خاندانیت

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی کتاب کی تقریب رونمائی پاکستان میں خاندانیت کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہے

آج کی تقریب میں اصحاب علم و دانش کی موجودگی کے باوجود دو افراد کی کمی محسوس ہو رہی ہے ایک تو محترم سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان جو ملائیشیا کے دورے پر ہیں‘ یہ ناچیز ان کی کمی تو نہیں صرف خانہ پُری ہی کرسکے گا۔ دوسرے پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری صاحب جنہوں نے ہماری بہن سمیحہ راحیل قاضی کی بہترین رہنمائی کی اور ہماری بہن نے خاندانیت پر پتا مار کر تحقیق کے بعد قابل قدر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کا اعزاز حاصل کیا۔
خاندانیت پر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا کام جزوی نہیں ہے کہ اسے محض Famlyism تک محدود رکھا جائے۔ ابھی اس مقالے کی ایک دوسری کتاب بھی آئے گی جس سے ڈاکٹر صاحبہ کے کام کی جامعیت کا اندازہ ہوگا۔ میری دانست میں انہوں نے علم کی ایک نئی شاخ کی بنیاد رکھ دی ہے جسے بجا طور پر Familyology کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ سوشیالوجی اور سائیکالوجی کی طرح کا ایک کام ہے۔
خاندان وہ بنیادی وصف ہے جو جان داروں کی سرشت میں شامل ہے جب کہ یہ بشر میں انسانی شرف ہے۔ خاندان وہ ادارہ ہے جو انسان کے زمین پر آنے سے پہلے جنت میں قائم کر دیا گیا تھا۔ تبھی تو شیطان اور شیطان نما لوگوں کی اس سے ازلی دشمنی ہے۔ اس کائنات میں تقسیم کار کا اصول کام کرتا ہے۔ کوئی بھی چیز مکمل نہیں ہے۔ اشیا کا مجموعہ اور گل دستہ ہی تکمیل کا درجہ پاتا ہے۔ کہیں خوشبو‘ کہیں ذائقہ‘ کہیں رنگ‘ کہیں حساسیت اور کہیں جذبات یہ سب مل کر ہی تصویر مکمل کرتے ہیں۔ یہی کائناتی مساوات ہے۔
شجاعت‘ عدالت‘ حکمت ‘ شائستگی‘ تہذیب‘ شفقت‘ معصومیت‘ شرارتیں اور دیگر اوصاف کا خیال کریں تو کسی وصف میں مرد کا تصور اور کسی وصف میں عورت اور کسی وصف میں بچوں کا تصور آتا ہے۔ تقسیم کار کا یہ اصول خاندانیت کے چھوٹے دائرے میں خانہ داری سے حرکت کرتا ہوا بڑے دائرے اور بالآخر قوم و ملک کی شان بنتا ہے۔ پولیٹیکل اکانومی (Political Economy) دو یونانی لفظوں سے ماخوذ ہے جسے اہلِ شہر کی خانہ داری کہا جاتا ہے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد نے اس کتاب کی تقدیم میں آرنلڈ جے ٹائن بی اور دیگر حوالوں سے ثابت کر دیا ہے کہ تقسیم کار ہی کا اصول تھا جس نے قوموں کو عروج بخشا تھا۔
اب آخری بات عرض کرتا ہوں کہ پاکستان میںخاندانیت کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گزشتہ دو‘ تین سال سے خاندانیت پر یقین رکھنے والوں نے ’’عورت ڈے‘‘ پر ایجنڈا برداروں کی جو درگت بنائی ہے وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن خاندانیت کو اندرونی چیلنج ضرور درپیش ہیں۔ گھر موجود ہیں لیکن گھرانہ غائب ہو رہا ہے‘ رشتہ دار ہیں لیکن رشتہ داری دَم توڑ رہی ہے۔ خاندان کا ملنا جلنا‘ اخوت و محبت اور ایثار و قربانی صرف شادی اور مرگ وہ بھی ماں باپ کی سطح تک محدود ہو رہا ہے۔ دراصل نئے حلقے وجود میں آرہے ہیں جو خاندانیت کو کھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ صحافی‘ سوشل میڈیا اور حتیٰ کہ تحریکی اور جماعتی حلقے، یہ پروفیشنل حلقے اپنی جگہ ایک ضرورت تو ہیں لیکن ان حلقوں کو خاندانیت کی قربانی دے کر اپنے سر پر سوار کر لینا ٹھیک نہیں ہے۔
میں آخر میں قرآن پاک کی دو آیات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا جس سے میری یہ بات بہت واضح ہو جائے گی۔
’’جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطائوں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کرکے آگئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں‘ یقینا اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔‘‘ (سورۃ الانفال: آیت نمبر 75)
’’بلاشبہ نبیؐ تو اہلِ ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں اور اُنؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ مگر کتاب اللہ کی رُو سے تمام مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں‘ البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو) تو کر سکتے ہو۔ یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:آیت نمبر6)