دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا 85 سالہ جشنِ تعلیمی 31 اکتوبر تا 3 نومبر 1975ء (25 تا 28 شوال 1395ھ) کو منعقد ہوا تھا۔ یہ بڑا علمی اور تاریخی پروگرام تھا، جس میں ملک کی نمایاں شخصیات کے علاوہ عالم عرب کے بھی مایہ ناز شیوخ تشریف لائے تھے۔ ندوہ کے کیمپس میں علم و فضل کی کہکشاں جمع ہوگئی تھی۔ ان میں ایک ممتاز شخصیت ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی بھی تھی، جو اُن دنوں قطر یونی ورسٹی کے کلیۃ التربیۃ کے صدر تھے۔ اُس وقت ان کی عمر 49 برس تھی۔ اجلاس کے دوسرے دن ان کی زبردست تقریر ہوئی۔ تقریر سے قبل حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ان کا تعارف کرایا اور ان کے علم و فضل کا ذکرِ خیر کیا۔ شیخ قرضاوی نے ندوۃ العلماء سے اپنی واقفیت اور تاثر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ندوہ کے فضلاء کی ہمارے یہاں بڑی قدر و منزلت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک زمانے میں ہم لوگ ’ندوی‘ کو خاندانی نسبت سمجھتے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے جب قاہرہ میں (1951ء میں) ہمارا تعارف ہوا، اُس وقت ہم لوگ طالب علم تھے اور وہ اپنی تازہ تصنيف ”مـاذا خسـر الـعـالم بانحطاط المسلمین“ کے ذریعے اچھی طرح روٗشناس ہوچکے تھے اور ایک داعی اور زائر کی حیثیت سے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کررہے تھے۔ اُس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ یہ اس درس گاہ کی نسبت ہے، جس کا شہرہ آج ساری دنیا میں ہے۔ انھوں نے علماء کو دعوتِ اسلامی کی ذمہ داریاں یاد دلائیں، اسلام کے اعجاز کی طرف متوجہ کیا، جس میں آج بھی انسانیت کی چارہ سازی و مسیحائی کا پورا سامان ہے۔ مولانا سید محمدالحسنی نے جشنِ تعلیمی کی روداد میں لکھا ہے:
”تقریر کیا تھی، معلوم ہوتا تھا کہ موسلا دھار پانی برس رہا ہے، قادرالکلامی اور جادو بیانی کا ایک نمونہ، جو بہت دن کے بعد دیکھنے میں آیا۔ عربی زبان کی شیرینی و حلاوت مقرر کے جذبۂ ایمانی کی حرارت کے ساتھ اس طرح گھل مل گئی تھی کہ شعلہ و شبنم کا امتزاج نظر آرہا تھا۔ اور یہ دل کی وہ زبان ہے جس کے لیے ترجمانی کی ضرورت نہیں ہوتی اور جس کو سننے سے زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔“ (رودادِ چمن، ص 215)
آج سے 47 برس قبل علامہ یوسف القرضاوی کا (جن کی 26 ستمبر 2022ء سہ پہر میں وفات ہوگئی) مجھ سے یہ پہلا تعارف تھا۔ اس وقت میری عمر 20 برس سے زائد نہ تھی۔ چند ایام قبل ہی میرا ندوہ میں داخلہ ہوا تھا۔ ان کی عظمت کا جو نقش اُس وقت ذہن کے پردے پر نقش ہوا تھا وہ آخر تک نہ صرف باقی بلکہ تروتازہ رہا۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی ولادت مصر میں 1926ء میں ہوئی۔ عنفوانِ شباب ہی میں وہ شیخ حسن البنا کی شخصیت اور دعوت سے متاثر اور اس کے اسیر ہوگئے تھے۔ انھوں نے اعلائے کلمۃ اللہ، حق کی تائید و حمایت اور باطل کی سرکوبی کی جدوجہد کرتے رہنے کا جو عہد ابتدائی زندگی میں کیا تھا اس کو زندگی کی آخری سانس تک نبھاتے رہے۔ وہ قید و بند اور ایذا و تعذیب کے مختلف مراحل سے گزرے، لیکن ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی۔ اخوان المسلمون سے وابستگی کی وجہ سے وہ پہلی بار 1949ء کے شاہی دور میں (جب ان کی عمر 23 برس تھی) گرفتار ہوئے، پھر جمال عبدالناصر کے سیاہ دور میں 3 بار انہیں جیل جانا پڑا۔ پہلے جنوری 1954ء میں گرفتار ہوئے، پھر اسی سال نومبر میں دوبارہ حراست میں لیے گئے اور 20 مہینے تک قید میں رہے۔ 1961ء میں وہ قطر چلے گئے، جہاں کچھ عرصے کے بعد انہیں شہریت سے بھی نوازا گیا۔ انھوں نے 1977ء میں قطر یونی ورسٹی سے وابستہ ہوکر مختلف خدمات انجام دیں۔ ایک زمانے میں اخوانی قیادت نے انہیں مختلف مناصب، یہاں تک کہ ”مرشد عام“ (سب سے اونچا منصب) کی پیش کش کی، لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے معذرت کرلی اور فرمایا کہ میں اپنی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہوں، میں اس منصب کا اہل نہیں، میں نے خود کو علمی کاموں کے لیے وقف کردیا ہے۔
ندوۃ العلماء میں ایک زمانے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کوششوں سے عالم عرب کے بڑے شیوخ وزیٹنگ پروفیسرز کی حیثیت سے تشریف لاتے تھے اور علوم اسلامیہ کے فنّی موضوعات پر لیکچر دیتے تھے۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی بھی کئی مرتبہ ندوہ تشریف لائے اور ہمیں ان سے استفادہ کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ بعد نماز مغرب جمعیۃ الاصلاح (Students Union) کے ہال میں شیخ کا لیکچر ہوا۔ انھوں نے عالم اسلام کے حالات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ دینی تنظیموں اور شخصیات کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ اخوان المسلمون کا تعارف کرانے لگے تو آبدیدہ ہوگئے اور ان کی آواز بھرّا گئی۔ وہ جوش میں آگئے۔ انھوں نے اخوان کی ابتلا و آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
”صحابۂ کرام کو جس طرح ستایا گیا اور انہیں اذیتیں دینے کے جو طریقے اختیار کیے گئے ان سے ہم سب واقف ہیں، لیکن اخوان نے جو اذیتیں سہیں وہ ان سے بڑھ کر تھیں، اس معنیٰ میں کہ ان (اخوان) پر اذیتوں کے بدترین حربے استعمال کیے گئے اور انتہائی گھناؤنے، وحشیانہ اور انسانیت سوز تجربات کیے گئے۔“
اُس وقت ڈاکٹر قرضاوی کا یہ اندازِ بیان عجیب سا لگا تھا اور یہ تاثر قائم ہوا تھا کہ انھوں نے اخوان کی آزمائشوں کو صحابۂ کرام کی آزمائشوں سے بڑھ کر قرار دیا ہے، لیکن بعد میں جب اخوان کی رودادِ ابتلاء پر متعدد کتابوں کا مطالعہ کرنے کی توفیق ہوئی تو ان کی بات درست معلوم ہوئی۔
شیخ نے زندگی کی آخری سانس تک حق اور اہلِ حق کی علانیہ حمایت جاری رکھی اور عالمی اور علاقائی حالات کا جبر ان کے قدم کو ذرا بھی ٹس سے مس نہ کرسکا۔ وہ اپنے جگر میں سارے جہاں کا درد سمیٹے ہوئے تھے۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا، وہ اس کے خلاف آواز بلند کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ وہ اپنے خطابات میں ظالموں کا تذکرہ کرتے تو دھاڑنے لگتے، ان کی مذموم حرکتوں پر سرزنش کرتے، انہیں اللہ کی پکڑ سے ڈراتے، اہلِ حق کی ڈھارس باندھتے اور انہیں استقامت کی تلقین کرتے۔
ڈاکٹر قرضاوی مظلوم فلسطینیوں کے بہت بڑے حامی تھے۔ وہ اسرائیل کو کھلے الفاظ میں ظالم، جارح اور استعماری کہتے تھے، جس نے فلسطین کے اصل باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے اس پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ وہ اہلِ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے اور اسرائیل کے خلاف ہر طرح کی کارروائیوں کو جائز قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے اسرائیل کے خلاف خودکش حملوں کو بھی جائز قرار دیا تھا۔ ان کے اس فتوے پر علمی حلقوں میں تنقید کی گئی اور اسے غلط کہا گیا کہ دشمن کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے خود کو ہلاک کرلینا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ڈاکٹر قرضاوی خودکُش حملوں کو علی الاطلاق جائز نہیں قرار دیتے تھے، بلکہ صرف فلسطین کے اندر، جب اہلِ فلسطین کے لیے اپنے دفاع کا کوئی دوسرا راستہ نہ بچا ہو، اسرائیلی اہداف پر خودکُش حملوں کے جواز کے قائل تھے۔
ڈاکٹر قرضاوی کی تصانیف کی تعداد سو سے دو سو تک بتائی جارہی ہے۔ ان میں سے بہت سی کتابوں کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ان کی ابتدائی تصانیف میں الحلال و الحرام فی الاسلام اور فقہ الزکاۃ کو غیر معمولی شہرت ملی۔ (مؤخر الذکر کتاب کا اردو ترجمہ جناب شمس پیرزادہ نے کیا تھا)۔ ان کے علاوہ ان کی اہم تصنیفات میں فقہ الطہارہ، فقہ الصلاة، فقہ الجہاد، من فقہ الدولة فی الاسلام، فی فقہ الاقلیات المسلمة، العبادة فی الاسلام، کیف نتعامل مع القرآن العظیم، کیف نتعامل مع السنة النبویة، مشکلة الفقر و کیف عالجہا الاسلام، الصبر فی الاسلام، (اس کا اردو ترجمہ برادر مکرم مولانا محمد جرجیس کریمی نے کیا ہے)، ظاھرة الغلو فی التکفیر، القدس قضیة کل مسلم، السیاسة الشرعیة فی ضو نصوص الشریعة، الصحوة الاسلامیة من المراھقة الی الرشد، الوقت فی حیاة المسلم (اس کا اردو ترجمہ ”وقت کی اہمیت“ کے نام سے مولانا عبدالحلیم فلاحی نے کیا تھا، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا ہے) اور التربیة الاسلامیة ومدرسة حسن البنا (اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی نے ”اخوان المسلمون کا تربیتی نظام“ کے نام سے کیا تھا) قابلِ ذکر ہیں۔ عصری مسائل پر ان کے فتاویٰ بہت بڑی تعداد میں ہیں، جو علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ ان کا مجموعہ فتاوی معاصَرَة کے نام سے شائع ہوا ہے۔ کچھ منتخب فتاویٰ کا اردو ترجمہ برادر مکرم سید زاہد اصغر فلاحی نے کیا تھا، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے دو حصوں میں شائع ہوا ہے۔ مجھے اپنے استاد و مربی مولانا سید جلال الدین عمری کی خواہش پر بینک انٹرسٹ سے متعلق قرضاوی صاحب کے ایک طویل انٹرویو کا اردو ترجمہ کرنے کی توفیق ہوئی تھی، جو سہ ماہی ”تحقیقات اسلامی“ علی گڑھ، اکتوبر۔ دسمبر 1989ء میں ”بینک کا سود“ کے عنوان سے طبع ہوا تھا۔ بعد میں اسے انڈین ایسوسی ایشن فار اسلامک اکنامکس بنگلور نے کتابچہ کی صورت میں شائع کیا تھا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے بہ دلائل ثابت کیا تھا کہ انٹرسٹ کی تمام صورتوں کی طرح بینک انٹرسٹ بھی حرام ہے اور اس پر تمام علماء کا اجماع ہے۔
علوم اسلامیہ میں شیخ قرضاوی کی خدمات کی بنا پر 1994ء میں سعودی عرب کے مؤقر اعزاز ”شاہ فیصل ایوارڈ“ سے نوازا گیا۔ دبئی حکومت کی جانب سے بھی انہیں وہاں کا سب سے بڑا ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان ممالک کے حکمرانوں کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں ان کا نام شامل ہوگیا۔
شیخ کے دروس اور خطابات کی ویڈیوز عام ہیں، جن سے دنیا بھر میں استفادہ کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ان کے شاگرد بھی بڑی تعداد میں ہیں، جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انھوں نے تلامیذ القرضاوی کے نام سے ایک بین الاقوامی فورم بنارکھا ہے، جس کے تحت مختلف ممالک میں پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ چند برس قبل صدیقِ مکرّم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی تو شیخ قرضاوی کے شاگرد ہیں۔ کہیے تو آپ کا نام بھی اُس فورم میں شامل کروا دوں۔ لیکن میں نے اُن کی اس پیش کش کو خوب صورتی سے نظرانداز کردیا تھا۔
علامہ قرضاوی جماعت اسلامی کی دینی خدمات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 1979ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی وفات ہوئی تو وہ تعزیت کے لیے لاہور تشریف لے گئے اور نماز جنازہ کی امامت کی۔ وہ مولانا مودودی کو الإمام المودودی کہا کرتے تھے۔ انھوں نے مولانا کی خدمات اور افکار پر ایک کتاب تصنیف کی ہے، جس کا اردو ترجمہ برادر عزیز ابوالاعلیٰ سبحانی نے کیا ہے اور وہ ہند و پاک دونوں جگہوں سے طبع ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے اکابر سے بھی ان کے خصوصی تعلقات تھے۔ وہ جامعہ اسلامیہ شانتاپورم (کیرالا) کی المجلس الاعلیٰ کے چیئرمین تھے۔ انھوں نے اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی۔ ایک مرتبہ جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ بھی تشریف لائے تھے۔ جماعت کے اکابر جب قطر جاتے تو ان سے ملاقات کے لیے ضرور وقت نکالتے، اور وہ ان کا پُرتپاک استقبال کرتے تھے۔
شیخ قرضاوی اپنے رب کے جوارِ میں پہنچ گئے۔ قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے گا، ان کی سیئات اور اجتہادی غلطیوں سے درگزر فرمائے گا اور ان پر اپنے انعامات کی بارش کرے گا۔ شیخ کے بارے میں آئندہ بہت کچھ لکھا اور ان کے افکار کا تجزیہ کیا جائے گا۔ بجا طور پر وہ اس کے مستحق ہیں۔ میرے پاس بھی لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، لیکن مصروفیات اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتیں۔ ان سے عقیدت و محبت کا اظہار دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ یہ چند سطریں بھی ان کے لیے میری محبت کا نذرانہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین یارب العالمین!