جمعہ کی رات جب انعام الرحمٰن کا فون آیا کہ ڈاکٹروں نے مولانا کی رحلت ڈکلیر کردی ہے تو اچانک نگاہوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ یہ خبر غیر متوقع نہیں تھی۔ مولانا کی صحت کی گرتی ہوئی تشویشناک صورتِ حال کئی روز سے نگاہوں کے سامنے تھی۔ آدھا گھنٹہ پہلے ہی میں ان کے پاس سے ہو آیا تھا جہاں آئی سی یو میں لگا مانیٹر باربار الارم بجا رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس خبر نے کچھ لمحات کے لیے سکتہ طاری کردیا۔ اچانک ایسے محسوس ہوا گویا گھنی چھاوں سے تپتی ہوئی دھوپ میں آگیا ہوں۔
یاد آتا ہے کہ مولانا مرحوم سے پہلی ملاقات 1992ء میں ایس آئی او کے ایک پروگرام میں ہوئی تھی۔ اُس وقت میں انجینئرنگ کے سال اول کا طالب علم تھا، امتحانات بہت قریب تھے۔ اس کے باوجود جن لوگوں کی زیارت کے اشتیاق نے اس طویل سفر کی تحریک پیدا کی تھی ان میں ایک نمایاں نام مولانا مرحومؒ کا تھا۔ پروگرام کے دوران ہی ہلکی سی ہلچل ہوئی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک بلند قامت بزرگ اسٹیج کی سمت چلے آرہے تھے۔ ہلکی مسکراہٹ سے مزین نورانی چہرہ، دراز قد و دراز ریش، اونچی ٹوپی اور ہلکے رنگ کی شیروانی، چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی ذہین آنکھیں، کشادہ جبیں و خندہ رو، دھیمی، منکسرانہ لیکن پُراعتماد چال، سراپا وقار، مجسم متانت.. یقین ہوگیا کہ یہی ”معروف و منکر“ اور ”اسلام کی دعوت“ کے مصنف ہیں۔ مولانا نے تقریر شروع کی تو آواز اتنی پست تھی کہ قرب کے باوجود سننا مشکل تھا۔ گویا جو دولت لٹ رہی تھی وہ شوق و قدردانی اور مکمل یکسوئی و توجہ کے بغیر سمیٹی نہیں جاسکتی تھی۔ ہم ہمہ تن گوش ہوگئے۔ لیکن کچھ ہی دیر میں آواز بلند ہوتی گئی۔ تقریر میں ایسے موڑ بھی آئے جب جوش اور ولولے سے آواز میں گھن گرج بھی پیدا ہوگئی، گویا ایک پُرسکون دریا ایک متلاطم سمندر سے آملا ہو۔ شبنم افشانی اور شعلہ نوائی کا ایسا انوکھا امتزاج اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ امتزاج مولانا مرحوم کی تحریروں، تقریروں بلکہ ان کے مزاج کی اہم خصوصیت تھا۔ ان کی تقریر ہمیشہ انتہائی دھیمی آواز اور سبک لہجے میں شروع ہوتی۔ یہ گویا حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم شخصیت کا اظہار ہوتا۔ لیکن جب بات باطل سے مقابلے اور اس کو چیلنج کرنے کی آتی، دینی حمیت کے اظہار اور دین پر چلنے اور قائم رہنے کے عزم و حوصلے کا اعلان مقصود ہوتا، ظالم شیطانی قوتوں کو للکارنے اور خبردار کرنے کا موقع ہوتا تو لہجہ و آہنگ بھی فولادی یعنی بَأْسٌ شَدِيد والا ہوجاتا۔ افہام و تفہیم کا گداز لہجہ یک بیک خطیبانہ آہنگ اختیار کرلیتا۔