امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کا دورہ کیا۔ امریکی سفیر نے اپنے اس دورے کو نہایت محدود رکھا، اور اُن کی سرگرمیاں کچھ ملاقاتوں کے علاوہ آزادجموں و کشمیر یونیورسٹی تک ہی رہیں جہاں انہوں نے 8 اکتوبر2005ء کے زلزلے کے شہدا کی یادگار پر پھول چڑھائے، ایک ثقافتی تقریب میں شرکت کی اور صحافیوں کے ساتھ مختصر بات چیت کی۔ اس دورے کا مرکزی نکتہ آزاد کشمیر اور امریکی عوام کے درمیان تعلیمی میدان میں تعاون اور ثقافتی تعلقات کا فروغ تھا۔ سیاست بظاہر اس دورے کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی مگر امریکی سفیر نے وزیراعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کی آبائی رہائش گاہ بنگوئیں میں ان سے ملاقات کی اور ساتھ ہی باغ میں ایک تعلیمی پروجیکٹ کا دورہ بھی کیا۔ انہوں نے کوہالہ کے مقام پر اُس تاریخی گیسٹ ہائوس میں تھوڑے وقت کے لیے قیام بھی کیا جہاں سری نگر کے ایک سفر میں قائداعظم نے قیام کیا تھا۔
امریکہ میں مقیم آزادکشمیر کے سیاسی راہنما راجا مظفر نے ڈونلڈ بلوم کے دورئہ آزادکشمیر کو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں اہم قرار دیا، مگر انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ دورہ کس طرح مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اہم ہے، جبکہ امریکی سفیر نے کشمیر کے حوالے سے ایک لفظ بھی بظاہر نہیں بولا۔
آزادکشمیر میں یہ سفیر کی سطح کے کسی امریکی ڈپلومیٹ کی ایک طویل عرصے کے بعد آمد تھی۔ اس دورے کی جو رپورٹ امریکی سفارت خانے کے فیس بک پیج پر جاری کی گئی اس میں آزاد جموں و کشمیر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اور ایک بار نہیں کئی بار آزاد جموں و کشمیر کے الفاظ کا استعمال ہوا۔ عمومی طور پر غیر ملکی سفارت کار آزاد کشمیر کے لیے ”پاکستان کے زیرانتظام کشمیر“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ مسٹر ڈونلڈ بلوم نے ایک مقام پر آزادکشمیر کو پاکستان کا صوبہ بھی کہا۔ یہ ساری باتیں کسی حد تک قابلِ توجہ ہیں، اور ان کی طرف سے آزاد جموں وکشمیر کی اصطلاح اور صوبے کی بات دونوں بہت سے حلقوں میں ایک نئی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ کچھ ہی عرصہ قبل چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اُس وقت آزاد جموں و کشمیر کے لیے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی اصطلاح استعمال کی تھی جب ان سے بھارت کی طرف سے اگلے برس G20ملکوں کے سربراہی اجلاس کے سری نگر میں انعقاد کے اعلان سے متعلق سوال پوچھا گیا تھا۔ چینی دفترخارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا تھا کہ ایسے میں چین کے لیے جی 20 ملکوں کے اجلاس کے کشمیر میں انعقاد پر کیوں اعتراض ہے جبکہ خود چین اس متنازع علاقے میں سی پیک جیسی بڑی سرگرمی کررہا ہے؟ جس کے جواب میں ترجمان نے کہا تھا کہ چین کشمیر کو حل طلب مسئلہ سمجھتا ہے اور چینی کمپنیاں ’’پاکستانی مقبوضہ کشمیر‘‘ میں مقامی انتظامیہ کی مدد کررہی ہیں، اس سے چین کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا۔ چینی دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے ’’پاکستانی مقبوضہ کشمیر“ کی اصطلاح کو خطے کے اس دیرینہ تنازعے میں چین کا نیوٹرل ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ ایسے میں ایک طویل مدت کے بعد امریکی سفارت کاروں کو محدود ہی سہی مگر نقل و حرکت کی آزادی میسر آگئی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات سکڑنے کا عمل جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے خاتمے کے بعد شروع ہوا تھا اور اس میں سلالہ سرحدی چوکی پر حملے کے بعد تیزی آگئی تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کے طول و عرض سے امریکی این جی اوز، کنٹریکٹرز اور سفارت کاروں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کیا تھا کیونکہ اُس وقت سیکورٹی اداروں کی رائے تھی کہ امریکہ کی پاکستان میں اس کھلے انداز سے موجودگی نہ صرف سیکورٹی مسائل پیدا کرسکتی ہے بلکہ یہ ٹی ٹی پی جیسے گروپوں کو پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے جواز فراہم کرسکتی ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے پاکستانی سفارت کاروں پر، اور پاکستان نے امریکی سفارت کاروں پر پابندیاں لگانا شروع کی تھیں۔ اسلام آباد سے باہر جانا ان سفارت کاروں کے لیے کارِ دارد تھا۔
اب اسلام آباد اور راولپنڈی کا موسم بدل گیا ہے اور امریکہ اور پاکستان میں تعلقات کے نئے عہد وپیماں ہورہے ہیں، ایسے میں امریکی سفارت کاروں کو ملک کے مختلف حصوں میں جانے کی آزادی حاصل ہورہی ہے۔ ان کا دورئہ مظفر آباد اسی بدلی ہوئی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ امریکہ نے یوکرین کے معاملے میں بھارت کا نیوٹرل رہنا پسند نہ کیا ہو، اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہو کہ جو بھارت یوکرین میں اس کے کام نہ آیا وہ تائیوان میں اس کا کیا ساتھ دے گا؟ اگر امریکہ میں یہ احساس پیدا ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر داخلِ دفتر کی جانے والی فائل دوبارہ کھول سکتا ہے۔ جس طرح امریکی سفیر کو مظفرآباد تک رسائی ملی تاحال اس انداز میں امریکہ کے سفیر مقیم دہلی کو سری نگر جانے کی آزادی اور اجازت نہیں ملی۔
باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو امریکی سفیر کی قطعی غیر سیاسی انداز میں مظفرآباد میں موجودگی کو نئی دہلی میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ امریکہ میں ایک حلقے کو یہ احساس ہے کہ امریکہ نے تنازع ٔ کشمیر سے خود کو لاتعلق کرکے اور اس مسئلے پر بھارت کی اصطلاحات اپناکر حقیقت میں چین کے لیے اس میدان میں کام کرنے کی اسپیس پیدا کی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی سفیر کا دورہ ثقافتی اور سماجی ہی تھا، یا اس کے کچھ جیو اسٹرے ٹیجک مقاصد بھی تھے۔ اگر دوسری بات صحیح ہے تو پھر اسے امریکہ کی پالیسی میں ایک مثبت تبدیلی کہا جاسکتا ہے۔