اسٹیبلشمنٹ نے سندھ اور کراچی کے لیے کیا سوچ رکھا ہے، کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے کے امکانات ہیں؟ ان سوالات کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔ اس وقت شہر کراچی اپنے بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہورہا۔ بس ”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“ والا معاملہ ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ دیگ میں کچھ پک رہا ہے اور آنے والے دنوں میں کوئی بڑا کھیل کھیلا جانے والا ہے، آپ اس شہر کی بدنصیبی ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں ریاست کے ادارے جانتے ہیں کہ پورا شہر برباد ہوچکا ہے، نسلیں تباہ ہیں، جرائم بے تحاشا ہیں، نوجوان ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں جارہے ہیں، منشیات کھلے عالم فروخت ہورہی ہے، چوری ڈکیتی کی وارداتیں ہیں کہ بڑھتی چلی جارہی ہیں، لوگ بجلی سے محروم اور کے الیکٹرک کے ظلم کا شکار ہیں، پانی یہاں کے لوگوں کو نہیں مل رہا ہے، سرکاری اسکولوں کی حالت ناقابلِ بیان ہے، تین کروڑ سے زائد کی آبادی والے اس شہر میں کوئی تفریحی مقام یا پارک اب تفریح کے قابل نہیں رہا ہے، پورے ملک کی معیشت کا سہارا اس شہر میں گندگی اور کچرے کے جابہ جا ڈھیر ہیں، انفرااسٹرکچر تباہ ہے… ایسا لگتا ہے یہ بگاڑ کا تسلسل بھی مستقبل کے کسی پروگرام کا حصہ ہے، اور ایسے میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی خواہش پر بلدیاتی انتخابات سے مستقل فرار جاری ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے ایک بار پھر مذاق بن گئے ہیں، کھیل تماشا ختم ہی نہیں ہورہا۔
تازہ ترین مذاق اسٹیبلشمنٹ نے یہ کیا ہے کہ سندھ کا 34 واں گورنر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما، سونے کے کاروبار سے وابستہ کامران ٹیسوری کو بنوا دیا ہے، جس پر سب حیرت زدہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ایسے فیصلے بھی کرسکتی ہے! لیکن سمجھدار لوگوں اور شہر کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یہ کام کراچی میں تاریخی طور پر کررہی ہے، اسی اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو مسلط کیا، پھر ایک دہشت گرد عشرت العباد مسلط کردیے گئے۔ اگر کسی کو کامران ٹیسوری کے گورنر بننے کو سمجھنا ہے تو عشرت العباد اس کی ایک مثال ہیں کہ وہ کس طرح گورنر بنے تھے۔ جیو کے سینئر صحافی اعزاز سید نے کچھ عرصے قبل دبئی میں مقیم سابق گورنر سندھ عشرت العباد سے طویل ملاقاتیں کی تھیں، ان ملاقاتوں کے پس منظر میں انہوں نے عشرت العباد کے گورنر بننے کا واقعہ بھی لکھا کہ ”بدھ کا سرد دن، 18 دسمبر 2002ء، متحدہ قومی موومنٹ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن میں فون کی گھنٹی بجتی ہے، خودساختہ جلا وطن اور پارٹی کے بانی کے قابلِ اعتماد ساتھی محمد انور فون کے اسپیکر کا بٹن دباتے ہیں ’’میں میجر جنرل احتشام ضمیر، آئی ایس آئی کا ڈپٹی ہوں“۔ یہ آواز کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لیتی ہے۔ خیرسگالی پر مبنی جملوں کے تبادلے کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی، انور کو بتاتے ہیں کہ انہیں گورنر سندھ کے لیے تین نام درکار ہیں۔ انور جواب دیتے ہیں کہ وہ بانی متحدہ سے نام معلوم کرکے انہیں بتاتے ہیں۔ انور کو ابھی پارٹی سربراہ کو کال کرنی تھی جو لندن سیکرٹریٹ کے نزدیک رہتے ہیں۔ اچانک فون کی گھنٹی دوبارہ بجتی ہے۔ طریقہ کار کے مطابق انور کال ریسیو کرنے کے لیے اسپیکر کا بٹن دباتے ہیں۔ اِس مرتبہ بانی متحدہ خود ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے؟ محمد انور انہیں احتشام ضمیر کی کال کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ گورنر سندھ کے لیے نام مانگ رہے ہیں۔ بانی متحدہ ان سے کہتے ہیں کہ تین نام لکھو۔ اور پھر تین نام لکھواتے ہیں: خود اپنا نام، اپنی ایک سال کی بیٹی افضا الطاف کا نام اور ڈاکٹر عشرت العباد کا نام، جو اُس وقت اسی میز پر محمد انور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے میں بیٹھا ہوا ہر شخص جانتا تھا کہ بانی متحدہ اصل میں گورنر کے عہدے کے لیے عشرت العباد کا نام لے رہے ہیں۔ پھر اسی دن عشرت العباد کی تفصیلات سیکورٹی کلیئرنس کے لیے آئی ایس آئی کو بھیجی جاتی ہیں اور 21 دسمبر 2002ء ہفتے کو سرکاری چھٹی ہونے کے باوجود پاکستانی ہائی کمیشن عشرت العباد کو پاسپورٹ جاری کرتا ہے، کیونکہ ان کا پاسپورٹ پہلے ہی زائدالمیعاد ہوچکا تھا اور وہ سیاسی پناہ میں رہ رہے تھے۔ ٹکٹ کا انتظام کیا گیا اور اسی روز عشرت العباد نے اسلام آباد کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر لینڈ کیا، جہاں ان کا استقبال آئی ایس آئی کے ڈپٹی نے کیا۔ دو روز کے بعد آئی ایس آئی کے ڈپٹی میجر جنرل احتشام ضمیر انہیں آرمی ہاؤس راولپنڈی لے جاتے ہیں جہاں جنرل پرویزمشرف، ان کے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق، ان کے چیف آف اسٹاف جنرل حامد جاوید، ایم آئی چیف میجر جنرل ندیم تاج اور ان کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز بیٹھے تھے۔ یہاں جنرل پرویزمشرف نے عشرت العباد کو خوش آمدید کہا اور اس ملاقات کا آغاز ان کے ماضی اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھ گچھ سے ہوا۔ اس میٹنگ میں جنرل پرویزمشرف نے پوچھا کہ آپ کی جماعت بہت مقبول اور متوسط طبقے کی نمائندگی کرتی ہے تو آپ کی جماعت کے لوگ تشدد کی وارداتوں میں کیوں ملوث ہیں؟ عشرت العباد نے کہا کہ جب کوئی جماعت مقبول ہوجاتی ہے تو ایسا ہوتا ہے۔ عشرت العباد کے بقول میں نے ان سے کہا کہ’’خدا جب حسن دیتا ہے، نزاکت آہی جاتی ہے‘‘۔ اس پر پرویزمشرف سمیت جتنے بھی لوگ میٹنگ میں موجود تھے، ہنسنے لگے۔“
ذرا اندازہ لگائیے کراچی کے ساتھ کیا کھلواڑ ہوا، اور یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ عشرت العباد کے پاس شیروانی تک نہیں تھی، آئی ایس آئی کے ڈپٹی چیف میجر جنرل احتشام نے اپنے درزی سے کسی اور کی دلوائی، جس کے بعد اگلے دن کئی مقدمات میں ملوث ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنری کا حلف لے لیا۔ اس کے بعد باقی تاریخ کا حصہ ہے، اور تاریخ بار بار اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ تاریخ یہ بھی ہے کہ جب ایک بار الطاف حسین کے کہنے پر عشرت العباد نے گورنری سے استعفیٰ دیا تو آئی ایس آئی کے سربراہ نے ان سے ملاقات کی، جس کے بعد برطانیہ کی حکومت نے الطاف حسین کو خط لکھا کہ وہ عشرت العباد کو استعفیٰ واپس لینے کا کہیں۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ یہ بھی تاریخ کا ہی حصہ ہے۔
کامران ٹیسوری کے نام سے قبل گورنر کے لیے نسرین جلیل کا نام ترجیح کی بنیاد پر تجویز کیا گیا تھا، جبکہ دیگر امیدواروں میں ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان، عامر چشتی، سابق میئر وسیم اختر اور کشور زہرہ شامل تھے۔ لیکن پھر بعد میں کامران ٹیسوری کا نام ایک اور نام کے ساتھ بھجوایا گیا، اور وہ منصوبہ بندی کرنے والوں کے منصوبے کے مطابق اب گورنر سندھ ہیں۔
کامران ٹیسوری کے مراسم ڈاکٹر فاروق ستارسے تھے، ان کے مسئلے پر ایم کیو ایم سے اختلافات کے بعد کامران ٹیسوری نے پارٹی چھوڑی، اورپارٹی چھوڑنے کے بعد ایم کیو ایم نے ان پر الزامات لگائے، تنقید کا نشانہ بنایا، ان پر مال بنانے کے الزامات لگاکر ان کو ان کی اوقات بھی یاد دلائی جاتی رہی، لیکن اب وہی ایم کیو ایم چاہتے نہ چاہتے ان کا گورنر بننے پر خیرمقدم بھی کررہی ہے، یعنی اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
یہاں پر کہانی یا کھیل کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ کامران ٹیسوری نے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ذریعے سال 2017ء میں ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی، اور 3 بار بزنس مین آف دا ایئر کا ایوارڈ انہیں سابق صدر پرویزمشرف کے دور میں ہی دیا گیا تھا۔
یہ کھلا راز ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو زندہ رکھنے کی حکمت عملی اختیار کررکھی ہے اور اس پر وہ ایک عرصے سے کام بھی کررہی ہے، لیکن تاحال بڑی کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے بار بار پلان تبدیل بھی ہورہے ہیں۔
اس پس منظر میں ہم نے ’’عرب نیوز‘‘ سے وابستہ سینئر تجزیہ نگار نعمت خان سے جو ملکی و بین الاقوامی امور پر گہری و عمیق نظر رکھتے ہیں، جب سوال کیا کہ سندھ خاص طور پر کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ کامران ٹیسوری کو لانے کا پس منظر کیا ہے ؟اورکیا یہ ایم کیو ایم کو متحد کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے؟ تو ان کا کہنا تھا:
”آپ کے سوال کے جواب کے لیے کامران ٹیسوری کے پس منظر اور ان کی دو دفعہ ایم کیو ایم میں شمولیت اور اس کے خلاف اندرونی مخالفت اور مزاحمت کا تذکرہ نہایت ضروری ہے۔ کامران ٹیسوری جب پہلی دفعہ ایم کیو ایم پاکستان میں 2017ء میں شامل ہوئے تھے تو اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم پاکستان مزید دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی تھی، اگرچہ فاروق ستار کی قیادت میں الگ ہونے والا پی آئی بی دھڑا خاطرخواہ توجہ حاصل نہ کرسکا، لیکن فاروق ستار کے ایم کیو ایم پاکستان سے نکل جانے کی وجہ ہی کامران ٹیسوری تھے، اور اس پر ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی سمیت دو اور اہم رہنمائوں وسیم اختر اور فیصل سبزواری کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ خالد مقبول صدیقی نے ان کو پیراٹروپر قرار دے کر ان کی بھرپور مخالفت کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ ماہ جب کامران ٹیسوری کا نام دوبارہ لایا گیا تو رابطہ کمیٹی میں شمولیت پر پھر سخت مخالفت ہوئی اور کچھ وقت بعد مقتدر حلقوں کے افراد نے کامران ٹیسوری اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں کے ساتھ ایک اجلاس میں بتایا کہ اگر کامران ٹیسوری رابطہ کمیٹی کے ذمہ دار نہیں بن سکتے تو ان کو گورنر بنایا جائے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق آخر وقت تک اس کی مخالفت ہوتی رہی، مگر مقتدر حلقوں کے سامنے ایم کیو ایم پاکستان کی نہیں چل سکی او انہیں سرِ تسلیم خم کرنا پڑا، جس کے بعد کامران ٹیسوری اپنے متنازع پس منظر کے باوجود گورنر سندھ بن گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کو لانے کا مقصد گروہوں کو متحدہ کرنا ہے؟ تو ڈاکٹر فاروق ستار اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال ان کی نامزدگی پر اپنی خوشی کا اظہار تو کر ہی چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے فیصل واوڈا جن کا مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلق ڈھکا چھپا نہیں، انہوں نے بھی اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے، اور اب جب ایم کیو ایم پاکستان اس فیصلے کو قبول کرچکی ہے اور وسیم اختر جیسے مخالف نے بھی ان کی گورنرشپ پر خوش آمدیدی ٹویٹ کیا ہے تو یقیناً ان کی نامزدگی ایم کیو ایم کے دھڑوں کے ایک ہونے کی طرف معاون ہوسکتی ہے، مگر یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب دھڑے ایک ہوں گے تو لیڈرشپ کا مسئلہ سامنے آئے گا، اور اس طرح یہ کام آسان نہیں ہوگا۔“
ایک سوال کے جواب میں نعمت خان کا کہنا تھا کہ ”فی الحال تو مقتدر حلقوں کا الطاف حسین کو لانے کا پلان نہیں، لیکن اگر الطاف حسین اس سارے عمل میں شامل ہوں تو ہم ایم کیو ایم کو ایک دفعہ پھر اپنے عروج پر دیکھ سکتے ہیں جو موجودہ منظرنامے میں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جب الطاف حسین جیسا نیوکلیئس نہیں ہوگا تو ایم کیو ایم کے اتحاد کی کوششیں دو وجوہات کی بنا پر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں گی۔ پہلی لیڈرشپ پر جھگڑا، اور اگر کسی ایک کو زبردستی بنوایا بھی گیا تو اس میں گروپنگ موجود ہوگی اور تنظیم کبھی مضبوط نہیں ہوسکے گی۔ دوسرا، کراچی میں الطاف حسین کا اثر رسوخ موجود ہے، اور اس کے ہوتے ہوئے تمام دھڑوں کے یکجا ہونے کے باوجود مطلوبہ نتائج نہیں مل پائیں گے۔“
اس پس منظر اور ساری صورت حال پر صحافی اور تجزیہ نگار مبشر زیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا:”لگتا ہے کہ یہ کوئی منصوبہ ہے جس کے تحت ایک ایسی ایم کیو ایم بنائی جائے جو کم از کم کراچی میں تحریک انصاف کے ووٹ توڑ سکے، کیونکہ اگلے الیکشن میں بھی پی پی کا اتنا زور نہیں ہوگا۔“ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”مائنس لندن گروپ کے باقی دھڑوں بشمول مصطفیٰ کمال نے ٹیسوری کی تعیناتی کا ایک جیسا ہی خیرمقدم کیا ہے۔“
سینئر تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں: ”ایم کیو ایم کے دھڑوں میں انضمام کی گزشتہ تین برسوں سے کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ ضمنی انتخابات میں بھی ایک بار یہی کوشش دہرائی گئی، لیکن بات کامران ٹیسوری تک آکر رک جاتی تھی۔“
کراچی کے پس منظر میں کھیل بڑا ہے اور ابھی اس کی کئی اقساط آنا باقی ہیں۔ ایم کیو ایم کے ذرائع بھی کہہ رہے ہیں کہ تمام دھڑوں کے انضمام کے لیے ان پر بہت دباؤ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی کراچی میں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کراچی اور کراچی کے لوگوں پر ایک بار پھر ظلم ہوگا، اور یہ فطری طور پر دم توڑتی ایم کیو ایم کو زندگی دینے کے مترادف ہے۔ ایم کیو ایم ماضی میں بھی ایک وقت کے بعد کچھ نہیں تھی لیکن اسے ریاست نے گود لے کر بار بار کراچی کے لوگوں پر مسلط کیا، اور اس نے دہشت گردی کی تاریخ رقم کرتے ہوئے تیس پینتیس سالوں میں خونیں داستان رقم کی اور کراچی کو روزانہ کی بنیاد پر موت دی، اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کے سامنےہزاروں لوگ مار دیے۔ پورے شہر سے حکیم سعید اور جید علماء سمیت اہم شخصیات کو چن چن کر قتل کیا گیا، اور آج ایک بار پھر لگتا ہے کہ وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔