ملک نواز احمد اعوان کتاب دوست شخصیت

میرا تعارف ملک نواز احمد اعوان صاحب کتابوں پر تبصرے کے حوالے سے ہی ہوا اور تعلق بڑھتے بڑھتے پھر بلاتکلف دوستی میں ڈھل گیا۔ وہ کتابوں کے رسیا تھے۔جو بھی نئی کتاب آتی ان کی کوشس ہوتی کہ فوری طور پر اس کتاب کا تعارف فرائیڈے اسپیشل میں آجائے۔ ملک نواز احمد اعوان جب کراچی میں تھے ان کا ریفریجریٹر اور ایئر کنڈیشنگ رپیئرنگ کی دکان تھی جو کتاب دوستی کا مرکز بن گئی تھی۔ ملک صاحب پھر لاہور آگئے تو ان کے ساتھ اچھا خاصا تعلق بن گیا ۔

پروفیسر سید محمد سلیم اور بہت ساری علمی اور ادبی شخصیات ملک نواز صاحب سے ملنے ان کی دکان پر حاضر ہوتی تھیں۔ کتاب پر تبصروں کا آغاز اس طرح ہوا کہ ملک نواز صاحب سے پہلے جو صاحب تھے جو فرائیڈے اسپیشل میں کتب پر تبصرہ کرنے کی ذمہ داری تھی ان سے کتابیں بھیجنے والوں کو بہت شکایات تھیں پھر فرائیڈے اسپیشل کے مدیر یحییٰ صاحب نے ملک نواز صاحب کو تبصرہ کتب کی ذمہ داری دی، ملک صاحب بڑی دلجمعی اور ذوق شوق کے ساتھ فرائیڈے اسپیشل میں بیس سال تک تبصرہ کرتے رہے۔

میں نے شیبانی فائونڈیشن اسلام آباد سے نئی شائع ہونے والی کتاب ’’مولانا مودودیؒ کا تصور جہاد‘‘ منگوائی اور آئی پی ایس سے نقطہ نظر 42نمبر منگوایا تو ملک نواز صاحب نے مجھے کہاکہ دونوں مجھے بھیج دیں، آخری تبصرہ انہوں نے مولانا مودودیؒ کا تصور جہاد پر ہی کیا، اس کے بعد ان کی طبیعت اچانک بہت زیادہ خراب ہوگئی اور وہ بالکل ہی خاموش ہوگئے۔ میرا ان سے مسلسل رابطہ رہا میں نے پوچھا کیا حال ہے کہنے لگے کہ کمزوری بہت ہے، ڈاکٹروں کو دکھاتے رہے پھر جب بالکل خاموش ہوگئے اور ان کی بیگم صاحبہ نے کہاکہ ملک صاحب تو بالکل خاموش ہوگئے ہیں اور بات ہی نہیں کرتے کل ہم ملک صاحب کو اسپتال میں داخل کروادیں گے۔ اگلے دن ان کو سارا اسپتال داخل کروایا وہیں ان کی موت واقع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے آمین، ان کے ساتھ بہت اچھا وقت گذرا جن کو میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ انہوں نے مجھے مسلسل مصروف رکھا ہوا تھا، اردو بازار سے کوئی کتاب منگوانی ہوتی تو مجھے کہتے بلکہ آئی پی ایس پروفیسر خورشید احمد صاحب کی کتابیں چھپیں وہ بھی میرے ذریعے سے منگوائی کہ نوفل شاہ رخ کو فون کرو کہ وہ کتابیں بھیجے میرا ان سے روزانہ کا تعلق تھا جواب نہیں رہا میرا پرخلوص رابطہ رہتا اب میں اپنے آپ کو خالی خالی محسوس کرتا جس کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ فرائیڈے اسپیشل جمعتہ المبارک کی علی الصبح واٹس ایپ پر آن لائن آجاتا ہے، جس کا مجھے شدت سے انتظار ہوتا ہے، پھر ملک صاحب کا تبصرہ فوری طور پر ان کو بھیج دیتا تھا، دوبارہ رابطہ کرنے پر مجھے کہتے کہ میں نے پڑھ لیا اب فلاں فلاں صاحب کو تبصرہ بھیج دو ان کے بڑے بڑے لوگوں سے رابطے تھے، بہت زیادہ لوگوں کو انہوں نے کام کرنے کی ترغیب دی ان کی وجہ سے لوگوں نے عربی سے اردو ترجمہ کئے، وہ بڑے مہمان نواز تھے، جب میں نے کہاکہ مجھے آنا ہے تو کہتے کیا کھائوگے کتاب میلہ لگتا تو وہاں بھی میران کا اکٹھا جانا ہوتاجو بھی اچھی کتاب ہوتی اس کو خرید کر بھی تبصرہ کرتے۔ ایک دفعہ میں اپنے دوست انجینئر عنایت علی صاحب سے ملنے گیا، انہوں نے مجھے اپنی تین کتابیں ہدیہ کیں جب میں گھر آیا میں نے سوچا کہ میں خود ہی تبصرہ کردوں قائداعظم محمد علی جناحؒ از عنایت علی پر تبصرہ لکھ دیا اور فرائیڈے اسپیشل میں چھپ بھی گیا۔ میں نے ملک صاحب سے کہاکہ آپ کے ہوتے ہوئے اچھا نہیں لگتا تبصرہ کرنا تو انہوں نے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور کہنے لگے آپ تبصرہ کریں اس میں کوئی بری بات نہیں ہے اور کہنے لگے بعض بندے لڑھک بھی جاتے ہیں۔

یہی بات ڈاکٹر سہیل شفیق صاحب سے کی تو انہوں نے کہاکہ ملک صاحب نے مجھے بھی ایسا ہی کہاکہ کوئی بندہ لڑھک بھی جاتا ہے۔ وہ خود ہی اس دنیائے فانی سے چلے گئے اور ہم سب کو سوگوار چھوڑ گئے۔ ملک نواز صاحب کو لوگوں کو ترغیب دینے کا بڑا ذوق وشوق تھا کہ آپ یہ کام کرسکتے ہو یہ کام آپ کو کرنا چاہیے، لوگوں کو کتابیں خود خرید کر پڑھنے کے لئے دیتے۔ مجلس ترقی ادب کے جریدے مکاتیب نمبر مجھ سے منگوایا اور اس کے بعد مزید شمارے بھی منگوائے اور مجھے کہاکہ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کے گھر جاکر صحیفہ ان کو دے کر آئے، یہ ان کا کتاب کے ساتھ محبت کا عملی اظہار تھا، ہمیں بھی ان کی یہی خوبیوں کو اپنانا ہوگا، کتاب دوست افراد دریافت کرنے ہوں گے، کتاب ایک بہت بڑا ذریعہ ہے خیر کو پھیلانے کا، اس سے افراد کے درمیان تعلقات بڑھتے ہیں اور خیر غالب آتا ہے۔میرے تعلقات ملک نواز کی وجہ سے کئی بڑے لوگوں ہوگئے۔ رئوف پاریکھ صاحب اس وقت بہت بڑے ماہر لسانیات و فرہنگ ہیں ان سے میرے تعلقات بڑے اچھے ہیں۔ صرف ملک نواز صاحب کی وجہ سے یاسر عرفات سے ہوئے جو ممتاز کالم نگار اورصحافی ہیں۔ زاہد منیر عامر صاحب جو کتب کثیرہ کے مصنف ہیں ایک دن میں ان کے اورینٹل کالج ملنے گیا تو انہوں نے مجھ سے کہاکہ ملک صاحب کہاں ہوتے ہیں پھر میں نے ان کی بات کروائی، ملک نواز صاحب سے کتاب کی پرموشن کے لئے ان کی خدمات شان دار ہیں ان کی وفات میری زندگی خالی ہوگئی ہے، پورا ہفتہ ان سے رابطہ رہتا پھر جمعہ کے دن ان کا فرائیڈے اسپیشل میں جو بھی تبصرہ آتا وہ علی الصبح بھیج دیتا بعد میں ان کے کہنے کے مطابق اور افراد کو بھیج دیتا بہرحال ان جیسا کتاب دوست مخلص بے لوث نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔