قدرتی آفات سے مقابلے کا خودکفیل نظام کیسے ختم ہوا
معروف تجزیہ نگار ذوالفقار ہالیپوٹو نے جو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر سندھ میں سیلاب کی صورت حال/ماضی کے واقعات، اہل تحقیق کے نتائج فکر اور موجودہ مقتدر طبقات کی کارکردگی اور بصیرت کے حوالے سے مضمون تحریر کیا ہے جوبروز اتوار 11 ستمبر 2022ء کو چھپا ہے، سندھ کے موجودہ حالات کے تناظر میں جو چشم کشا خامہ فرسائی کی ہے،اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’اقوام متحدہ کے قدرتی آفات کے خطروں سے بچائو کے ادارے کی نمائندہ اور مشہور سپر مادل پٹرانمکوا کے حوالے سے ایک اقتباس سندھ کے موجودہ حالات پر یاد آتا ہے کہ ’’ہم قدرتی آفات کو روک تو نہیں سکتے، لیکن ہم اپنے آپ کو علم اور آگہی سے لیس کرکے بہت ساری جانیں بچاسکتے ہیں، جو قدرتی آفات کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں‘‘۔ اب موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے 1999ء سے تاحال صورت حال کا جائزہ لیں۔ کیا ایل بی او ڈی کے ٹائیڈل لنک کا سانحہ، ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں تھا؟ پھر تین برس سخت قحط سالی کے حالات اور کیا 2003ء میں کڈھن کے پاس اس سیم نالہ کا واپس پلٹ کر اردگر کے گوٹھوں کے لیے موت کی لہر میں تبدیل ہونا ہمیں دکھائی نہیں دیا؟ 2006ء میں میرپور خاص، سانگھڑ، بدین اور کراچی میں سیلاب کی سی صورت حال، بعدازاں چار برس تک قحط سالی، خشک سالی کی سی صورت حال اور 2010ء کا عظیم تباہ کن سیلاب، 2011ء میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے لاڑ میں برساتی سیلاب 2012ء میں دریا کے بائیں طرف گھوٹکی والے علاقوں میں اور 2013ء میں دائیں طرف جیکب آباد اور ملحق علاقوں میں شدید بارش کی وجہ سے سیلابی صورت حال، 2014ء میں انڈیا سے راوی، چناب، جہلم کے ذریعے آنے والی تباہی، 2015ء میں دریائے سندھ کا سیلاب پھر چار برس تک کچھ خشک سالی جیسی حالت اور 2020ء میں لاڑ سندھ میں برساتی سیلاب کی تباہی و بربادی اور اب 2022ء میں برساتی اور دریائی سیلاب کا مشترکہ حملہ، موسمیاتی تبدیلیوں کے اس کے باوجود کیا سپنگ ہوا کرتے ہیں؟ لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ ہم اتنے بے سدھ اور غافل کیوں ہوگئے ہیں۔ کچھ عالمی حوالوں میں تو ایک قوم کی تعریف ایک ایسی سیاسی برادری کے طور پر کی گئی ہے جو اپنی خود مختاری، اتحاد اور اجتماعی مفادات کے بارے میں باخبر اور آگاہ ہوں۔ ہمیں اس درجہ تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید کتنا عرصہ درکار ہوگا؟
ایس پی چھلبانی سے لے کر ایم ایچ پنھنور تک متعدد تحقیق دانوں نے سندھ میں قدرتی آفات پر لکھا ہے۔ اب اسے دوبارہ پڑھیں تو لگتا ہے کہ گویا موجودہ سندھ ایک بار پھر سے اسی ماضی میں جاپہنچا ہے۔ خان بہادر ایوب کھوڑو کی صاحب زادی ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو اپنے والد کی جیون کتھا میں رقم طراز ہیں ’’دریائے سندھ کا پانی لوگوں اور فصلوں کے لیے خوش حالی کا سبب ہے لیکن یہ غیر متوقع اور اچانک سیلاب کی صورت میں تباہی کا باعث بھی تھا۔ غریب لوگ ان آفات سے قبل نہ کچھ اکٹھا کرپاتے تھے اور نہ ہی اپنے مال اورمتاع کو ہی بچاسکتے تھے، البتہ وہ ان آفات کے ساتھ رہنا سیکھتے رہے، سائیں ایم ایچ پنہنور نامور محقق نے سندھ میں کبھی لگاتار 5، 10 سال خشک سالی اور پھر کبھی بہت بڑے سیلاب کے بارے میں لکھا ہے۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی کو عام رواج قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر ایس پی چھبلانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’جب دریا سیلابی کیفیت کی حد تک پہنچتا ہے تو تب نہریں بھی پانی سے لبریز ہوجاتی ہیں اور وہاں سے پانی زمینوں کی طرف بہنا شروع کردیتا ہے اور سارے ملک میں زمین کاشت ہونے لگتی ہے۔ مون سون ختم ہونے پر پانی کی سطح نیچے اترنا شروع ہوجاتی ہے اور نہروں کا بہائو بھی کم ہوجاتا ہے اور کاشت کی میعاد پوری ہوجاتی ہے اور پانی کے موسم کے اختتام پر (یعنی مون سون کے اختتام پر) جب سیلاب کا پانی اترنے لگتا ہے تب ملیریا، ہیضہ اور دیگر وبائی امراض بھی پھیلنے شروع ہوجاتے ہیں۔
ان مثال سے ایک بات تو واضح طور پر یہ ثابت ہوتی ہے کہ ہم اہل سندھ صدیوں سے نہ صرف ان موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں بلکہ ہم ان عذابوں کے ساتھ رہنا بھی سیکھ چکے تھے۔ مثلاً سندھ میں آباد پرانے شہر اور گوٹھوں کو ہی دیکھ لیجیے۔ بوبک شہر منچھر جھیل کے ایک طرح سے کنارے پر واقع ہے، ہمیشہ کیرتھر سے آنے والے پانی کے ریلوں کے سبب سے بپھرنے والی منچھر جھیل اور دوسری جانب سندھو (دریائے سندھ) بالکل قریب، لیکن کس طرح سے یہ چھوٹا شہر اس کے باوجود ایک ٹیلے پر آباد ہے۔ قدیم حیدرآباد دریا کے بہائو اور ریلوں میں دونوں اطراف سے گھرا ہوا، لیکن پہاڑی کے اوپر آباد، قدیم روڈ موجودہ روہڑی ایک طرف دریائے سندھ دوسری جانب ہاکڑو (قدیم دریا) یہ تھیں ہمارے بڑوں کی، کی گئی منصوبہ بندیاں۔ اب گوٹھوں کی مثال لیجیے۔ انگریزوں کے دور میں سکھر بیراج بننے سے پہلے آباد کیے گئے گوٹھوں کے نقشے اٹھا کر دیکھ لیجیے اور موجودہ دور کے سیٹلائٹ نقشوں سے موازنہ کرکے دیکھیے۔ مطلب یہ ہے کہ دیڑھ صدی قبل دنیا اتنی جدید تھی کہ پانی کے بہائو، اخراج کے راستے، آمدورفت کے راستے اور ریل کی پٹری (ریلوے لائن) کی تشکیل کے فیصلے تاحال مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں اور موجودہ دور میں آباد شدہ بستیاں، روڈ راستے، حالیہ آباد ہونے والی آبادیوں کی پلاننگ، لگتا ہے کہ انگریزوں کے قابض ہونے سے بھی پیشتر کی دو صدیوں میں ہم پہنچ گئے ہوں۔ کہنے کی حد تک تو ہمارے ہاں ہر قسم کے ادارے اور ان میں بڑے بڑے تکنیکی اور انتظامی عہدے موجود ہیں۔ ان سے بھی کہیں بڑھ کر ہمارے سیاست دان بغیر کسی باقاعدہ ٹیکنیکل معلومات کے سب سے بڑے تحقیق دان اور تکنیکی امور کے ماہرین بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے شہر اور گوٹھ دھتکاری ہوئی حالت میں کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ یہ سوال نہیں، بلکہ عذاب ہے جس سے اہل سندھ چھٹکارا چاہتے ہیں، برساتی اور دریائی سیلاب کے باری باری ہونے والے حملوں کی وجہ سے جو بڑا نقصان ہوا ہے وہ ہماری نسل میں چلنے والا نسل در نسل ادارتی پشت پناہی ہے۔ ہمارے چیف منسٹر اپنی ایک پریس کانفرنس میں ضلعی انتظامیہ کا پردہ رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ بے چارے کیا کیا کریں؟ متاثرین کو سنبھالیں، امدادتقسیم کریں۔ یا پانی کے اخراج کے لیے راستے ڈھونڈیں؟ مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم تک نہیں ہے کہ متاثرین کو نکالنے یا سنبھالنے کے لیے کون سا ادارہ بہتر طور پر کام کرسکتا ہے کہ سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر؟ جگہیں کون سی خالی پڑی ہیں ضلع بھر میں جو پانی سے محفوظ ہیں، جہاں پر متاثرین کے لیے لیٹرین کی سہولیات موجود ہیں، ان سارے امور پر کل کتنے اخراجات اٹھ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سارا ملک پانی پانی ہے، کتنے ٹینکرز پانی کے بھر کر ان پناہ گاہوں تک پانی کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ ان جگہوں کے قریب کہاں کہاں پر غاصیت ہے؟ جہاں پر کھانا پکوا کر ان بے چارے دربہ دربہ افراد کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ دوسرا پھر اس افسر شاہی کو پانی کا راستہ ڈھونڈے میں بھی مشکلات درپیش تھیں۔ سوال واضح طور پر یہ ہے کہ کیا پانی کے راستے ایک انتظامی افسر کو تلاش کرنے ہوتے ہیں؟ یا اس کام کے لیے وفاقی یا صوبائی سطح پر تیکنیکی ادارے بہتر رہتے ہیں۔
ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ماضی سے سبق حاصل نہیں کرنا ہے اور نہ ہی دنیا کو دیکھ کر کچھ سیکھنا ہے، کیا 2010ء کے سیلاب کے بعد سندھ میں اکثر آنے والے غیر ملکی ادارے ہمیں یہ کہتے چلے نہیں آرہے ہیں کہ مزید کچھ نہ کیجیے، بنگلہ دیش ہی کی مثال لیجیے، جہاں ہر سال سیلابوں کی وجہ سے بڑی تباہی آیا کرتی تھی، انہوں نے گزشتہ تیس برس میں بڑے پیمانے پر زمین کو اونچا کرکے گھر تعمیر کرنے شروع کردیئے۔ انگریزی میں اس شے کو ریزڈ پلیٹ فارم (Raised plateform) کہتے ہیں۔ پہلے بڑے سے بڑے سیلاب کے لیول کو ریکارڈ کیا جاتا ہے پھر اس میں زیادہ سے زیادہ امکانی سیلاب کا سیفٹی فیکٹر جمع کرکے عام مٹی کا پلیٹ فارم بنایا جاتا ہے۔ اس کے اوپر رہنے کے لیے گھر اور مویشیوں کے کمرے بنائے جاتے ہیں، گھر میں پانی کا ذخیرہ، آفت کے وقت کے لیے کھانا پینا، خوراک اور جانوروں کے لیے چارہ رکھا جاتا ہے۔ خواہ کتنا بھی سیلاب آئے لوگ اور ان کا مال و متاع محفوظ رہتا ہے۔ کیا دنیا کے ترقیاتی ادارے ایسی تجاویز لے کر سندھ حکومت کے دروازوں پر دھکے نہیں کھاتے رہے؟ کیا ہمارے ماہر افسران نے ان تجاویز کو رد نہیں کیا؟ اصل بات یہ ہے کہ ہماری دھرتی کو مال غنیمت سمجھا گیا ہے، جسے جہاں سے بھی چوٹ پڑے، بس عام آدمی کی مظلومیت کے ڈھول بجاکر اپنے کام نکالیں۔ دوبارہ سیلاب آیا تو ازسرنو کام کریں گے، مطلب یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی سارا بلوچستان برسات میں ڈوب رہا ہے۔ سو سو سال کے پرانے نقشے اور ریکارڈ موجود ہیں جو پہاڑوں سے پٹ فیڈر سے ہوتے ہوئے حمل جھیل اور منچھر جھیل سے ہوتے ہوئے قدرتی بہائو کی نشاندہی کرتے ہیں، جو سندھ میں آکر سندھو میں (یعنی دریائے سندھ) شامل ہوتی ہیں، لیکن ہم ان بارشوں کے پانی کی سندھ میں آکر تباہی مچانے کی پیش گوئی نہیں کرسکے۔ بیدار اس وقت ہوئے جب پانی سندھ میں داخل ہوا اور بھوتاروں کی جاگیریں ڈوبنا شروع ہوئیں اور پھر بھی وقت پر منچھر کو خالی نہیں کیا جاسکا۔ کیوں کہ پہاڑی نئی کے راستے میں ایف بی بندر اور ایم این وی ڈرین ہے اس لیے کچھی کینال کو ڈیرہ بگٹی تک اپنے سارے راستے پچاس سے زیادہ قدرتی بہائو عبور کرنے پڑتے ہیں ان سب پر سائفن بنائے گئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کچھی کینال ساری کی ساری محفوظ ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی شے بھی بچ نہیں پائی ہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ مناسب تحقیق کے بعد ایسے سیلاب کے پانی کو سیدھا سندھ پنجاب بارڈر سے کاٹا جائے اور آبادیوں کو بچاتے ہوئے اسے دریائے سندھ میں چھوڑا جائے۔ اس کے لیے واٹر شیڈ کلیکشن (Water Shed Collection) نہریں بنائی جائیں، جن کی گنجائش پچاس ہزار تا لاکھ کیوسکس تک ہو جن کے بندوں کو دریا سے بھی اوپر محفوظ کیا جائے اور دریا خواہ کتنا ہی کیوں نہ بھر جائے پانی اوپر سے بہتا جائے اور آبادیاں بھی محفوظ رہیں، لیکن ہمارے ہاں تو ایسا سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے تکنیکی ماہرین اور بھوتاروں کے بغیر تو گویا ہر بات بے کار ہے۔ آر بی او ڈی کی مثال لیجیے، اگر آج یہ مکمل ہوچکی ہوتی تو کیا ہمیں دریا کی مجبوری لاحق ہوتی کہ پانی اترے گا تب منچھر کا پانی نکلے گا؟ گزشتہ دو عشروں میں آر بی او ڈی پر کتنا لکھا گیا ہے، ایل بی او ڈی کی مثال لیں، ہر فرد کی زبان پر ہی اعتراضات ہیں، کناروں پر اور دیگر مقامات پر ہرجا قبضے ہوچکے ہیں۔ وہ چھڑوائے کیوں نہیں جاسکے؟ بس ہمارے نصیب میں شاید ایسا کچھ لکھا جاچکا ہے، جس کا اب ازالہ ممکن نہیں ہے۔ شاید اہل سندھ سے کوئی سنگین جرم سرزد ہوا ہے جس کا ہم متواتر کفارہ دیتے رہتے ہیں۔ شاید ہم میں سے زیادہ تر افراد کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ ہماری یہ سرزمین (سندھ) دنیا کو کھانا (روٹی) کھلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 1992ء میں ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور تھائی لینڈ کی زمین میں اتنی زرخیزی اور طاقت ہے کہ اس سے ساری دنیا کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ تھائی آبادگار سال میں دو مرتبہ چاول کی پیداوار حاصل کرتے ہیں اور اس کے برعکس ہمارے بھوتار سال میں دوبار گاڑی کا ماڈل تبدیل کرکے خوش ہوجاتے ہیں۔
تھورا سا غور کیجیے۔ چالیس برس پیچھے کو چلے جایئے، کیا ہمارے آبادگار ایسی قدرتی آفات میں اتنے زیادہ مجبور ہوا کرتے تھے؟ ان ایام میں گوٹھ زمین کے حالات کو مدنظر رکھ کر آباد کیے جاتے تھے۔ بیشتر پرانی آبادیوں کو دیکھ لیجیے۔ بالائی زمین کی سطح پر جگہیں تو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ آباد ہوتی تھیں، گھر زیادہ تر کچے ہوا کرتے تھے، لیکن ہر مون سون سے قبل چکنی مٹی کا گارا کرکے دیواروں اور چھتوں کا لیپا (لپائی) کی جاتی تھی۔ اب دیکھیے وہی قوم جسے دنیا کو روٹی کھلانی تھی کس طرح سے دربہ در اور بے یارو مددگار ہے۔ اس کا سبب براہ راست ریاست کا ہر سیکٹر میں مونو پولائزیشن ہے۔ پانی ہو یا زراعت ماسٹر پلاننگ ہو یا لوگوں کو روزگار سے لگانے کی کوشش، وہ گوٹھوں کا آفات کا مقابلہ کرنے کا خودکفیل نظام ہی ختم ہوچکا ہے۔ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا سب سے بڑا اور زیادہ فائدہ زمین کی ابتدا کا بھوتار لے جاتا ہے۔ درمیان اور اختتام پر موجود زمین کے کاشت کار پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بدحال اور دربہ در ہوجاتے ہیں۔ ان کی زمینیں بھی پھر وہی بھوتار اونے پونے داموں پر خرید لیتے ہیں۔ حالات سے مجبور ہوکر غریب افراد چھوٹے شہروںمیں مزدوریاں کرکے گزارہ کرتے ہیں۔ گوٹھوں میں سے اب ڈیری اور پولٹری نکل کر اب شہروں کے اطراف کارپوریٹ فارمس میں شفٹ ہوچکی ہے۔ ماسٹر پلاننگ اور اس پر عمل درآمد نہ ہونے سے جسے جہاں بھی جگہ میسر آئی وہ وہیں پر جاکر بیٹھ گیا۔ کوئی تحقیق نہ تو سیلاب کے راستے میں یا دریا کے کچے میں رہنے اور اس کے خطرناک نتائج و عواقب کے حوالے تاحال نہیں ہوسکی ہے اور اس کا بھیانک انجام اب غریب لوگوں کے اس طرح سے در بہ در اور بے گھر ہونے کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
گوٹھوں میں ہر قسم کی فصل کاشت کی جاتی تھی جس سے لوگوں کی خوراک کی ضروریات پوری ہوا کرتی تھیں۔ اب صرف زور آوروں (طاقت وروں) کے گنے، کیلے، گندم اور پیاز کی فصل کاشت ہوجاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو سو گھروں پر مشتمل گوٹھ سال میں ایک کروڑ چوراسی لاکھ روپے کی سبزیاں مارکیٹ سے خرید کر استعمال کرتا ہے۔ یہ اگر کسی ایکڑ کے چوتھائی حصے پر سبزیاں کاشت کرلی جائیں تو پیسوں کی کتنی بچت ہوگی؟ اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی رقم جو بچ جائے گی وہ قدرتی آفات کے موقع پر کارآمد ثابت ہوسکے گی۔ بڑی فصلوں کا اصل فائدہ تو زمین کا اصل مالک حاصل کرلیتا ہے۔ غریب ہاری تو بہرحال ہر طرح سے مجروح اور بدحال ہی رہتا ہے اور یا پھر وہ بے چارہ اپنے بھوتار (زمین دار، وڈیرہ، جاگیردار) سے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے پیشگی طور پر لی گئی رقم کو کٹوانے (منہا کرانے) میں لگا رہتا ہے۔