامین فراہم کرتے۔ ایک مرتبہ انھیں کسی ذریعے سے علم ہوا کہ فارسی زبان کے استاد پروفیسر عبدالرشید فاضل صاحب کو فارسی کی ایک نادر کتاب کی عرصے سے تلاش ہے، نواز صاحب کو جب یہ کتاب ردی پیپر والے سے ملی تو فوراً وہ پروفیسر صاحب کے گھر واقع پی آئی بی کالونی پہنچے۔ علیک سلیک کے بعد نواز صاحب نے جب پروفیسر صاحب کو کتاب پیش کی تو وہ یہ کتاب دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور نواز صاحب سے کہا کہ آپ تشریف رکھیں، چائے پی کر جائیں۔ نواز صاحب بیٹھ گئے اور پروفیسر صاحب کتاب کھول کر مطالعہ میں اس قدر غرق ہوگئے کہ چائے کا خیال ہی نہ رہا اور مسلسل کتاب کا مطالعہ کرتے رہے۔ نواز صاحب کو اندازہ تھا کہ جب کوئی درکار کتاب طویل انتظار کے بعد کسی اہلِ علم کو ملتی ہے تو اسے پا کر کس قدر خوشی ہوتی ہے اور کیا کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر نواز صاحب بڑی خاموشی سے گھر سے باہر نکلے اور اپنی دکان پر پہنچ گئے۔ خاصی دیر بعد پروفیسر صاحب کا فون آیا اور انھوں نے بڑی معذرت کی اور نواز صاحب کو دوبارہ بلایا۔ نواز صاحب کے فیض یافتگان میں محمد ظہیر الدین بھٹی صاحب بھی شامل ہیں جن کا عربی زبان سے شغف دیکھ کر عربی کی بہت سی قیمتی لغات و کتب فراہم کیں اور عربی سے اردو تراجم کرائے۔ اس کے علاوہ بھٹی صاحب کے صاحب زادے کی دلچسپی دیکھتے ہوتے فرنچ زبان کی متعدد کتب اسے فراہم کیں۔ ان کے دوسرے صاحب زادے کی جرمن زبان سے دلچسپی کی وجہ سے جرمن کتب فراہم کیں۔ نواز صاحب نے جن جن اداروں کو کتب و رسائل کثیر تعداد میں فراہم کیے ان میں مہران اکیڈمی شکارپور کے علاوہ بیدل لائبریری کراچی شامل ہیں۔کچھ عرصہ قبل انھوں نے جمع شدہ تمام کتب ادارۂ معارف ِ اسلامی لاہور کے کتب خانے کو ہدیہ کردی تھیں۔
٭ نواز صاحب کے کراچی میں ملنے والوں میں ایک بزرگ مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری بھی تھے۔ ایک مرتبہ نواز صاحب کو ان سے ایک کتاب کی ضرورت ہوئی جوکسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب دینے سے کترانے لگے۔ انھی دنوں ڈاکٹر صاحب علی گڑھ کالونی سے ناگن چورنگی کے نزدیک اپنے نئے مکان میں منتقل ہوئے تھے۔ نواز صاحب کو جب یہ اطلاع ملی تو ازراہ مذاق کہا: ’’ناگ ناگن چورنگی پہنچ گیا۔‘‘ نامور محقق مشفق خواجہ ایک زمانے میں روزنامہ جسارت میں کالم لکھتے تھے، ان کے کالم کا عنوان ’خامہ بگوش ‘ تھا۔ نواز صاحب کے ان سے قریبی تعلقات تھے اور تعلقات کا آغاز ایک دلچسپ واقعے سے ہوا اور وہ یہ کہ ایک روز نواز صاحب نے کالم پڑھ کر خواجہ صاحب کو خط لکھا اور اس میں یہ جملہ بھی لکھا کہ ’’آپ کا کالم پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کے کالم کا عنوان ’خامہ بگوش ‘ کے بجائے ’پجاما بردوش‘ ہونا چاہیے۔‘‘ خواجہ صاحب نے اس جملے سے بہت لطف لیا اور یوں تعلقات کا آغاز ہوا۔ فرائیڈے اسپیشل کے مدیر یحییٰ بن زکریا صدیقی صاحب بھی نواز صاحب کے پرانے ملنے والوں میں ہیں۔ ایک روز راقم سے نواز صاحب نے ذکر کیا کہ انھوں نے یحییٰ صاحب سے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ موضوعات پر مطالعہ کریں اوراس مقصد کی خاطر یہ قرآنی آیت پڑھی : یا یحییٰ خُذ الکتاب بقوّۃ (مریم۔آیت نمبر12)۔ نواز صاحب اپنے مزاج کی بے تکلفی کی وجہ سے دورانِ گفتگو ایسے جملے بھی ادا کرتے جن کا لطف دورانِ مجلس لیا جا سکتا تھا لیکن جنھیں لکھنا ممکن نہیں۔
جیسا کہ ذکر ہوا، ان سطور کے عاجز راقم کا نواز صاحب سے اولین تعارف 1986ء میں ہوا، یہ وہ وقت تھا جب رسالہ ’آئین‘ لاہور کے لیے نہ صرف مضامین فراہم کرتے بلکہ ہرماہ خطاطی کے خوبصورت نمونے پر مشتمل ٹائٹل بھی تیار کرکے لاہور بھیجتے۔ ایسا ہی ایک خوبصورت ٹائٹل دیکھ کر راقم ان کی دکان تک پہنچا تھا۔ راقم کی فن خطاطی سے دلچسپی دیکھ کر انہوں نے بھرپور حوصلہ افزائی کی اور اس موضوع پر کتب و مضامین ہمیشہ فراہم کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ان کی مجالس میں نہ صرف معروف خطاطوں کے بارے میں معلومات افزا گفتگو سنی بلکہ نوادرِ خطاطی کے محاسن پر بھی۔ انھی ابتدائی ملاقاتوں میں انھوں نے خطاطی کے لیے مستعمل قلم بنانے کا طریقہ سکھایا اور خود قلم بناکر دکھایا، اور یہ بھی فرمایا کہ حافظ یوسف سدیدی مرحوم اس طرح قلم بناتے تھے۔اُس وقت راقم کے علم میں یہ بات آئی کہ خطاطی کے قلم بنانے کے لیے مخصوص ’ریتی کے چاقو‘ پنجاب کے معروف شہر قصور میں بنتے ہیں جنھیں تمام خطاط قلم بنانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔
نواز صاحب کے قیام کراچی کے دوران تقریباً ہر ہفتے ان سے ملاقات ہوتی اور یہ ملاقاتیں بعض اوقات گھنٹوں جاری رہتیں۔ وہ نہ صرف راقم کی علمی و تحقیقی کتب کو قدر کی نظر سے دیکھتے بلکہ ان موضوعات سے متعلق مضامین بھی فراہم کرتے۔ راقم کی تالیفات کا ذکر نہ صرف راقم کے آگے بلکہ دیگر احباب کے آگے بھی بلند الفاظ میں کرتے اور اکبر الٰہ آبادی کا یہ مصرع بعد ادنیٰ تصرف دہراتے: ’’ہماری باتیں ہی باتیں ہیں راشد کام کرتا تھا‘‘۔ نواز صاحب کی ہی مجلس میں راقم نے سب سے پہلے علامہ عبدالعزیز میمن، مولانا محمد ناظم ندوی اور پروفیسر حسن عسکری کا ذکر سنا تھا۔ اس کے علاوہ راقم نے اب تک تقریباً 35 رفتگان کے بارے میں جو تاثراتی مضامین لکھے ہیں، ان میں سے زیادہ تر نواز صاحب ہی کے اصرار اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں لکھے گئے۔ ہر مضمون کی اشاعت کے بعد نہ صرف حوصلہ افزا کلمات ادا کرتے بلکہ یہ بھی فرماتے کہ ان مضامین کو مجموعے کی شکل میں شائع کیا جائے۔ لاہور منتقلی کے بعد بھی راقم کا ان سے بذریعہ فون برابر رابطہ رہتا اور تقریباً ہر ہفتے گفتگو ہوتی۔ آخری گفتگو انتقال سے محض چند روز قبل ہوئی جس میں انہوں نے نودریافت خطوط مولانا مسعود عالم ندوی اور ’مجموعۂ خطوط مسعود عالم ندوی‘ پر مفصل گفتگو کی تھی۔ دل میں بڑی خواہش تھی کہ اب لاہور جانا ہوا تو نواز صاحب سے ضرور ملاقات کروں گا اور بہت سے موضوعات پر گفتگو اور ان کی رہنمائی حاصل کروں گا، لیکن قضا و قدر کے فیصلے ہماری خواہشات کے پابند نہیں،31اگست کو ان کے انتقال کی اطلاع ملی اور دیگر خواہشات کی طرح یہ خواہش بھی دل ہی میں ر ہ گئی۔
تقریباً بیس برس سے نواز صاحب ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں کتابوں پر تبصرے لکھ رہے تھے۔ اس حوالے سے وہ اکثر فرماتے تھے کہ وہ دانستہ تبصرہ ایسا لکھتے ہیں جس سے قارئین میں مطالعۂ کتب کا شوق پیدا ہو اور لوگ علمی و تحقیقی کتب کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں۔ اگر کتاب میں کوئی خامی نظر آتی تو وہ تبصرے کے آخر میں نرم انداز سے توجہ دلاتے لیکن صاحبِ کتاب کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے۔ وہ ان لوگوں کی طرح تبصرہ نہیں کرتے تھے جنھیں اگر کتاب میں کیڑے نظر نہ آئیں تو اپنی جانب سے کیڑے ڈال دیتے ہیں، بلکہ ان کا تبصرہ مثبت اور حوصلہ افزا ہوتا۔ انھیں اس بات کا بھی افسوس تھا کہ اب لوگ سنجیدہ موضوعات پر بہت کم مطالعہ کرتے ہیں اور معاشرے میں علمی و تحقیقی کتب کے مطالعے کا رجحان روز بروز کم ہوتا جارہا ہے۔
ملک نواز احمد اعوان صاحب مورخہ 10 فروری 1944ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں لاہور منتقل ہوئے اور 1962ء میں میٹرک، 1964ء میں ایف اے اور 1966ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا۔ 1967ء میں لندن سے بذریعہ خط کتابت ریفریجریشن و ائرکنڈیشنرکی مرمت کا کورس پاس کیا۔ 1968ء میں لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے جہاں سب سے پہلے علی آٹوز ڈینسوہال کراچی میں کام کیا۔ 1970ء میں یونائیٹڈ ریفریجریشن سروسز کے نام سے طارق روڈ کراچی میں کام شروع کیا اور1970 سے 2017 تک تقریباً 4500 نوجوانوں کویہ کام سکھایا۔ ان کے یہ شاگرد نہ صرف پاکستان بھر میں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً عرب ممالک میں کام کررہے ہیں۔ قیام کراچی کے ابتدائی ایام میں انھوں نے اس قدر محنت کی کہ صبح 6 بجے سے رات 12 بجے تک کام کرتے۔ نومبر 2017ء میںنواز صاحب بعض خانگی وجوہات کی بنا پرکراچی سے لاہور منتقل ہوگئے جہاں مختصر علالت کے بعد 31 اگست 2022ء کو وفات پائی۔ جب سے ان کا انتقال ہوا ہے کوئی دن نہیں گزرتا کہ ان کی شفقت، محبت، حوصلہ افزائی، خیرخواہی، بذلہ سنجی، لطائف و ظرائف اور زندہ دلی کے واقعات یاد نہ آتے ہوں۔ ساتھ ہی ناصر کاظمی کا یہ شعر بھی یاد آجاتا ہے :
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں
دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کے نیک نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،اس عارضی اورفانی دنیا میں تو ان کا ساتھ عطا کیا اب جنت الفردوس میں بھی ساتھ عطا فرمائے، آمین۔