شنگھائی کانفرنس سے قبل سابق اور موجودہ نائب وزرائے خارجہ کی بھارت اور پاکستان میں بہ یک وقت موجودگی؟
کیا امریکہ نے کشمیر پر لاتعلقی اور معاندت کا طویل دور گزارنے کے بعد ایک بار پھر کشمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کی دھوم دوبارہ مچنے والی ہے؟ یہ سوال اُس وقت سامنے آیا جب امریکہ کی معروف سابق سفارت کار مسز رابن رافیل عین اُس وقت اسلام آباد میں موجود تھیں جب اُن کے حاضر سروس امریکی جانشین اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی و وسطی ایشیا مسٹر ڈونلڈ لو بھارت میں موجود تھے۔ ڈونلڈ لو وہی شخصیت ہیں جو ان دنوں ایک سائفر نما ہدایت نامے کی بنیاد پر پاکستان کے سیاسی تنازعے کا مرکزی کردار بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح ان کا نام پاکستان کے جلسوں جلوسوں میں زیر بحث رہا ہے پاکستان میں شاید ہی کسی غیر ملکی کا نام اس طرح فضائوں میں گونجتا رہا ہو۔ اس شہرت کا نقصان یہ ہوا کہ ڈونلڈ لو سرِدست پاکستان آنے سے قاصر ہیں۔ ڈونلڈ لو بھارت میں پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کے پرزوں کی فراہمی کے حوالے سے میڈیا میں صفائیاں پیش کرتے رہے، وہ بھارت کو ”کواڈ“ میں چین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ اس کے ساتھ ان کا دورہ شنگھائی کانفرنس سے چند دن کی دوری پر ہوا، مگر یوں لگتا ہے کہ مسٹر ڈنلڈ لو کو بھارت کو چین اور روس سے مکمل طور پر دور رکھنے کے مقصد میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ ایسے میں ان کی سابق ہم منصب مسز رابن رافیل اسلام آباد میں پائی گئیں۔
رابن رافیل نے اسلام آباد میں سابق وزیراعظم عمران خان سے بھی اہم ملاقات کی۔ عمران خان سے وہ ذاتی حیثیت میں ملیں یا ان کے پاس امریکہ کے پالیسی سازوں کا کوئی پیغام تھا؟ یہ حقیقت تو وقت کے ساتھ ساتھ کھلے گی، مگر یہ بات اب عیاں ہوچکی ہے کہ امریکہ پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان کو نظرانداز کرنے یا مسلسل ناراض رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس ملاقات کے بعد عمران خان نے ایک بار پھر امریکہ مخالف ہونے کے تاثر کی تردید کرتے ہوئے امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات کی حمایت کی ہے۔ رابن رافیل کے دورے کا ایک مقصد تو یہ بھی ہوسکتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلام آباد میں اپنی موجودگی ظاہر کرکے بھارت کی دُم پر پائوں بھی رکھ رہی تھیں۔ یوکرین کے مسئلے پر بھارت کی آزاد روی کی پالیسی نے امریکہ کو کسی حد تک مایوس کیا ہے اور اسے یہ خدشہ ہے کہ اسی طرح کسی فیصلہ کن موڑ پر بھارت چین کے خلاف استعمال ہونے سے پہلوتہی کرسکتا ہے۔ چین اور روس دونوں بھارت کے اس کردار کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لے رہے۔ ظاہر ہے اس بات کو امریکہ میں اچھا نہیں سمجھا جارہا ہوگا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت سے یہ مایوسی امریکہ کو پاکستان کی طرف دوبارہ رجوع کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے ساتھ اس طرح کی آنکھ مچولی مدتوں سے جاری ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب مسز رابن رافیل صدر کلنٹن کی حکومت میں اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا کا منصب سنبھالے ہوئے تھیں امریکہ نے کشمیر پر ایک واضح لائن اختیار کرکے بھارت کو اپنے ساتھ تعلقات پر مجبور کیا تھا۔ صدر کلنٹن اُس وقت مسئلہ کشمیر کو بھی فلسطین کے اوسلو معاہدے اور آئرلینڈ طرز پر حل کرکے مشرق وسطیٰ اور یورپ کے بعد جنوبی ایشیا کے اس دیرینہ تنازعے کے حل کی بنیادوں کا کریڈٹ اپنے سر لینا چاہتے تھے، مگر بھارت کی سخت گیر پالیسی نے اس کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔ رابن رافیل کشمیر پر جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کی حامی رہی ہیں۔ اس لیے ان کے دورے کے پس منظر میں یہ امکان موجود ہے کہ امریکہ ایک بار پھر سفارتی راہداریوں میں بھولے بسرے پرویزمشرف فارمولے کو تازہ کرسکتا ہے۔ رابن رافیل بل کلنٹن کے ہنگامہ خیز دور میں امریکہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے عہدے پر کام کرچکی ہیں اور اس حیثیت میں ان کا پاکستان اور بھارت کی قیادتوں اور کشمیری نمائندوں سے قریبی تعلق رہا ہے۔ انہیں کلنٹن انتظامیہ نے کشمیر کے مسئلے کو سمجھنے اور سلجھانے کا ہدف بھی دیا تھا۔ اس طرح وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دونوں ملکوں کو قریب لانے کے لیے غیر اعلانیہ سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ رابن رافیل نے 2017 ء میں امریکہ میں سری نگر کے صحافی پرویز مجید کو دورئہ امریکہ کے دوران اہم انٹرویو دیا تھا جس سے ان کے خیالات کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ انٹرویو بھارتی اخبار ”ریڈف“ میں تین قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ رابن رافیل کا انٹرویو ’’کشمیر سینٹرک‘‘ تھا، مگر اس میں پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بھی کئی اہم باتیں کی گئی تھیں۔ وہ بھارت میں مودی حکومت کے سخت گیر رویّے کے باعث حالات سے مایوس نظر آرہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور دنیا کے لیے بھارت کی قابلِ تعریف بات مختلف مذاہب اور قومیتوں کے مابین توازن تھا اور وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے۔ اب اس کے برعکس ہورہا ہے۔ یہ نئی پالیسی اچھی نہیں، اور اس کا جاری رہنا بھارت کی بدقسمتی ہے۔ رابن رافیل کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے کئی مواقع ملنے کے باوجود یہ مسئلہ ابھی تک سلگ رہا ہے۔ رابن رافیل نے لگی لپٹی رکھے بغیر کشمیر کے حالات کی ذمہ داری بھارت پر عائد کی جس نے طاقت کے استعمال کو مسئلے کا حل سمجھ کر اقدامات اُٹھائے اور ایک چھوٹے سے علاقے میں فوج کی اس قدر بڑی تعداد تعینات کررکھی ہے۔ رابن رافیل کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ برسوں میں وادی میں تشدد کم ہوا تھا تو یہ بھارت کی طرف سے مسئلے کو حل کرنے کا اچھا موقع تھا۔ کشمیر کا مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کے مذاکرات سے حل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے تین فریقوں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کو مل کر بات چیت کرنا ہوگی۔ ان کے مطابق پرویزمشرف کا دور مسئلے کے حل کا اچھا موقع تھا جب ماحول نظریاتی کشمکش اور کشاکش سے باہر آگیا تھا۔ ان کے مطابق اب بھی مسئلہ پرویزمشرف کے چار نکاتی خطوط پر حل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں امریکہ کو دونوں ملکوں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ مذاکرات کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو سب سے اوپر رکھیں۔ دہلی اس وقت قابض قوت کے طور طریقوں سے مسئلہ حل کررہا ہے۔ مسئلہ موجود ہے اور اسی لیے کشمیر کے لوگ سڑکوں پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کی بات ہوگی تو پھر سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عسکریوں سے بھی بات کرنا ہوگی۔ جب آپ یہ قید لگاتے ہیں کہ فلاں سے مذاکرات کرنا ہیں، فلاں سے نہیں تو اس سے مذاکرات کے خواہش مندوں کے لیے اسپیس باقی نہیں رہتی۔ رابن رافیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کسی ایک ملک کو نہیں مل سکتا، نہ مستقبل قریب میں سرحدوں میں ردوبدل کا کوئی امکان ہے، لیکن بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیریوں اور پاکستان کو شامل کرنا ہوگا۔ پانچ سال پہلے رابن رافیل کے خیالات سے اُن کے دورے اور مستقبل کے حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔