ترقی یافتہ صنعتی ممالک فساد فی الارض اور ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی کے ذمے دار ہیں
چار ماہ ہونے والے ہیں، حکومت سے بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور ریسکیو کا کام مکمل نہیں ہوسکا، جون سے شروع ہونے والا بارشوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے براہ راست مشاہدے کے بعد اس اہم حقیقت کی نشان دہی کی ہے ،پاکستان گلوبل وارمنگ کے ذمے دار ترقی یافتہ ملکوں کے کئے دھرے کی سزا بھگت رہا ہے کہ پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملک، ایندھن جلاکر بڑے پیمانے پر کاربن کا اخراج کرنے والے ترقی یافتہ ملکوں کی مداخلت کی ہولناک قیمت ادا کر رہے ہیں ترقی یافتہ ملکوں کے اس عمل کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، گلیشیر پگھل رہے ہیں اور سیلاب آ رہے ہیں، اس کے سبب پاکستان کا درجہ حرارت تین فی صد تک بڑھ گیا ہے جبکہ پاکستان کے پاس نقصانات کی تلافی کیلئے وسائل نہیں ہیں لہٰذا جو ملک اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں انہیں پاکستان کی بھرپور معاونت کرنی چاہیے اس بیانیے کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے کہ پاکستان کو اس بحران سے نکلنے کیلئے بھاری مالی امداد کی ضرورت ہے، ہمیں فطرت کے ضابطوں کی پابندی کرنی چاہیے ان گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جائے مستقبل میں دوبارہ اس صورتحال سے بچنے کے حوالے سے ان ممالک کے لیے رہنما اصول بھی طے کرنا ہوں گے جو موسمیاتی تبدیلی سے بچائو کے لیے لازم ہیں، عالمی سطح پر پاکستان کے سیلاب پر یہ انتہائی سنجیدہ گفتگو تھی، جماعت اسلامی کی قیادت بھی اس مسئلہ پر ایک سنجیدہ گفتگو کرنا چاہتی ہے، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی صدارت میں ا ٹھارہ ستمبر کو اسلام آباد میں ایک سیمینار ہورہا ہے جس میں زراعت سمیت دیگر متعلقہ شعبوں کے ماہرین شریک ہوں گے، بلاشبہ ایسے سیمیناروقت کی ضرورت ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا سنگین معاملہ ہے اسے در اصل موسم کے ہاتھوں انسانوں کا قتل عام قرار دیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے پائیدار انفرااسٹرکچر چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک کے پاس تو وسائل ہی نہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط بھی پہلے سے زیادہ سخت ہیں، سیلاب سے آنے والی تباہی کا تخمینہ 18 ارب ڈالر ہے جبکہ صرف تباہ شدہ سڑکوں کی تعمیر نو کیلئے ایک ہزار ارب روپے درکار ہیں، ایسے ممالک جو نادہندگی کی حد کو چھو رہے ہیں ان کے لیے کس قدر مشکل صورت حال بن گئی ہے عالمی سطح پر یہ سوچ پیدا ہونی چاہیے کہ ان ممالک کو قرض کی ادائیگی کی فکر میں مبتلا رہنے کے بجائے موسمیاتی لچک اور پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع دیا جائے اب عالمی برادری پر منحصر ہے کہ وہ تعمیر نو کے کام کے لیے کشادہ دلی دکھائے، ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی جسے معیشت کی فنی زبان میںٹیبل 3a کہا جاسکتا ہے یہ رپورٹ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ کی صورت حال سے متعلق ہے، معاشی امور کا کوئی ماہر بھی اسے آسانی سے نہیں سمجھ سکتا تو ہم یہاں قاری یا عام شہری سے کیا توقع کی جاسکتی ہے اگر آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ہی جائزہ لیا جائے تو نہائت سادہ سے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ صورت حال اچھی نہیں ہے،اور بہتر یہی ہے حکومت حقائق چھپانے کی بجائے لوگوں کو آگاہ کرے۔زرمبادلہ بھی ہمارا خسارہ کم کرنے میں مدد گار نہیں بن رہاغیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں کوئی کمی کی بجائے قرضوں کے واجب الادا حجم میں 12.699 بلین ڈالر کا اضافہ متوقع ہے موجودہ قرضوں اور اس پر سود کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے حاصل کرنا ہوں گے، اگر حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 20 بلین ڈالر یا اس سے ذیادہ رہیں تو ہمیں چھ بلین ڈالر کی امداد یا قرض چاہیے ہوگا آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ ملک میں51 ارب امریکی ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوگی اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی 22 ارب ڈالر کی ضرورت باقی رہ گئی ہے کیونکہ ہمیں بہتر سانس لینے کے لیے 73 بلین ڈالر کی ضرورت ہے اور یہ کوئی آسان ہدف نہیں ہے۔اگر اگلے چار سالوں میں پاکستان میں 50 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوجاتی ہے تو قدرے بہتری آئے گی، ہم اس خطہ میں جس طرح کے مسائل کا شکار ہیں، اس وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان سرمایہ کاری کے لیے واحد آپشن نہیں ہے غیر ملکی سرمایہ کار اعتماد اور استحکام چاہتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر غیر ملکی سرمایہ کار اپنے سرمائے کی منافع کے ساتھ واپسی کی امید رکھتاہے، اس خطہ کے حالات کی وجہ سے ہمیں مشکل درپیش ہے کہ ہم لانگ ٹرم پالیسی بنا ہی نہیں پارہے لہٰذا بیرونی سرمایہ کاری کو مناسب طریقے سے راغب نہیں کرسکے سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہمیں 22 بلین امریکی ڈالر قرض کی ذمہ داری کے لیے درکار ہیں۔ یہ فرق کیسے اور کہاں سے پورا ہوگا اس بارے میں حکومت خاموش ہے یہ رقم ہم قرض لیں گے اور کس شرط پر قرض ملے گا؟ یہی بلین ڈالر کا سوال ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ، جب کہ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں، حالیہ سیلاب سے ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، اصل نقصان کا اندازہ پانی اتر جانے کے بعد ہوگا یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کے ہر شہر اور قصبے سے عام شہریوں نے متاثرین سیلاب کی دل کھول کر مدد کی ہے، شہریوں کا جذبہ قابل ستائش ہے،بیرونی ممالک اور اوورسیز پاکستانی بھی سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں ۔امریکی حکومت کی طرف سے تیس ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے امریکی کانگریس کا تین رکنی وفد پاکستان پہنچا جس میں پاکستان کا کس کی سربراہ کانگریس وومین شیلا جیکسن، کانگریس مین ال گرین اور کانگریس مین ٹام سوزی شامل تھے جنہوں نے متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ لیا اور مدد کا وعدہ کیا ہے امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم’’اپنا‘‘کی طرف سے بھی سیلاب متاثرین کیلئے فنڈز دیے گئے ہیں۔ عالمی منظر نامہ یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ اور توانائی بحران کی وجہ سے یورپ اور ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کی زیادہ امداد کرنے سے قاصر ہیں آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کی گئی شرائط اور قرضے میں دی گئی رقوم کی کڑی نگرانی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بیرونی ممالک اور ڈونر ادارے ہماری کارکردگی سے مطمئن نہیں، ان حالات میں سیلاب سے تباہ شدہ معیشت کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہے ۔
حکومت نے بہر حال نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر تشکیل دے دیا ہے سب سے پہلے سیلاب کی تباہی کا حقیقی جائزہ سامنے آنا چاہیے، فیڈرل فلڈ کمیشن کی 2015 کی رپورٹ کی روشنی میں فیصلے کیے جائیں ایک پانچ سالہ منصوبہ مرتب کیا جائے جو ان آفات اور موجودہ سیلابی تباہی کے آئندہ خوفناک مضمرات کا جامع اورہمہ جہتی حل پیش کرے اور حکومت مصر میں ہونے والی کانفرنس آف پارٹیز (27) میں 30ارب ڈالرز کی ماحولیاتی ایڈاپٹیشن کی سرمایہ کاری کیلئے زبردست سفارتی مہم چلائے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد اب ہمیں وبائی بیماریوں کاسامنا ہے، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اس کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے وبائی امراض پھوٹنے سے انسان اور جانور بیماریوں میںمبتلا ہو رہے ہیں، بھوک کے ساتھ ساتھ انہیں بیماریوں کا سامنا ہے، موت سائے کی طرح ان کے سر پر منڈلا رہی ہے سیلاب کی وجہ سے انفراسٹر کچر تباہ ہو گیا ہے ایک اندازے کے مطابق تین ہزارکلو میٹر سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں اورتقریباً دس ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ریلوے گیس اور بجلی کی لائنیں سیلاب کی نذرہو چکی ہیں، سب سے زیادہ نقصان سندھ، پھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اورجی بی میں ہوا، کوئی بھی حکومت تنہاء اس آفت کا مقابلہ نہیں کر سکتی دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سوسائٹی کے تمام طبقات ایک قوم کی طر ح کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سے بڑی آفت کا مقابلہ کر لیتے ہیںقوم کو متحدکرنے میں سیاسی لیڈر شپ کا کردار ہمیشہ سے بہت اہم رہا ہے۔موجودہ حالات میں قوم ایک سیاسی اَپ سیٹ کا شکار ہے، ایسے میں سیلاب جیسی تباہی سے نمٹنے کیلئے جس اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہے وہ عنقا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں بھی سیاسی رسہ کشی جاری ہے، سیلاب کی وجہ سے زراعت بھی تباہ ہوئی ہے، کسانوں کے ٹیوب ویل اور دیگر انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے،جنوبی پنجاب میں خوفناک سیلاب سے ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی کپاس، کماد، دھان، کھجور اور خریف کی سبزیوں اور پھلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔اربوں روپے مالیت کی فصلیں تباہ ہونے سے سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی قلت پیدا ہو گئی ہے اور مہنگائی کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے،کھاد کی قیمت پہلے ہی بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ایک پیش رفت یہ ہوئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب سے متاثر ہونے کی وجہ سے 9لاکھ 79 ہزار ٹن گندم کی درآمد کا فیصلہ کیا جس میں سے 6لاکھ ٹن سے زیادہ گندم پاکستان پہنچ چکی ہے جبکہ یورپی ممالک ہنگری، بلغاریہ، فرانس سے بھی گندم پہنچ رہی ہے حکومت نے 379 ڈالر فی ٹن کے حساب سے گندم درآمد کی ہے لیکن گندم مافیا نے قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی ہیں جبکہ صوبائی حکومتیں بھی خاموش تماشائی ہیں، گندم کے سٹے بازوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا گندم کی قیمت کئی مقامات پر 3340روپے فی من تک چلی گئی ہے گندم مہنگی ہونے سے ایک طرف سبسڈائز آٹے کی قلت پیدا ہوچکی ہے اور 20کلو کا تھیلا 980روپے کی بجائے 1250تک فروخت ہورہا ہے جس سے نان اور روٹی کی قیمت میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ عوامی مفاد میں گندم اور آٹے کی مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے ذمہ داران کے خلاف بھی سخت کارروائی کریں، بد ترین مہنگائی سے پژمردہ اور نڈھال شہریوں کو فلور ملرز اور تازہ دودھ بیچنے والے ریٹیلرز نے قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے ایک اور جھٹکا دے دیاہے آٹا بھی مہنگا ہوگیا ہے جس کی قیمت 99روپے فی کلو سے 104روپے فی کلو کردی گئی ہے ایک لیٹر تازہ دودھ کی قیمت اب 180 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے یہی دودھ 140روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا تھا ڈیری فارمرز نے فی من دودھ کی قیمتوں میں 320روپے تک کا اضافہ کیا ہے، یہ کیسا وقت آن پہنچا ہے کہ عشروں تک دنیا کو گندم برآمد کرنے والا ملک آج گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے ملک میں کاشت کی جانے والی سب سے بڑی فصل یہی ہے کہ قومی پیداوار میں اس کا حصہ قابل کاشت رقبے کا محض 37فیصد ہے، جس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ زراعت نظر انداز ہورہی ہے ملک میں لائیو اسٹاک کا حال اس سے بھی برا ہے، حالیہ سیلاب جہاں ملک میں خوراک کی کمی لانے کا باعث بنا ہے وہیں مویشی پروری کا شعبہ بھی بحران میں مبتلا ہوا ہے، یہ دو شعبوں کی بات ہے، اور سیلاب کی تباہ کاریاں بھی اپنی جگہ موجود ہیں تاہم تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ 22کروڑ آبادی میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 38.3فیصد تک جاپہنچی ہے اگر توجہ نہ دی گئی تو حالات مزید دگرگوں ہوتے چلے جائیں گے۔