صبر و استقامت کی لازوال مثال !!

حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر سے باہر نکلنے لگے تو ہمیں گھر کے دروازے پر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سامنے سے آتے ہوئے ملے۔ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جارہے تھے تو ہم ان کے ساتھ واپس ہو گئے کہ دیکھیں یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سلام کر کے کہا اے امیر المومنین! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! واپس چلے جاؤ اور اپنے گھر بیٹھ جاؤ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی جو چاہتے ہیں اسے وجود میں لے آئیں۔ چنانچہ حضرت حسن بھی اور ہم بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے باہر آ گئے تو ہمیں سامنے سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آتے ہوئے ملے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جارہے تھے تو ہم بھی ان کے ساتھ واپس ہو گئے کہ یہ کیا کہتے ہیں؟ چنانچہ انہوں نے جا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سلام کیا اور عرض کیا اے امیر المومنین ! میں رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہا اور ان کی ہر بات مانتا رہا۔ پھر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا اور ان کی پوری فرمانبرداری کی ۔ پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا اور ان کی ہر بات مانتا رہا اور میں ان کا اپنے اوپر دو حق سمجھتا تھا۔ ایک والد ہونے کی وجہ سے اور ایک خلیفہ ہونے کی وجہ سے اور اب میں آپ کا پوری طرح فرمانبردار ہوں ۔ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں ( میں اسے انشا اللہ پورا کروں گا ) اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے آل عمر! اللہ تعالی تمہیں دگنی جزائے خیر عطا فرمائے مجھے کسی کا خون بہانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے کسی کا خون بہانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
‘( حيا الصحابہ ج 3 ص173 بحوالہ الریاض النشر و ج2 ص129)