!بے لوث رضاکاروں ! تمہاری عظمت کو سلام

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
مایوسیوں کی سیاہ رات میں امید کے چراغ جلانے والو! تمھارے جذبۂ اخوت کو کن الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کروں؟ اہلِ وطن پر ہر جانب سے مصائب و آلام کی یلغار پر امید کی کرن بن کر تم میدان میں اترے اور ہر جانب تم نے اذان دی۔
اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا، قندیل!
یہ اذان دینے والے ہمیشہ قومی مصائب اور ارضی و سماوی آفات کے موقع پر دوست اور دشمن سب میں میدانِ عمل میں دیکھے گئے ہیں۔ یہ کسی سے صلہ نہیں چاہتے، یہ اللہ کے بندے ہیں اور ان کا صلہ اسی کے ذمہ ہے۔ یہ جماعت اسلامی کے قائدین و کارکنان اور الخدمت کے رضاکار و ذمہ داران ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا منظر دیکھ کر جگر پھٹ جاتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، انسانیت کی بے بسی پر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ اللہ سے بغاوت میں تو اس ملک کے مقتدر طبقات اور سرمایہ داروں و جاگیرداروں کا بنیادی کردار ہے، مگر ہم بحیثیت قوم اجتماعی طور پر بھی اس جرم سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ ہم نے قیادت کا تاج ہمیشہ انھی کے سر پہ رکھا ہے جو نہیں جانتے کہ روشِ بندہ پروری کیا ہے۔
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے!
جو ہزاروں لوگ بوڑھے، بچے، مرد و خواتین سیلاب میں شہید ہوئے وہ کون تھے؟ وہ ہمارا ہی خون اور ہمارا ہی جگر تھے۔ جو لاکھوں گھر سیلاب میں بہہ گئے وہ ہماری ہی قوم کا سرمایہ اور سائبان تھے۔ جو مویشی، فصلیں اور باغات نیست و نابود ہوگئے وہ ہمارے ہی جگر گوشوں کی ملکیت تھے۔ ہم لسانی، قبائلی اور علاقائی تقسیم سے ماورا ہیں۔ ہم سب نے وہ کلمہ پڑھا ہے جو ہم سب کو ملّتِ واحدہ بناتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں بتایا ہے کہ بستیوں اور قوموں پر مصیبتیں کیوں اور کیسے آتی ہیں؟ سورۃ النحل میں ارشاد ہے:
’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن واطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کردیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔‘‘ (النحل: 112)
دوسرے مقام پر بھی اس موضوع پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ (اللہ) مزا چکھائے اُن کو اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔‘‘ (الروم:41)
قوم سبا کے حالات کم و بیش ہمارے حالات سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ قدیم یمنی قوم انتہائی ترقی یافتہ مگر ناشکری تھی۔ اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’سبا کے لیے ان کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دائیں اور بائیں ہر دو جانب باغات ہی باغات۔ کھاؤ اپنے رب کا رزق اور شکر بجالاؤ اس کا، ملک ہے عمدہ وپاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا، مگر وہ منہ موڑگئے۔ آخرکار ہم نے ان پر بند توڑ کر سیلاب بھیج دیا اور ان کے پہلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انھیں دیے جن میں محض کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں۔ یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا، اور ناشکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔ اور ہم نے ان کے اور ان کی بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسا دی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں۔ چلو پھرو ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔ مگر انھوں نے کہا اے ہمارے ربّ ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کردے۔ انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں تتر بتر کرڈالا۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو بڑا صابر وشاکر ہو۔‘‘ (سبا: 15-19)
آپ اندازہ کریں کیا یہ ساری باتیں، ہر جانب ہرے بھرے کھیت اور پھلوں سے لدے باغات ہمارے ملک کی پہچان نہیں؟ کیا وہ راستے جو اب ناپید ہوگئے، دن رات سفر کے لیے موجود نہیں تھے؟ قوم سبا نے ناشکری کی تو ہم ان سے بھی زیادہ ناشکرے ٹھہرے۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔
ان مظلومین کی امداد کے لیے اوّل روز سے عملی کاوش اور اللہ کے دربار میں دعائوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ راتوں کو نیند نہیں آتی تو انہی کے خیال میں وقت گزرتا ہے اور اللہ سے ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان اور ذمہ دار سیلاب زدہ علاقوں میں الخدمت فائونڈیشن کے رضا کاروں کے شانہ بشانہ دن رات خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ پورے ملک میں سیلاب زدہ علاقوں کے جماعتی ذمہ داران کو جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنے گھروں کی پروا کیے بغیر مصیبت زدگان کی مدد میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں تو تصور میں ان کے ماتھے چومتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔
جماعت اسلامی کا یوم تاسیس 26اگست کو پورے ملک میں تجدیدِ عہد کے طور پر منایا گیا۔ اس روز قیامِ پاکستان کے وقت کے تاریخی واقعات جو سنے اور پڑھے تھے دل میں سما گئے، اُس دور میں بھی جماعت کے لٹے پٹے ارکان و کارکنان ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے، اپنے دکھوں اور زخموں کے باوجود مہاجر بھائی بہنوں کی خدمت اور بحالی میں ہمہ تن مصروف تھے۔ آج بھی اس قافلے کے راہی اسی جذبے کو زندہ کرکے سید مودودیؒ اور سابقینِ جماعت کی ارواح کو راحت پہنچا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی اور الخدمت نے پورے ملک میں بازاروں، گلی کوچوں، چوکوںچوراہوں میں کیمپ لگا رکھے ہیں۔ شدید حبس اور گرمی میں کارکنان گھنٹوں ان کیمپوں پر اعلان کرتے اور معاونین سے اعانتیں وصول کرتے ہیں۔ ایک شام میں ایک کیمپ میں گیا تو نوجوانوں کو ہمہ تن مصروف دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اے اللہ! یہ تیرے دین کے سپاہی اور تیری مخلوق کے خادم ہیں۔ تُو ان کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا فرما۔ میں نے ہمیشہ ایک اصول پر عمل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی اجتماعی ضرورت کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے ہوں تو اپیل کرنے سے پہلے اپنی حیثیت کے مطابق اگرچہ وہ چند کھجوریں ہی کیوں نہ ہوں، اس فنڈ میں جمع کرائی جائیں اور پھر احباب اور عوام سے اپیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ اس میں بڑی برکت ڈالتا ہے۔ اِس مرتبہ بھی بڑا خوشگوار تجربہ ہوا۔ اللہ نے لوگوں کے دل اس فنڈ میں حصہ ڈالنے کے لیے کھول دیے۔ ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ جن سے ایمان تازہ ہوگیا۔
میڈیا عموماً ہمارے بارے میں خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے، مگر اس موقع پر اللہ کا شکر ہے کہ الخدمت اور جماعت کا نام سرفہرست ہے۔ حکمران محض لیپاپوتی کررہے ہیں۔ ہمارے رضاکار اور قیادت مسلسل سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف ہیں۔کسی سے نہ داد کی تمنا ہے نہ صلے کی آرزو۔ یہ سب کام محض اللہ کی رضا کے لیے کیا جارہا ہے۔ اللہ قبول فرما لے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ریا کاری سے محفوظ رکھے اور اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری بشری کوتاہیاں اپنی جگہ ہوں گی کیوںکہ ہم فرشتے نہیں، مگر اللہ کا شکر ہے کہ ہم نمود و نمائش کی خاطر نہیں بلکہ دینی فرض اور رضائے الٰہی کے طور پر یہ سارے کام کرتے ہیں۔ پبلسٹی محض اس وجہ سے چاہتے ہیں کہ قوم کی توجہ اس کارِخیر کی طرف مبذول ہوجائے اور مظلومین کے زخموں پر مرہم پٹی کا اہتمام ہوسکے۔ سیلاب زدگان کی بحالی کا کام کئی سالوں کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے لیے سب فلاحی تنظیموں اور رضاکاروں کو تیار رہنا چاہیے۔ حکومت کو جو امداد آرہی ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ مستحقین تک پہنچ جائے۔
یہ وقت اللہ کی طرف رجوع اور دعا کا تقاضا کرتا ہے۔ خود احتسابی اور اپنی اصلاح کے بغیر عذاب نہیں ٹل سکتا۔ اس سیلاب ہی کے دوران جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے دن جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر، بے مثال مفکر و مصنف، دینِ حق کے داعی اور مبلغ، مردِ درویش حضرت مولانا سید جلال الدین عمری بھی 88سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے بعد طے کیا کہ مولانا عمری صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ 28 اگست بعد نماز عصر منصورہ میں ادا کی جائے۔ مجھے حکم ملا کہ میں نماز جنازہ پڑھائوں۔ اس موقع پر شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمالک، قیم جماعت امیر العظیم، نائب قیم جماعت حافظ ساجد انور، امیر ضلع لاہور ڈاکٹر ذکراللہ مجاہد صاحبان نے انتہائی مختصر اور دلنشین انداز میں مرحوم عمری صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
میرے دل میں کئی دنوں سے یہ خیال آتا تھا کہ ہمارے پیارے جو سیلاب کی نذر ہوگئے، جن کی میتیں بھی نہ مل سکیں اور نہ ہی ان کا کوئی سراغ پتا ہے کہ ان کے جسم کہاں چلے گئے، ان کے لیے غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا جائے۔ اس موقع پر جنازہ پڑھانے سے پہلے میں نے یہ اعلان کیا کہ آج ہم مولانا عمری صاحب کے ساتھ اپنے ان تمام بزرگوں، مائوں، بہنوں اور بچوں کا جنازہ بھی پڑھیں گے جنھیں جنازہ اور قبر نصیب نہ ہوسکی۔ وہ شہید ہیں اور امید ہے کہ اللہ کے ہاں وہ جنت الفردوس میں مقیم ہوں گے۔ ہمارے اوپر ان کا یہ حق ہے کہ ہم انھیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ اس جنازے سے میرے دل کو قدرے اطمینان ہوا کہ ان شہدا کی روحیں بھی ہمارے اس عمل سے خوش ہوں گی۔ اللہ ہمیں اخلاص عطا فرمائے۔
اللہ نے ہمیں نجات کا راستہ بتا دیا ہے۔ اے اہلِ وطن آئو اس نصیحت کو پلے باندھ لیں۔ ارشادِ باری ہے:
’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا۔‘‘ (الاعراف: 96)
اللہ رحمٰن و رحیم کا در چھوڑ کر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ہر طاغوتی دروازے پر دستک دینے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ سودی معیشت پر اصرار کرنے اور اسلامی کلچر و ثقافت کی جگہ فحاشی و عریانی کو فروغ دینے سے اس دلدل سے نکلنا کسی صورت ممکن نہیں۔ ہم تو دردِدل سے قیام پاکستان کے وقت سے حکمرانوں اور عوام سبھی سے یہی گزارش کرتے رہے ہیں کہ اللہ کے قانون کو نافذ کرو، ہر دکھ دور ہوجائے گا۔ ہماری آواز پر نہ اوپر سے کسی نے لبیک کہا اور نہ نیچے والوں نے اس کی قدر پہچانی۔ اس کے باوجود ہم مایوس نہیں ہیں۔ ہم اپنا صلہ اللہ سے چاہتے ہیں۔ جو لوگ ہمیں ناکام سمجھتے ہیں ان کو ہمارا یہی جواب ہے کہ ہماری کامیابی و ناکامی کا پیمانہ وہی ہے جو اللہ اور رسولؐ نے ہمیں بتادیا ہے۔ جو اللہ کی رضا پر چلے، اللہ اسے کبھی مایوس و محروم نہیں رکھتا۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تُو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا، نہ تن!