امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

اسقاط حمل پر پابندی کا خاتمہ ڈیموکریٹ انتخابی نعرہ ہے

منگل 13 ستمبر کو ریاست نیو ہیمپشائر پرائمری کے ساتھ ہی امریکہ میں 2022ء کے وسط مدتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ اب 8 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ پرائمری انتخابات پارٹی ٹکٹ کے فیصلے کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا، امریکہ میں پارٹی ٹکٹوں کا اجرا پارلیمانی بورڈ یا قیادت کی جانب سے نہیں ہوتا بلکہ جماعتی نامزدگی عام انتخابات کے ذریعے ہوتی ہے۔ دلچسپ بات کہ ٹکٹ کے حصول کے لیے جماعت کی رکنیت بھی ضروری نہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں سینیٹر برنی سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے خواہش مند تھے جبکہ موصوف نے ووٹر رجسٹریشن دستاویزات میں خود کو ”آزاد“ درج کرایا ہوا ہے، اور سینیٹ کا انتخاب بھی انھوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتا تھا۔ پرائمری انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے جماعتی رکنیت کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ووٹر رجسٹریشن کے وقت پسندیدہ پارٹی کا نام لکھ دینا کافی ہے۔ بہت سی ریاستوں میں یہ تکلف بھی نہیں، بلکہ پولنگ اسٹیشن پر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ پیپر لے سکتے ہیں

۔ اکثر ریاستوں میں ٹکٹ کے لیے کم ازکم 50 فیصد ووٹ لینا ضروری ہے اور اگر کوئی بھی امیدوار مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو دوسرے مرحلے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ اس فیصلہ کن انتخاب کو runoff الیکشن کہا جاتا ہے۔ نومبر کے انتخابات کے لیے پرائمری انتخابات کا سلسلہ 3 مئی کو ریاست انڈیانا سے شروع ہوا تھا۔ امریکہ میں کوئی مرکزی الیکشن کمیشن نہیں بلکہ انتخابات کا انعقاد ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور سارا انتظام و انصرام کائونٹیوں کی انتظامیہ کرتی ہیں۔ اس بنا پر حلقہ بندی، ووٹر رجسٹریشن اور ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار بھی ہر جگہ ایک جیسے نہیں، اور مطلوبہ نتائج کے لیے جماعتی مداخلت بہت واضح ہے۔ صرف 6 ریاستوں میں ایوانِ نمائندگان کی حلقہ بندی کے لیے آزاد و خودمختار کمیشن قائم کیے گئے ہیں، جبکہ اکثر ریاستوں میں حلقہ بندی کا کام ریاستی مقننہ (صوبائی اسمبلی) کی ذمہ داری ہے۔

امریکہ کی تمام ریاستوں میں مقننہ کے انتخابات جُفت (even) سال کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ہوتے ہیں، لیکن لوزیانا(Louisiana)، مسی سپی (Mississippi)، نیوجرسی اور ورجینیا میں پارلیمانی انتخابات طاق (odd)سال میں کرائے جاتے ہیں۔ چنانچہ 8 نومبر کو 46 ریاستوں میں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔

امریکی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ ایوانِ بالا یا سینیٹ میں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کی نمائندگی مساوی ہے اور ہر ریاست کی نمائندگی دو سینیٹر کرتے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کی 534 نشستیں آبادی کے اعتبار سے تمام ریاستوں پر تقسیم کی گئی ہیں۔

ایوانِ نمائندگان کی مدت دو سال ہے، جبکہ سینیٹروں کا انتخاب 6 سال کے لیے ہوتا ہے۔ نومبر میں ایوانِ نمائندگان کے ساتھ سینیٹ کی 34 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ ان میں سے 14 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی اور 20 ریپبلکن پارٹی کے ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔ اسی دن 36 ریاستوں اور 3 امریکی کالونیوں گوام، شمالی جزائرِ ماریانا اور ورجن آئی لینڈ میں گورنروں کا چنائو بھی ہوگا۔ 20 ریاستوں میں ریپبلکن اور 16میں ڈیموکریٹک گورنر اپنی مدت پوری کررہے ہیں۔

کئی ریاستوں میں مختلف اہم امور پر عوام کی رائے معلوم کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے پرچہ انتخاب پر سوالات تحریر کیے جاتے ہیں جن کے جوابات صرف ہاں یا نہ میں دیے جاسکتے ہیں۔ ان سوالات کو امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں Propositionsکہا جاتا ہے۔

اس وقت سینیٹ میں دونوں جماعتوں کی پارلیمانی قوت برابر ہے، یعنی ہر پارٹی کے 50 سینیٹر ایوان میں براجمان ہیں۔ امریکی قانون کے تحت نائب صدر بر بنائے عہدہ سینیٹ کی سربراہ ہیں اور ووٹ برابر ہوجانے کی صورت میں فیصلہ کن یا tie-breakerووٹ ڈال کر اپنی پارٹی کی نیّا پار لگاسکتی ہیں۔ واضح اکثریت کے لیے ایوانِ نمائندگان کی 218 نشستیں درکار ہیں اور اس وقت ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کی تعداد 221 ہے۔

رائے عامہ کے حالیہ جائزے صدر بائیڈن کے لیے سخت مایوس کن ہیں۔ مہنگائی نے عام امریکیوں کی زندگی دوبھر کررکھی ہے۔ دوا اور غذا ہر چیز کی قیمت آسمان پر ہے۔ یوکرین کی جنگ میں امریکہ بہادر اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں جس کے اضافی بوجھ نے مہنگائی سے دبے امریکیوں کا کچومر نکال دیا ہے۔ کورونا کے دوران احتیاطی تدابیر سے زنجیرِ فراہمی (supply chain) کے جو حلقے پٹری سے اتر گئے تھے ان میں سے کئی اب تک معطل ہیں، نتیجے کے طور پر اشیائے خوردنی سمیت بہت سی ضروری اشیا کی نقل و حمل ہنوز مکمل طور سے بحال نہیں ہوسکی۔ اور تو اور نونہالوں کے دودھ (baby formula)کی جزوی قلت اب تک موجود ہے۔ بازارِ حصص مندی کا شکار ہے۔ تنخواہ دار ملازمین کی نجی پینشن کی سرمایہ کاری کے لیے بازارِ حصص محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پینشن کی مجموعی قدر میں 35 سے 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی میں نظریاتی تقسیم کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ کو قانون سازی میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ سینیٹر جومینچن اور سینیٹر محترمہ کرسٹن سینیما ہیں تو ڈیموکریٹ، لیکن نظریاتی طور پر قدامت پسند ہونے کی بنا پر یہ دونوں بائیڈن ایجنڈے پر تحفظات رکھتے ہیں، اور نظریاتی ابہام کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی افرادی قوت عملاً 48 رہ گئی ہے۔

سینیٹ کی جن 14 نشستوں کا ڈیموکریٹک پارٹی کو دفاع کرنا ہے ان میں سے 2 سخت خطرے میں ہیں، جبکہ ایک پر کانٹے کا مقابلہ ہے۔ دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کی صرف ایک نشست خطرے میں نظر آرہی ہے۔ گھمسان کا یہ معرکہ ریاست پنسلوانیا میں ہونا ہے جو روایتی طور پر ریپبلکن کا گڑھ ہے۔ سینیٹر پیٹ ٹومی نے نجی مصروفیت کی بنا پر نئی مدت کے لیے انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی ہے۔ اس بار یہاں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ترک نژاد ڈاکٹر محمد اوز ہیں جو رائے عامہ کے تمام جائزوں میں اپنے مخالف جان فیٹرمین سے پیچھے ہیں۔ محمد اوز کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یا ستم ظریفی کہ مسلمان ڈاکٹر محمد اوز اور یہودی جان فیٹرمین دونوں اسرائیل کے پُرجوش حامی ہیں۔

دو برس پہلے ہونے والی مردم شماری کے نتیجے میں ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کے انتخابات بہت دلچسپ ہوگئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اب امریکہ کی آبادی 33 کروڑ 15 لاکھ کے قریب ہے جو 2010ء کی مردم شماری کے مقابلے میں 2 کروڑ 27 لاکھ زیادہ ہے، یعنی گزشتہ دس سالوں میں امریکہ کی آبادی 7.4 فیصد بڑھ گئی۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ اس عرصے میں امریکی شہریوں نے ایک ریاست سے دوسری ریاستوں کی طرف نقل مکانی بھی کی جس سے ریاستی آبادی میں فرق آیا۔ بین الریاستی نقل مکانی اور آبادی میں اضافے سے سینیٹ کی ہیئت تو ویسی کی ویسی ہی ہے کہ ایوانِ بالا میں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کی نمائندگی مساوی ہے، لیکن ایوانِ نمائندگان میں جو فرق آیا ہے اس کے مطابق:

٭سات ریاستوں میں ایوانِ نمائندگان کی نشستیں ایک ایک کم ہوگئی ہیں۔ ان سات میں سے تین ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی اور دو ریپبلکن کا گڑھ ہیں۔ دو ریاستوں میں مقابلہ برابر کا ہے۔

٭پانچ ریاستوں میں ایک ایک نشست کا اضافہ ہوا ہے، جن میں سے تین ریپبلکن کی گرفت میں ہیں اور ایک ڈیموکریٹس کا قلعہ ہے۔

٭ٹیکساس (Texas) کو دو اضافی نشستیں ملی ہیں۔ یہاں ریپبلکن پارٹی کا زور ہے لیکن اس ریاست میں ہسپانویوں، ایشیائیوں اور افریقی نژاد امریکیوں کے تناسب میں مسلسل اضافے سے ریپبلکن پارٹی کی گرفت کمزور ہورہی ہے۔

آنے والے وسط مدتی انتخابات سابق صدر ٹرمپ کے لیے بہت اہم ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ 2024ء کے صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر قسمت آزمائی کی خواہش رکھتے ہیں۔ پرائمری انتخابات کے دوران انھوں نے اپنے منظورِ نظر امیدواروں کے حق میں زبردست مہم چلائی۔ اکثر جگہ ان کے حامی ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور سابق صدر نے کئی برج گرا دیے، جس کی واضح مثال ریاست وایومنگ ہے جہاں سابق نائب صدر ڈک چینی کی صاحب زادی لزچینی 2016ء سے مسلسل منتخب ہورہی تھیں۔ پرائمری انتخابات میں چینی صاحبہ کو صدر ٹرمپ کی حمایت یافتہ امیدوار نے بدترین شکست سے دوچار کیا۔ دوسال پہلے 68 فیصد ووٹ لے کر کانگریس کی نشست اپنے نام کرنے والی 56 سالہ لزچینی کو پرائمری میں صرف 28 فیصد ووٹ ملے۔

اتوار 25 ستمبر کو امریکن براڈکاسٹنگ کمپنی ABC اور واشنگٹن پوسٹ نے رائے عامہ کے جو جائزے شایع کیے ہیں اس کے مطابق 51 فیصد امریکی ریپبلکن اور 46 فیصد برسراقتدار پارٹی کے حامی ہیں۔ خیال ہے کہ سینیٹ میں تو شاید صدر بائیڈن برتری برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ایوانِ نمائندگان پر ریپبلکن پارٹی کا قبضہ نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے۔

معمولی ہی سہی لیکن اس وقت دونوں ایوانوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ اس کے باوجود اندرونی کشمکش کی وجہ سے صدر بائیڈن کو مطلوبہ قانون سازی میں مشکل پیش آرہی ہے، اور اگر ان انتخابات میں ریپبلکن پارٹی ایوانِ نمائندگان سے حکمراں جماعت کی بالادستی ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اپنے اقتدار کے آخری دو سالوں میں بائیڈن انتظامیہ مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔

صدر بائیڈن پُرامید ہیں کہ اسقاطِ حمل کے معاملے پر امریکی خواتین کی بے چینی سے پانسہ ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں پلٹ سکتا ہے۔ اِس سال جون میں امریکی سپریم کورٹ نے 1973ء کے اس فیصلے کو معطل کردیا جس کے تحت امریکی خواتین کو اسقاط کا حق دیا گیا تھا۔ تین آزاد خیال منصفین کے مقابلے میں چھے قدامت پسند ججوں نے فیصلہ سنایا کہ امریکی آئین کی رو سے صحت کے معاملات کا تعلق ریاستوں سے ہے لہٰذا وفاق کو تولیدی حقوق سمیت صحتِ عامہ کے باب میں کسی قسم کی قانون سازی کا حق نہیں۔ یعنی اسقاط سے متعلق قانون سازی ریاستوں کا کام ہے۔ اس وقت امریکہ کی 50 میں سے 30 ریاستوں پر ریپبلکن پارٹی کی حکومت ہے، 18 ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری حاصل ہے، جبکہ ریاست مینی سوٹا اور الاسکا میں دونوں پارٹیاں برابر ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی اپنے زیراثر ریاستوں میں ریپبلکن پارٹی نے اسقاط کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی خلاف ورزی پر قید و بھاری جرمانہ عائد کردیا ہے۔ ریاست ٹیکساس میں تو اسقاط کے لیے کسی خاتون کو اسپتال یا مطب لے جانے والے ٹیکسی ڈرائیور پر بھی سہولت کاری کا مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔

امریکی خواتین کی اکثریت اسقاط پر پابندیوں کو غیر منصفانہ سمجھتی ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی اس معاملے کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ لبرل امیدوار اپنے اشتہاروں میں خواتین کو متنبہ کررہے ہیں کہ اگر آنے والے انتخابات میں قدامت پسندوں کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ لوگ ہم جنس پرستی اور دیگر سماجی آزادیوں پر بھی پابندیاں لگادیں گے۔ تاہم تولیدی حقوق پر عائد حالیہ قدغنوں سے ناخوش خواتین میں یہ نعرہ اب تک بہت زیادہ مقبول نہیں۔ اس وقت امریکیوں کی ترجیح پیٹ ہے اور اکثریت حکومت کو معاشی مشکلات کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ معاشی پریشانی، مہنگائی اور قانون سازی میں تعطل کی بنا پر وسط مدتی انتخابات کے نتائج صدر بائیڈن کے لیے ناخوشگوار ہوں گے۔

…………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔