بارہواں باب:ہم میں سے ہر ایک کیا کرسکتا ہے؟

آخری حصہ

موسمی تبدیلی جیسی بڑی آفت کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرنا آسان ہے۔ مگرتم بے بس نہیں ہو۔ اس معاملہ میں ، تمہارا اہم کردار ادا کرنے کے لیے سیاست دان یا بڑی سماجی شخصیت ہونابھی ضروری نہیں۔ ایک شہری ، صارف، آجر، یا اجیرکے طورپر تمہارا کردارمؤثرہے۔
جب تم خود سے یہ سوال کرتے ہو کہ بطور ایک شہری بدلتے موسم کا سامنا کیسے کرسکتے ہو، کاربن اخراج کی کمی میں کیا کردار ادا کرسکتے ہو، توذہن اس خیال کی طرف جاسکتا ہے کہ بجلی سے چلنے والی گاڑی چلائی جائے اور گوشت کا استعمال کم سے کم کردیا جائے۔ اس قسم کا ذاتی عمل یا پیشرفت اہم ہے۔
تاہم کاربن اخراج کا بڑا حصہ اُس بڑے نظام سے متعلق ہے جوہماری روز مرہ زندگی چلاتے ہیں۔ جب کسی کوناشتے کے لیے ڈبل روٹی کی ضرورت پڑے، اُسے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ڈبل روٹی کی تیاری اس طرح ممکن بنائی جائے کہ فضا میں گرین ہاؤس گیس کا اضافہ نہ ہو۔ بدلتے موسم کا مسئلہ ڈبل روٹی پر سے ہاتھ اٹھانے سے حل نہیں ہوگا۔ لوگوں سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ ڈبل روٹی کھانا چھوڑدیں بلکہ توانائی کے نئے نظام کے ذریعہ وہ طریقہ کار قابل عمل بنانا ہوگا کہ جوکاربن اڑائے بغیرڈبل روٹی تیار کرسکے۔ مگر یہ نیا توانائی نظام سیاسی اقدام کا متقاضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر سیاسی شراکت داری کلیدی ہے۔
سیاست دانوں سے ملاقاتوں میں مجھ پر واضح ہوا کہ اُن کی پلیٹ میں صرف بدلتے موسم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تعلیم، روزگار، صحت، خارجہ پالیسی، اور اب کووڈ 19- جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔ یہ سب اُن کی ذمہ داری ہے اور انہیں ان پر توجہ دینی چاہیے۔ تاہم پالیسی ساز بہ یک وقت بہت سارے مسائل ایک ساتھ لے کرچلتے ہیں۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس سلسلہ میں کیا کرنا ہے، کس کام کو کتنی ترجیح دینی ہے، اور ماہرین کیا کہہ رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ منتخب حکام ووٹرز کے مطالبہ پروہ واضح منصوبے بناسکتے ہیں کہ جوموسمی آفتوں کا رستہ روک سکیں۔ اس حوالے سے میں دنیا بھر میں سرگرم افراد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، کہ جن کی وجہ سے کروڑوں لوگ اب کاربن فری پالیسیوں کی ضرورت پر زوردے رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مطالبوں کو عمل میں ڈھال دیا جائے۔ سیاست دان سخت فیصلے کریں اور کاربن کی کمی کے وعدے پورے کریں۔ لوگوں کو چاہیے کہ سیاسی حکام کویہ سوچنے پرمائل کریں کہ تعلیم ، صحت، اور روزگار کی مانند بدلتے موسم پربھرپور توجہ دیں اور طویل المیعاد پالیسی اختیار کریں۔
موسمی آفتوں سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ مقامی دائرے میں بھی کوششیں ضروری ہیں۔ گورنرز، مئیرز، ریاستی قانون ساز، اور شہری کاؤنسلیں اس سلسلہ میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہیں۔ جہاں جہاں لوگ انفرادی سطح پرحلقہ اثرمیںجوکردار ادا کرسکتے ہیں، ضرور ادا کریں۔
یقینا، بطور صارف تم اہم کردار ادا کرسکتے ہو۔ منڈی پرمانگ اور ترسیل کے اصول کی حکمرانی ہے، اور تم بطور صارف ’’مانگ‘‘ میں مساوی صورت پیدا کرسکتے ہو۔ اگر ہم میں سے ہر فرد خرید وفروخت کے طریقوں میں تبدیلی لائے، اجتماعی طورپربہت بڑی تبدیلی کا باعث بن جائے گا۔ مثال کے طورپر تم ایک تھرمو اسٹیٹ نصب کرنے کی استطاعت رکھتے ہو اور ایسا کرتے بھی ہو، اس طرح گھر سے باہر ہوتے ہوئے بھی توانائی کا محدود اور مؤثر استعمال کرسکتے ہو۔ اس طرح تمہارے یوٹیلٹی بل اور گیس اخراج میں کمی آئے گی۔ ظاہر ہے صرف تمہارے ایسا کرنے سے کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئے گی، لیکن جب سب ایسا کریں گے، بڑی اور نمایاں تبدیلی آئے گی۔
اس طرح صنعتی کمپنیاں اور ادارے بھی کم کاربن مصنوعات کی تیاری پرتوجہ دیں گے، اور صارف کی مانگ پرترسیل ممکن بنائیں گے۔ اس طرح کم کاربن مصنوعات کی قیمتوں میں از خود دھیر ے دھیرے کمی آجائے گی۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد کم کاربن مصنوعات پربڑھے گا اور بتدریج پختہ ہوجائے گا۔ یوں یہ صورتحال عام ہوجائے گی۔ دنیا کاصفر کاربن تک کا کام آسان ہوجائے گا۔
جب تک منڈی میں کم کاربن مصنوعات کی ’’مانگ‘‘ کے اشارے نہیں ملتے، آگے بڑھنا بہت مشکل ہوگا۔ ایسی صورت میں ساری جدتیں، حکومتیں، اور سرمایہ کاری شیلف میں ہی سجے رکھے رہ جائیں گے۔
بطور آجر یا اجیر تم اپنی کمپنی پراثر انداز ہوسکتے ہو۔ یقینا بڑی کمپنیاں اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ خاص طورپرکہ جب یہ مقامی چیمبر آف کامرس جیسی تنظیموں کے اشتراک سے کام کریں۔ چند قدم زیادہ آسان ہیں ، جیسے کہ شجرکاری کی مہم۔ اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ تم موسمیاتی تبدیلی کی پروا کرتے ہو۔ مگر صرف آسان قدم اٹھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ نجی شعبہ کوبھی مشکل قدم اٹھانے ہوں گے۔ مثال کے طورپر ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کا رسک لینا، کہ جن میں نقصان کا خدشہ موجود ہو۔ مگر صاف توانائی کا رستہ اسی طرح صاف ہوگا۔ بڑی کمپنیاں بڑے چیلنجز کا سامنا کریں گی ، اور گرین پرمئیم کو زیادہ سے زیادہ کم کرسکیں گی۔ اسی طرح فولاد اور سیمنٹ کی بڑی نجی کمپنیاں مل کرمتبادلات کی جانب تیزی سے قدم بڑھائیں ، اس طرح تعمیراتی شعبہ کی منڈی درست سمت میں آگے بڑھ سکے گی۔
حکومتوں کی مانند نجی کمپنیاں نئی ٹیکنالوجی سے تیار کم کاربن مصنوعات کی خریداری میں بھرپور حصہ لے سکتی ہیں۔ یہ کمپنیاں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں خریدسکتی ہیں، انہیں کمپنی ملازمین میں رواج دے سکتی ہیں۔ اپنی عمارتوں کی تعمیر میں صاف بجلی کا استعمال اور کم کاربن مصنوعات کا استعمال ممکن بناسکتی ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سی بڑی کمپنیاں یہ کام کررہی ہیں۔ ان میں مائیکروسوفٹ، گوگل، ایمازون، اور ڈزنی نمایاں ہیں۔ شپنگ کمپنی مئیرسک کہہ چکی ہے کہ سن 2050تک کاربن اخراج صفر کردے گی۔
آخری بات
بد قسمتی سے موسمیاتی تبدیلی پر گفتگومتحارب ہوچکی ہے، اور اس کی وجوہات معلومات میں تضاد اور الجھی ہوئی کہانیاں ہیں۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پرچھائے بادل دور کرنے ہوں گے، اسے فکر انگیز اورتعمیر ی بنانا ہوگا۔ ہم سب کو اس معاملہ میں واقعیت پسند ی اور منصوبہ بندی سے پیشرفت کرنی ہوگی، اور صفرکاربن تک کا سفرطے کرنا ہوگا۔
میں آرزو کرتا ہوں کہ چند جادوئی ایجادات ہماری گفتگو کوتعمیری طرز پر درست سمت میں آگے لے جانے میں معاون ہوں گی۔یقیناً اس وقت ایسا کوئی آلہ موجود نہیںہے۔
مجھے امید ہے کہ حقائق کے تبادلہ پرمشتمل گفتگو کا یہ سلسلہ ہماری زندگی میں چلتا رہے گا، اور بعد کی نسلوں تک منتقل ہوگا۔ اس کتاب کے لکھنے کا ایک واضح مقصد مباحث اور گفتگوکا ایسا سلسلہ شروع کرنا ہے، کہ جوموسمیاتی تبدیلی کی اہمیت عام کردے۔
موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلارہا ہے، مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہونا مشکل ہے۔ مگر بقول میرے دوست ہینس روزلنگ ، جس نے اپنی شاندار کتاب Factfulness:میں لکھا ہے کہ جب ہمارا تصور جہاں مبنی بر حقائق ہو، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا اتنی بری نہیں جتنی لگتی ہے، اور ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
جب ہمارے سامنے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں حقائق نمایاں ہوں گے، حل کی جانب منزل بھی آسان ہوگی۔ میں پرامید ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ٹیکنالوجی کیا کچھ حاصل کرسکتی ہے، اور یہ کہ لوگ کتنی اور کیسی کوششیں کرسکتے ہیں۔ میں اُس جذبے سے بہت متاثر ہوں جومیں نے لوگوں میں اس حوالے سے دیکھا اور محسوس کیا ہے، خاص طورپر نوجوانوں میں۔اگر صفر کاربن کی منزل تک پہنچنا ہے، بڑے ہدف پر نظر رکھنی ہوگی۔ آنے والی نسلوں کے لیے دنیا کو محفوظ بنانا ہوگا۔