جب میں اس شہر ناپرساں جس کا نام کراچی ہے‘ آج سے تقریباً نصف صدی قبل آیا تھا تو اس کا حال اتنا بھی برا نہ تھا جتنا اب ہے۔ آبادی اتنی نہ تھی۔ جان، مال، عزت و آبرو اتنی غیر محفوظ نہ تھی۔ گھومنے پھرنے، تفریح کرنے، گپ شپ لگانے اور وقت کو اچھے طریقے سے گزارنے کے ٹھکانے موجود تھے۔ شہر میں شعر و ادب کا چرچا تھا، تفریح کے لیے سینما ہائوس اور پارک، ساحل سمندر اور عمدہ قسم کے ریسٹورنٹ بھی دسترس میں تھے۔ فرصت تو تھی ہی، فرصت کے اوقات کہاں گزارے جائیں یہ بھی پتا تھا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تب ملک بھر میں طلبہ یونینیں تھیں۔ الیکشن ہوتے تھے، مشاعرے اور ذہنی آزمائش کے پروگراموں سے طلبہ کی چھپی ہوئی صلاحیتیں سامنے آتی رہتی تھیں۔ بے ایمانی اور بدعنوانی کی ایسی صورت حال بھی نہ تھی۔ جو راشی افسران تھے وہ معاشرے میں ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ کردار و سیرت کو آدمی کا زیور سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں کی عزت تھی۔ بے پردگی تھی مگر نگاہوں میں وہ ہوس نہ تھی کہ عورتوں کا گھروں سے نکلنا پریشان کن ہو۔ لائبریریوں اور ریستورانوں میں شاعروں اور ادیبوں کی محفلیں جمتی تھیں۔ گفتگو اور بحث و مباحثے ہوتے تھے، مگر ادب آداب اور سلیقے کے ساتھ۔ جرائم کا تناسب کم تھا، کوئی غیر معمولی واقعہ جرم کا پیش آتا تو سارے شہر میں تھرتھلی مچ جاتی تھی، قربِ قیامت کی نشانیاں تب بھی تھیں مگر اتنی نہیں جتنی اب ہیں۔ بندر روڈ میں ٹرامیں چلتی تھیں اور بگھیاں اور گھوڑا گاڑی بھی سفر کے لیے میسر تھیں، اخبارات دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے، ایک سے بڑھ کر ایک کالم نگار، قطعہ نگار اور کارٹونسٹ موجود تھے۔ ہاکر حضرات منہ اندھیرے اخبار، اور گوالے دودھ دے جاتے تھے۔ سویرے اٹھنا بھی ایک اچھی عادت سمجھی جاتی تھی۔ زندگی کرنے اور زندہ رہنے کی آرزو دل میں مچلتی رہتی تھی۔ ایسا نہ تھا کہ یہ سوچیں کہ اس طرح زندگی کیسے گزرے گی اور کب تک یہ دکھ اور صعوبتیں ہم جھیلیں گے۔ ایسے منفی، تخریبی احساسات اندر پیدا ہی نہ ہوتے تھے۔ کراچی میں رہنا دوسرے شہروں کے باسیوں کی ایک تمنا ہوتی تھی۔ اُس زمانے میں کراچی میں رہنا ایسا ہی تھا جیسے آج دبئی اور نیویارک میں رہنا۔ میں کراچی سے ہزار میل دور کے فاصلے پر رہتا تھا، اسکول میں پڑھتا تھا مگر اخبارات کے ذریعے کراچی سے اچھی طرح واقف تھا اور یہاں آنے کی آرزو دل میں چٹکیاں لیتی رہتی تھی، اور جب یہاں آیا تو اس شہر کو ویسا ہی پایا جیسا پڑھا تھا اور جیسا سنا تھا۔ لاہور، لاہور تھا تو کراچی بھی کراچی ہی تھا۔ پھر جانے کیا ہوا۔ کسی کی نظر لگی یا اس شہر کے نصیب پھوٹے کہ ایک ہنگامہ دار و گیر شروع ہوا، ایسے نعرے، ایسے جلسے جلوس اور ایسی ہنگامہ آرائی اس شہر کا مقدر بنی کہ کشت و خون عام ہوگیا۔ بوری میں بند لاشیں ملنے لگیں، اعلان ہوتا اور گاڑیاں دھڑا دھڑ نذرِ آتش کردی جاتیں۔ پہیہ جام ہڑتال اور سناٹا… اور سناٹے میں تڑاتڑ گولیوں کی آوازیں اور وہ قیامتِ صغریٰ مچتی کہ الامان والحفیظ۔ جو کچھ بیس تیس برسوں میں اس شہر میں ہوا، اس کی خونیں داستان تو ابھی لکھی بھی نہیں گئی۔ کوئی تحقیق و تفتیش کرے تو ایسی انسانی اور غیر انسانی کہانیاں سننے اور پڑھنے کو ملیں گی کہ کمزور دل والے حضرات تو شاید برداشت بھی نہ کرسکیں۔ یہ خون آشام زمانہ جیسے تیسے گزر گیا، اب ماضی کی بے نام باقیات ہیں۔ شہر کا حال دن بدن ناگفتہ سے ناگفتہ بہ ہوتا جارہا ہے۔ جب بھی خدا کی رحمت برستی ہے شہر مکمل زحمت ہی زحمت بن جاتا ہے جس کی ذمہ دار شہر کی انتظامیہ اور متعلقہ ادارے ہی ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے شرفاء جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تھے، ان کی بڑی تعداد شہر چھوڑ چکی ہے۔ کچھ اندرون ملک کسی اور شہر میں منتقل ہوگئے یا امریکہ اور کینیڈا میں سکونت اختیار کرلی، مگر اب بھی کروڑوں کی آبادی ہے، کم از کم دو ڈھائی کروڑ تو بستے ہی ہوں گے۔ آبادی بھی یہاں کی گھٹا کر بتائی جاتی ہے تاکہ اس کے حقوق پامال کرنے میں آسانی رہے۔ لے دے کے ایک ہی سیاسی مذہبی جماعت رہ گئی ہے جو پورے خلوص کے ساتھ اس شہر کی بہتری چاہتی ہے۔ ورنہ تبدیلی کے نام پر ووٹ لینے والی جماعت بھی اس شہر کے آنسو پونچھنے کی روادار نہ ہوئی۔ امید تھی کہ حافظ نعیم الرحمٰن شہر کے میئر بنیں گے تو کچھ تو اس شہر کے حالات بدلیں گے، لیکن بغیر کسی وجہ اور سبب کے بلدیاتی انتخابات ہی ملتوی پر ملتوی کیے جارہے ہیں، دوسری جماعتیں جنہیں معلوم ہے کہ انتخابات میں ان کی ناکامی یقینی ہے اور لوگ باگ ان پر اب مزید اعتماد نہیں کریں گے، انتخابات کا انعقاد چاہتی ہی نہیں۔ اب رہ گئے حافظ نعیم الرحمٰن، تو وہ کراچی کو اس کا حق دو کا نعرہ لگائے جاتے ہیں لیکن ان کی سنتا کون ہے! لیکن وہ ’’کیے جائو کوشش مرے دوستو‘‘ کے مصداق کراچی کے لیے، اس کے حقوق و مفادات کے لیے ہمت کسے ہوئے ہیں۔ اب دیکھیے انہیں اس شہر کو سنوارنے کا موقع ملتا بھی ہے یا نہیں۔ نصف صدی قبل کا کراچی جو اب بھی ہمارے حافظے میں روشن ہے، وہ زمانہ جا کر بھی ہمارے اندر زندہ ہے۔ لیکن ہمارا وجود اسی کراچی میں رہ بس رہا ہے جہاں رہنا بسنا دن بدن دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ لاقانونیت سے تنگ آئے شہریوں نے ڈاکوئوں کو خود اذیتیں دے کر مارنا شروع کردیا ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ڈرنا اُس وقت سے چاہیے جب شہری بلبلا کر شہر کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ اس لیے کہ ظلم و زیادتی اور ناانصافی و بے حسی اور سنگ دلی کے رویوں سے تنگ آئے لوگ کب تک سہیں اور کب تک برداشت کریں! لوگ یہاں کے کہتے ہیں ہم نے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔ ہاں کراچی والوں کو ناکردہ گناہی ہی کی سزا مل رہی ہے۔ لیکن کب تک؟
(ڈاکٹر طاہر مسعود۔ روزنامہ 92،ہفتہ 17 ستمبر 2022ء)