ہم بچے کو بوتل سے دودھ پلا کر بیماریاں خود خرید رہے ہیں
”آپ کہہ رہے ہیں دودھ بند کردوں! یہ تو کچھ کھاتا ہی نہیں ہے، پھر کیسے…؟“
خاتون نے پریشانی میں سوال کیا۔
”میں نے آپ کو دودھ بند کرنے کے لیے نہیں بلکہ بوتل سے دودھ پلانے کو منع کیا ہے، ویسے بھی کیا عمر ہوگئی ہے؟ ڈھائی سال! کب تک فیڈر پلائیں گی آخر، ایک سال کی عمر کے بعد فیڈر نہیں پلانی چاہیے۔ آپ کپ سے پلائیں، گلاس میں پلائیں۔ ایک دو گلاس سے زیادہ دودھ ویسے بھی اب اس کی ضرورت نہیں۔ زیادہ پلاتی رہیں گی تو کھانا کیسے کھائے گا؟ پیٹ تو دودھ سے بھر لیا۔“
”مگر ڈاکٹر صاحب یہ تو کچھ کھاتا ہی نہیں۔“ خاتون پھر بولیں۔
”یہی تو آپ کو سمجھا رہا ہوں۔ فیڈر پیتا ہے تو پیٹ میں گنجائش کہاں بچی، جو کھائے! آپ پہلا کام یہ کریں کہ فیڈر سے دودھ پلانا بند کریں، اور دوسرا یہ کہ دودھ کی مقدار بھی کم کریں۔ کھانا کھلانے کی کوشش کریں، اِن شاء اللہ بہتر ہوگا۔ ویسے کیا آپ کو پتا ہے کہ پیسے خرچ کرکے فیڈر سے دودھ پلا کر آپ بیماریاں خرید رہی ہیں۔“
”کیا مطلب سر؟“ خاتون پھر سوالیہ نشان بن گئیں۔
”جی ہاں، فیڈر سے دودھ پلانے سے بچہ کئی بیماریوں کا جلدی شکار ہوسکتا ہے بہ نسبت ماں کا دودھ پینے والے بچوں کے۔ مثلاً ایک سال کے بعد اگر فیڈر پلاتے ہیں تو دانت خراب ہونے کے زیادہ امکانات ہیں جسے Dental caries کہتے ہیں۔ آپ نے دیکھے ہوں گے ٹوٹے پھوٹے کالے دانت۔ نئے دانتوں میں رات کی فیڈر کے بعد دودھ میں موجود ایک طرح کی شکر (لیکٹوز) دانتوں میں ہی جمع رہتی ہے اور اس کا سبب بنتی ہے۔
پیٹ کی بیماریاں یعنی ڈائریا وغیرہ فیڈر (بوتل) سے دودھ پینے والے بچوں میں زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ بوتل کے نپل پر جراثیم لگ جاتے ہیں جب بچہ بوتل کے نپل کو کئی جگہ ٹچ کرتا ہے اور پھر منہ میں لگا لیتا ہے۔
کان کی خرابی، کان میں درد اور انفیکشن کا ایسے بچے زیادہ شکار ہوتے ہیں، کیونکہ فیڈر کا نپل ربر (سلیکون) سے بنا ہوتا ہے، اور بار بار بوتل پینے سے گلے میں سوجن اور انفیکشن کے مسائل بڑھ جاتے ہیں اُن بچوں کی نسبت جو بوتل (فیڈر) سے دودھ نہیں پیتے۔
اس کے علاوہ زیادہ دودھ پینے، اور صرف دودھ سے پیٹ بھرنے کی وجہ سے خون کی کمی یعنی انیمیا کا شکار ہوتے ہیں اور پھر کھانے سے رغبت مزید کم ہوجاتی ہے۔
یعنی اس طرح ہم بچے کو بوتل سے دودھ پلا کر بیماریاں خود خرید رہے ہیں۔
اسی لیے ہم ماں کے دودھ کو بہتر سمجھتے ہیں، اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے بچے کو بوتل سے دودھ پلانا پڑ جائے تو ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ بچہ جیسے ہی پانچ چھ مہینے میں کھانے کی طرف راغب ہوتا ہے، ہر چیز کو منہ میں ڈال کر چکھنا، چیک کرنا چاہتا ہے اس کو غذا پر لگایا جائے اور اس کی بوتل کو کم کرنا شروع کردیا جائے، اور ایک سال کی عمر میں اسے کپ یا گلاس سے دودھ پینے کی عادت ڈالی جائے، تاکہ ہم ان بیماریوں سے بچوں کو بچا سکیں۔
ایک طرف ہم بوتلوں پر پیسے خرچ کرتے ہیں اور دوسری طرف بیماریوں کی دوائیں خریدنے پر۔ اور بیماریوں کے دوران تکلیف الگ مول لیتے ہیں۔
اس لیے ہم تمام ماؤں کو یہی سمجھاتے ہیں کہ بچوں کو اپنا دودھ پلائیں، اور کسی مجبوری میں ڈاکٹر کے مشورے سے بوتل سے دودھ پلانا پڑ جائے تو اس کو ایک سال میں بند کردیں، اور اپنے بچوں کو بیماریاں خرید کر مت دیں۔
بہت ساری ماؤں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ محبت میں کئی کئی سال تک فیڈر پلا رہی ہوتی ہیں اور سمجھانے کے باوجود فیڈر بند نہیں کرتیں۔ اس طرح کے بچے عموماً کھانا کھانے کے معاملے میں خراب ہوتے ہیں، اور جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے مسائل زیادہ گمبھیر شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
ایک سال سے زائد عمر کے بچوں کی فیڈر فوری طور پر بند کریں، گلاس یا کپ سے دودھ پلائیں اور دودھ بھی کم کریں۔ ایک دو گلاس یعنی تقریباً سولہ اونس یا آدھا لیٹر بہت ہے۔ باقی بچے کو ٹھوس غذا کھانی چاہیے۔
محبت کا مطلب بچوں کی بے جا ضد کو ماننا نہیں۔“