آیا چورن مزے دار!

کچھ دن گزرتے ہیں، ایک ادیب کو ایک تقریب کا مہمانِ خصوصی بننے کی دعوت دی۔اس ’خصوصیت‘ پر خوش ہو کر فرمایا:
’’آپ کی کرم نوازی ہے‘‘
پوچھا: ’’وہ کیسے؟‘‘
گڑبڑا کر چپ ہو گئے۔ اگرموصوف کا نام ’پروفیسر کرم علی حیدری‘ ہوتا تو اُن کی بجائے ہم چپ ہو جاتے، یہ سوچ کر کہ شاید کرم صاحب کو اس اعزازسے نوازا جانا ’کرم نوازی‘ ہی کہلائے، ’اقربا نوازی‘ کی بجائے ۔ مگر ہم چپ نہ رہ سکے۔ سو،ادیب صاحب کو نہایت ادب سے سمجھایا: حضور! کرم کیا جاتا ہے، کرم فرمایا جاتا ہے،کرم کو ’نوازا‘ نہیں جاتا۔ دیکھیے نا! کراچی کے للکارنے والے بھی ایک دوجے کو منظرؔ بھوپالی کے الفاظ میں للکارتے پھرتے ہیں: ’’ستم کرو گے ستم کریں گے، کرم کرو گے کرم کریں گے، ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے …‘‘
اسی طرح احمد ندیمؔ قاسمی کے مشہور نعتیہ شعر میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو بھی ’کرم فرمانے‘ سے تعبیر کیا گیا ہے :
اُس نے اُس وقت زمانے پہ کرم فرمایا
جب جہاں دھوپ سے چیخ اُٹّھا تھا سایا سایا
عصر حاضر کے اکثر تجارتی ادارے اپنے صارفین کو ’کرم فرما‘کہتے ہیں۔ٹھیک کرتے ہیں۔لوگ کرم نہ فرمائیں توکاروبار کیسے چلے؟ یہی کاروباری ادارے اس دو لفظی ترکیب کی ایک دلچسپ جمع بھی بنا لیتے ہیں: ’’تمام کرم فرماؤں سے گزارش ہے …‘‘ بعض اوقات یہ گزارشات ایسی ہوتی ہیں کہ ’تمام کرم فرما‘سوچ میں پڑ جاتے ہیں ۔ ’’ اب مزید کرم فرماؤں کہ نہ فرماؤں؟‘‘
ذرا ٹھیریے، آگے بڑھنے سے پہلے ہم سجدۂ شکر ادا کرلیں۔خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے، نمک خورے کو نمک۔’نمک خورا‘یہ کالم نگار ہے کہ ذراسی بات مل جائے تو نمک کالی مرچ لگا کر چٹخارے دار چورن بنا لیتا ہے۔ پھر محفل محفل صدا لگاتا ہے ’’آیا چورن مزے دار!‘‘
’کرم‘ کے معنی ہیں مہربانی، عنایت، بخشش، در گزر، بزرگی،شرافت، عزت، نفاست اور فیاضی۔ کسی کو عزت یا بخشش دی جائے، مہربانی، عنایت یا فیاضی کی جائے تو اس فعل کو ’کرم کرنا‘ یا ’کرم فرمانا‘ کہا جاتا ہے۔حضرت علیؓ کے اسمِ گرامی کے ساتھ ہم ’’کَرَّّمَ اللہ وَجْہَہٗ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے آپؓ کے چہرۂ مبارک پر کرم فرمایا اور مہربانی کی۔حضرت علیؓ کا شمار اُن صحابہ میں ہوتا ہے، جو اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی شرک اور بت پرستی میں مبتلا نہیں ہوئے۔اولیاء اللہ اوربزرگوں سے جو خارق العادت واقعات اللہ سرزد کراتا ہے اُسے ’کرامت‘کہتے ہیں۔ کرامت کے لغوی معنی ’بزرگی‘ ہیں۔
’الکریم‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک اسمِ حسن ہے، جس کے معنی ہیں صاحبِ کرم، در گزر کرنے والا، سخی، دیالُو، داتا اور عزت والا۔ ’کریم‘ کا لاحقہ ہرپاکیزہ، نفیس اور باعزت چیز یا باعزت ہستی کے ساتھ لگاسکتے ہیں، مثلاً نبیِ کریمؐ،قرآنِ کریم،رزقِ کریم، اور شانِ کریم وغیرہ۔ اقبالؔ کی شاعری کے ابتدائی زمانے کا شعر ہے:
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
کسی کو ’کریم‘ قرار دینے یعنی کسی کی عزت کرنے کا عمل ’تکریم‘ کہلاتا ہے۔کریم کی جمع ’کرام‘ ہے۔ چوں کہ ہم اپنے علما کی تکریم کرتے ہیں،چناں چہ انھیں ’علمائے کرام‘ کہتے ہیں۔ ہماری ہرہر حرکت کاثبوت جمع کرتے رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے دونوں شانوں پرجو دو عزت دارفرشتے مقرر کر رکھے ہیں، وہ ’کراماً کاتبین‘ ہیں۔ جو شخص صاحبِ عزت و بزرگی ہو اُسے ’مکرّم‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے دوست سید مکرم علی کا شمار بھی انھیں لوگوں میں کیجیے۔ ایسے مردِ مکرّم کو خط لکھنا پڑ جائے تو ’محترمی‘ لکھنے کے بعد ’مکرمی‘ بھی لکھنا پڑتا ہے۔ مکرم کی تانیث ’مکرمہ‘ ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی جائے ولادت بننے کا شرف حاصل کرنے والے شہر کومَکَّۃُ المُکَرَّمہ کہا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ عزت اور سب سے زیاد بزرگی والا ’اکرم‘ ہوتا ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر13میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم لوگوں میں سب سے زیادہ عزت دار،VIP، اور سب سے زیادہ بزرگی والا (اَکْرَمَکُم) وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو،تم میں سب سے زیادہ خوفِ خدا رکھنے والا ہو اور اللہ کی نافرمانی سے بچنے میں تم سب سے بڑھاہوا ہو۔
ظلم و ستم اوررحم و کرم کے الفاظ بالعموم ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ’کرم نوازی‘ کی ترکیب تو ’غلط العوام‘ ہو کر عام ہو گئی ہے۔ مگر ظلم نوازی، ستم نوازی یا رحم نوازی کی تراکیب سے زبان و بیان کو ابھی تک نہیں نوازاگیا۔ جہاں تک نوازنے کا تعلق ہے تو اس کی اصل ’نوازش‘ ہے، جو ’نواختن‘ سے حاصلِ مصدر ہے۔ نوازش کا مطلب بھی عنایت، کرم، مہربانی، بخشش اور فیاضی ہے۔ فارسی لغت میں نوازش کا ایک مطلب تسلی دینااور ’پیار سے ہاتھ پھیرنا‘ بھی درج ہے۔ پس کرم اور نوازش مترادف الفاظ ہیں۔ اسی باعث جنابِ حمایت علی شاعرؔ نے اپنے ایک فلمی گیت میں فرمایا اور جنابِ مہدی حسن نے بڑے پیار سے منہ بگاڑ بگاڑ کر گایا:
نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی
مجھے بخش دی آپ نے زندگانی
الغرض ’کرم نوازی‘ درست ترکیب نہیں ہے۔ لہٰذا کرم پر نوازش نہ کیجیے۔ یوں کہیے کہ ’آپ کی کرم فرمائی ہے‘۔ ذرّے پر البتہ نوازش ہو سکتی ہے۔ آپ چاہیں تو ذرّے کو نواز، نواز کر صحرا کر ڈالیں۔ نوازش بڑھ جائے تو ذرّے کا رتبہ مہر و ماہ سے بھی بڑھادیجیے۔ اسی کو ’ذرّہ نوازی‘ کہتے ہیں۔دلوں کو نوازنے والا ’دلنواز‘ ہوتا ہے، سماعتوں کو نوازنے والا ’سامعہ نواز‘، بندوں کو نوازنے والا ’بندہ نواز‘ اور غریبوں کو نوازنے والا ’غریب نواز‘ ۔کوئی مردِ شریف فقط اپنے آپ ہی کو نوازے چلا جائے تو خدا جانے اُسے کیا کہتے ہیں۔ ہمارے بھائی نعیمؔ عارفی مرحوم نے اپنی طبعی خوش مزاجی و خوش فہمی کے سبب اس ’خود نوازی‘ کوخداکی نوازش سمجھ لیا تھا۔ فرمایا : ’’خدا نواز رہا ہے تجھے …‘‘
کچھ عرصہ قبل تک ہمارے ہاں طبلہ بجانے والوں کو طبلچی کہا جاتا تھا۔ایک روز ’ریڈیو پاکستان کراچی‘ میں کسی کو خیال آیا کہ یہ اُستادانِ فن طبلہ بجاتے نہیں، طبلے کو ’نوازتے‘ ہیں۔ چناں چہ اُس روز سے ریڈیو پاکستان پر طبلچیوںکو ’طبلہ نواز‘ کہا جانے لگا۔ ڈھول بجانے والوں پر اب تک کسی کی نظرِ کرم نہیں پڑی۔یا یوں کہیے کہ اُن پر ’کرم نوازی‘ نہیں کی گئی۔ وہ رہے ڈھولچی کے ڈھولچی۔اس کے باوجود ’ڈھول نوازی‘ سے باز نہیں آتے۔ دیکھیے، ذرائع ابلاغ سے جو بھی اصطلاح عام کی جائے وہ زباں زدِ خاص و عام ہو جاتی ہے۔ خواہ کیسی ہی نامانوس کیوں نہ ہو۔ اَدق سے اَدق لفظ بھی مسلسل سنتے سنتے کانوں کو مانوس اور بھلا لگنے لگتا ہے۔ اس تجربے کی روشنی میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ذرائع ابلاغ وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو عوام پسند کرتے ہیں۔ تجربہ تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہی زبان عوام کی پسندیدہ زبان بن جاتی ہے جو ذرائع ابلاغ سے مسلسل اور متواتر اُن کے کانوں میں اُنڈیلی جاتی رہے۔
یہ نہ جانیے گا کہ خدانخواستہ ہمیں طبلوں اور طبلچیوں کے نوازے جانے پر اعتراض ہے۔نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ اُردو کی ہم شیر زبان فارسی اور ہمارے برادر ہمسایہ ملک ایران میں ساز بجانے کو ’نوازِندگی‘ کہا جاتا ہے اور ساز بجانے والے کو ’نوازِندہ‘۔ یہاںہم اُردو میڈیم لوگ اپنی اپنی بھینسوں کے آگے بین بجاتے رہتے ہیں، مگر اہلِ فارَس اپنی والیوں کے حضور ’نَے نوازی‘ کرتے ہیں۔