حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ر وایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرنے والوں پر اللہ رب العزت رحم فرماتے ہیں، تم اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والاتم پر رحم فرمائے گا“۔ (ابودائود، ترمذی)
انسانی تاریخ میں جتنی قومیں بھی تباہ ہوئی ہیں، ان سب کو جس چیز نے گرایا، وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز کیا تو وہ خوشحالی کے نشے میں مست ہوکر زمین میں فساد برپا کرنے لگیں، اور ان کا اجتماعی خمیر اس درجہ بگڑ گیا کہ یا تو ان کے اندر ایسے نیک لوگ باقی رہے ہی نہیں جو اُن کو برائیوں سے روکتے، یا اگر کچھ لوگ ایسے نکلے بھی تو وہ اتنے کم تھے اور ان کی آواز اتنی کمزور تھی کہ ان کے روکنے سے فساد نہ رک سکا۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت آخرکار یہ قومیں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوئیں، ورنہ اللہ کو اپنے بندوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے کہ وہ تو بھلے کام کررہے ہوں اور اللہ ان کو خوامخواہ عذاب میں مبتلا کردے۔ یہاں تین باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں:
ایک یہ کہ ہر اجتماعی نظام میں ایسے نیک لوگوں کا موجود رہنا ضروری ہے جو خیر کی دعوت دینے والے اور شر سے روکنے والے ہوں۔ اس لیے کہ خیر ہی وہ چیز ہے جو اصل میں اللہ کو مطلوب ہے، اور لوگوں کے شرور کو اگر اللہ برداشت کرتا بھی ہے تو اس خیر کی خاطر کرتا ہے جو ان کے اندر موجود ہو، اور اُسی وقت تک کرتا ہے جب تک ان کے اندر خیر کا کچھ امکان باقی رہے۔ مگر جب کوئی انسانی گروہ اہلِ خیر سے خالی ہوجائے اور اس میں صرف شریر لوگ ہی باقی رہ جائیں، یا اہلِ خیر موجود ہوں بھی تو کوئی ان کی سن کر نہ دے اور پوری قوم کی قوم اخلاقی فساد کی راہ پر بڑھتی چلی جائے، تو پھر خدا کا عذاب اس کے سر پر اِس طرح منڈلانے لگتا ہے جیسے پورے دنوں کی حاملہ کو کچھ نہیں کہہ سکتے کب اس کا وضع حمل ہوجائے۔
دوسرے یہ کہ جو قوم اپنے درمیان سب کچھ برداشت کرتی ہو مگر صرف انھی چند گنے چنے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو، جو اسے برائیوں سے روکتے اور بھلائیوں کی دعوت دیتے ہوں تو سمجھ لو کہ اس کے برے دن قریب آگئے ہیں، کیونکہ اب وہ خود ہی اپنی جان کی دشمن ہوگئی ہے، اسے وہ سب چیزیں تو محبوب ہیں جو اس کی ہلاکت کی موجب ہیں، اور صرف وہی ایک چیز گوارا نہیں ہے جو اس کی زندگی کی ضامن ہے۔
تیسرے یہ کہ ایک قوم کے مبتلائے عذاب ہونے یا نہ ہونے کا آخری فیصلہ جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دعوتِ خیر پر لبیک کہنے والے عناصر کس حد تک موجود ہیں۔ اگر اس کے اندر ایسے افراد اتنی تعداد میں نکل آئیں جو فساد کو مٹانے اور نظامِ صالح کو قائم کرنے کے لیے کافی ہوں تو اس پر عذابِ عام نہیں بھیجا جاتا، بلکہ ان صالح عناصر کو اصلاحِ حال کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر پیہم سعی وجہد کے باوجود اس میں سے اتنے آدمی نہیں نکلتے جو اصلاح کے لیے کافی ہوسکیں اور وہ قوم اپنی گود سے چند ہیرے پھینک دینے کے بعد اپنے طرزعمل سے ثابت کردیتی ہے کہ اب اس کے پاس کوئلے ہی کوئلے باقی رہ گئے ہیں تو پھر کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ بھٹی سلگا دی جاتی ہے جو ان کوئلوں کو پھونک کر رکھ دے۔
یہ اعتراض کیا جاسکتا تھا کہ ان میں اہلِ خیر کا موجود نہ رہنا یا بہت کم پایا جانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہلِ خیر پیدا کردیے؟ اس کے جواب میں یہ حقیقتِ حال صاف صاف بیان کردی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں کہ حیوانات اور نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اس کو بھی جبلی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنادیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔
اگر یہ اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوتِ ایمان، بعثتِ انبیا اور تنزیلِ کتب کی ضرورت ہی کیا تھی! سارے انسان مسلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لیے پسند کرے، اُس پر چل سکے تاکہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی و کسب کے نتیجے میں پائے۔
پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے، آزادیِ انتخاب اور اختیارِ کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کے راستے پر موڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جو ایک سے بڑھ کر ایک بدکار اور ظالم اور فاسق آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں، اور اللہ اپنی براہِ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کردے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کردیں۔
اس قسم کی مداخلت خدا کے دستور میں نہیں ہے۔ نیک ہوں یا بد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کو خود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔ جو قوم بحیثیتِ مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی جس میں سے کوئی معتدبہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جو نیکی کا جھنڈا بلند کرے، اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں اس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے! وہ تو اس کو اسی انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے۔ البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے تو صرف وہ، جس میں بہت سے افراد ایسے نکلیں جو خود دعوتِ خیر کو لبیک کہنے والے ہوں اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصلاح کی کوشس کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں۔
کفر و اسلام کی اس کشمکش کے دونوں فریق جو کچھ کررہے ہیں، وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہے۔ اللہ کی سلطنت کوئی اندھیر نگری چوپٹ راجا کی مصداق نہیں ہے کہ اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے، شہ بے خبر کو اس سے کچھ سروکار نہ ہو۔ یہاں حکمت اور بردباری کی بنا پر دیر تو ضرور ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ جو لوگ اصلاح کی کوشش کررہے ہیں وہ یقین رکھیں کہ ان کی محنتیں ضائع نہ ہوں گی، اور وہ لوگ بھی جو فساد کرنے اور اسے برپا رکھنے میں لگے ہوئے ہیں، جو اصلاح کی سعی کرنے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، اور جنھوں نے اپنا سارا زور اس کوشش میں لگا رکھا ہے کہ اصلاح کا یہ کام کسی طرح چل نہ سکے، انہیں بھی خبردار رہنا چاہیے کہ ان کے یہ سارے کرتوت اللہ کے علم میں ہیں اور ان کی پاداش انہیں ضرور بھگتنی پڑے گی۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص372، 375)