قومی اسمبلی حلقہ این اے 24 چارسدہ 2 کاضمنی انتخاب

جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے امیدواران کے خلاف ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر میدان میں اتارا ہے

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24 چارسدہ 2کے پانچ لاکھ سے زائد ووٹر 16 اکتوبر کو ضمنی انتخاب میں ووٹ کے ذریعے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے نمائندے کا انتخاب کریں گے۔ پُرامن اور شفاف انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ متذکرہ حلقۂ نیابت میں مجموعی طور پر384 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں196مرد ووٹروں کے لیے،154خواتین ووٹروں کے لیے اور34 مشترکہ پولنگ اسٹیشن شامل ہیں۔ اس حلقے میں242 پولنگ اسٹیشنوں کو حساس ترین، جب کہ142کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر2708پریزائیڈنگ آفیسرز، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسرز اور پولنگ آفیسرز پر مشتمل انتخابی عملے کو یہاں ڈیوٹی پر مامور کیا گیا ہے۔ حلقہ این اے24 چارسدہ میں ووٹروں کی کل تعداد526862ہے جن میں 291016 مرد ووٹر اور 235846خواتین ووٹر ہیں۔

حلقہ این اے24چارسدہ نہ صرف صوبہ خیبر پختون خوا بلکہ پورے پاکستان میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ مختلف ادوار میں منعقد کروائے گئے انتخابات میں اس حلقے کا نمبر بدلتا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ سال2018ء سے قومی اسمبلی کا یہ حلقہ این اے24 چلاآرہا ہے، اس سے پہلے اسے این اے5کہا جاتا تھا۔ حلقہ این اے24کویہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے نامور سیاست دان خان عبدالولی خان مرحوم، بیگم نسیم ولی خان مرحومہ، مولانا حسن جان شہید، مولانا سید محمد گوہر شاہ، اسفندیار ولی خان، لالہ نثار محمد خان مرحوم اور فضل محمد خان مختلف انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے فضل محمد خان کے جماعتی پالیسی کے نتیجے میں اس نشست سے استعفے کی منظوری کے بعد 16اکتوبر کو یہاں پر ضمنی انتخاب منعقد ہورہا ہے۔اس ضمنی انتخاب میں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان، پی ٹی آئی کے مرکزی چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ اور مزدور کسان پارٹی کے سپرلے غورزنگ مدمقابل ہیں۔ تمام امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم زور ور سے جاری ہے۔

پی ڈی ایم کے امیدوار ایمل ولی کے لیے جے یو آئی، پی پی پی، قومی وطن پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے راہنمائوں اور کارکنوں کی جانب سے اپنی جماعتوں کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے انتخابی مہم جاری ہے۔

این اے 24 چارسدہ کی نشست دیگر نشستوں سے اس حوالے سے بھی منفرد اہمیت کی حامل ہے کہ اس پر اے این پی کے صوبائی صدر اور مستقبل میں اے این پی کے ممکنہ کرتا دھرتا اور باچا خان خاندان کی چوتھی نسل کے چشم و چراغ ایمل ولی خان کے سیاسی مستقبل کا دارومدار ہے، اس لیے اے این پی اس الیکشن کو خاص اہمیت دے رہی ہے۔ ایمل ولی چونکہ پہلی دفعہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور یہ ان کی آبائی نشست ہے اور انھیں مستقبل میں بھی اسی نشست پر قسمت آزمائی کرنی ہے، اس لیے اس نشست پر ان کی کامیابی کو پی ٹی آئی کے امیدوار کی نسبت زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس نشست پر ایک اور قابل ذکر امیدوار مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ ہیں جنہیں جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے امیدواران کے خلاف ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پر میدان میں اتارا ہے۔ مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ نہ صر ف ایک متحرک سیاسی ورکر ہیں بلکہ بطور ایک نوجوان وکیل بھی انہوں نے مختصر عرصے میں چارسدہ کی حد تک بہت نیک نامی کمائی ہے۔ وہ چارسدہ ڈسٹرکٹ بارکے جنرل سیکرٹری اور صدر کے علاوہ تحصیل چارسدہ کے منتخب نائب ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ چونکہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس وجہ سے بھی وہ مڈل کلاس اور غریب ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی بھرپور صلاحیت کے حامل ہیں۔ مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ کے بطور ایک متبادل امیدوار سامنے آنے کی ایک اور وجہ عام ووٹرز کا وفاق میں برسراقتدار پی ڈی ایم اور صوبے میں پچھلے دس سالوں سے برسراقتدار پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہونا ہے، جبکہ جماعت اسلامی نے حالیہ سیلاب اور اس سے قبل مختلف مواقع پر اہلِ چارسدہ اور دیگر علاقوں کی الخدمت فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے جو مثالی خدمت کی ہے اس کی وجہ سے بھی بعض لوگ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے امیدواران کے بجائے جماعت اسلامی کے امیدوار کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ لیکن تادم تحریر چونکہ جماعت اسلامی باوجود کوشش کے لوگوں کو بطور متبادل سیاسی قوت اپنا وجود تسلیم کرانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے اس لیے اس ضمنی انتخاب میں اس کے حوالے سے کچھ زیادہ امیدیں باندھنا ممکن نہیں ہوگا، البتہ اگر جماعت اسلامی کی مرکزی اور صوبائی قیادت نے اپنا موجودہ بیانیہ جاری رکھا اور اگلے ایک سال میں وہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو ایک متبادل سیاسی قوت کے طور پرمتعارف کرانے میں کامیاب ہوگئی تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں کم از کم صوبہ خیبر پختون خوا کی حد تک کوئی بڑا سرپرائز نہ دے سکے، البتہ اس ضمن میں حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج یقیناً اہمیت کے حامل ہوں گے۔