معروف کالم نگار لطیف جمال نے سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر بروز پیر 29 اگست 2022ء کو اپنے زیر نظر کالم میں بارش اور سیلاب متاثرین کی جو درد کتھا اور حکمرانوں کی بے حسی اور ڈھٹائی کا جو ذکر کیا ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’سسکیاں بھرتا ہوا سندھ بارش کے پانی کے نیچے اور اس کے گھیرے میں ہے۔ بارش کے پانی نے سارے سندھ کو غرقِ آب کر ڈالا ہے۔ کنوارے ہاتھوں سے بنائی گئی رلیاں لکڑیوں میں لٹکا کر مائیں اپنا سر ڈھانپنے جتنا ٹھکانہ بناکر اپنے بچوں کو چھپائے بیٹھی ہیں۔ سورج بادلوں سے نکل کر برہنہ پا بچوں کے بدن کو جلاکر دوبارہ بادلوں کی ردا اوڑھ لیتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر گاڑی کو امدادی سامان سے بھری ہوئی گاڑی سمجھتے ہوئے اس کی سمت لپکتے ہیں، لیکن پھر ناامید اور یاس بھری نگاہوں کو بھوک کی بے تابی کے ساتھ جھکا لیتے ہیں۔ یہ تصویر سندھ کی ہے یا پھر جنوبی سوڈان اور برونڈی کی؟ تصویر کے نیچے کیپشن سے خبر پڑی ہے کہ یہ بچے کسی محفوظ کیمپ میں بھی نہیں ہیں بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت سر چھپانے کے لیے پلاسٹک، کپڑوں، رلیوں اور بھیگی چارپائیوں کی مدد سے تعمیر کردہ ایک چھوٹے سے آشیانے میں بیٹھے ہوئے ہیں، اور سارے اہلِ خانہ بے بسی اور درد و الم کی تصویر بنے کسی مدد کے منتظر ہیں۔ سندھ جہاں خوشبودار اور معطر ہوائیں بھی چلتی ہیں جب چاول کی فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے اور جو سُکھ اور شانتی کی نوید اپنے ہمراہ لایا کرتی ہے، آج وہی سندھ پانی کی زنجیروں میں اسیر ہوچکا ہے، ہر سمت راستوں کے بجائے پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ ایک پانی لوگوں کی آنکھوں میں ہے تو دوسرا وہ پانی ہے جو ہر جانب اور چہار سو دکھائی دیتا ہے، لیکن 15 برس سے سندھ پر قائم کردہ سلطنت کے سربراہ پانی کے اخراج کا کوئی مناسب نظام بھی تشکیل نہیں دے سکے ہیں، اور عوام بارش کے پانی سے بھی کہیں زیادہ دراصل حکمرانوں کے بے رحم رویوں کے سبب غرقِ آب ہوئے ہیں۔
کم از کم میری نظر سے تاحال کوئی ایسی مثال نہیں گزری ہے کہ دنیا میں قدرتی آفات کی وجہ سے کسی عوامی بغاوت نے کبھی کوئی جنم لیا ہو اور عوامی سمندر کے سونامی نے حکمرانوں کے تخت الٹ دیئے ہوں۔ لیکن جب لوگوں کی کوئی مدد نہ ہو، کوئی ان کے آنسو پونچھنے والا نہ ہو، تب عوام سنگین سماجی اور نفسیاتی مسائل کا شکار بن جاتے ہیں۔ بہتر حکمران اپنے عوام کو مصیبت اور مشکل گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑتے اور انہیں لاوارث ہونے کے احساس میں بھی مبتلا نہیں ہونے دیتے۔ اہلِ سندھ اس وقت 2010ء اور 2011ء کی آفات سے کہیں زیادہ مشکل صورتِ حال کا سامنا کررہے ہیں۔ سندھ کی ایک بڑی آبادی کا دارو مدار زراعت پر ہے، جبکہ سندھ کی خریف کی فصل مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ بارش کا کھڑا ہوا پانی خاص طور پر نشیبی علاقوں میں اتنا زیادہ ہے کہ آئندہ دو برس تک بھی یہاں پر فصل کی کاشت ممکن نہیں ہوسکے گی۔ ایسی ابتر صورت حال میں سندھ کی کروڑوں پر مشتمل آبادی جو دیہی سندھ میں رہتی ہے وہ اپنی فصلوں کی تباہی کے بعد جس بدحالی کا سامنا کرے گی وہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہوگا، اگر حکومت نے متاثرہ لوگوں کی دیکھ بھال نہ کی تو اس کے بدترین نتائج آئندہ آنے والے دو ڈھائی مہینوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ سوشل میڈیا کی دنیا پر جذیاتی نعرے بازی اور عجیب و غریب مشورے دینے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو سارے اہلِ سندھ سے اپیلیں کرتے رہتے ہیں کہ وہ کراچی پہنچیں اور وہاں آکر کاروبار کریں۔ اگر ہم افغانیوں یا دوسری آبادکاری کو کائونٹر کرنے کے لیے اس عمل کی شعوری یا لاشعوری طور پر حمایت کرتے ہیں تو یہ ہماری تاریخی غلطی ہوگی جس کا کبھی بھی ازالہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ غیر قانونی بیرونی آبادکاری کے لیے سرکار پر دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ سیاسی دبائو کی وجہ سے وہ غیروں کی آبادکاری کی نشاندہی کرے اور اسے سندھ سے بے دخل کرے، لیکن اسے کائونٹر کرنے کے لیے اگر ہم دیہی سندھ کی 23 ملین آبادی کو کراچی میں آباد کردیں اور دیہی سندھ کو مکمل طور پر فراموش کردیں، گوٹھوں کی ازسرنو تعمیر کے بجائے انہی سے دست بردار ہوجائیں اور تباہ شدہ سارے سندھ کو کراچی میں لابسائیں تو یہ ہماری تاریخی غلطی اور کوتاہی ہوگی۔ اہلِ سندھ کو شہروں میں روزگار کے مواقع تلاش کرنے چاہئیں لیکن دیہی سندھ کی بربادی کی قیمت پر ہرگز نہیں۔ ہم ہوائوں میں جھومنے والی فصلوں کو تباہی سے بچانے اور سرسبز و شاداب سندھ کو پھر سے آباد کرنے کا میکنزم تشکیل دینے کے بجائے اگر اس سے بالکل ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں تو اس صورت میں سندھ کی زرعی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی اور خوراک کی قلت کے جو بحران جنم لیں گے اس کا ازالہ کبھی ممکن بھی نہیں ہوگا۔
موجودہ بارش نے جہاں سندھ کے بڑے شہروں کو ڈبویا ہے،وہیں دیہی سندھ کو بھی مکمل طور پر تباہی سے دوچار کردیا ہے جس کی ساری ذمہ داری سندھ میں گزشتہ 15 برس سے قائم و برقرار خراب حکمرانی پر عائد ہوتی ہے۔ حالیہ شدید ترین بارشوں نے سندھ کی میونسپلٹیوں اور بلدیاتی اداروں کی ساکھ کو بھی یکسر بے نقاب کر ڈالا ہے۔ دنیا نے حیرت انگیز ایجادات کرکے حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کی ہیں، چاند پر کپاس اور آلو کاشت کرنے کے منصوبے تشکیل پارہے ہیں، ہوا سے لیے گئے پانی (Waterjen) کی ٹیکنالوجی سے فصلیں کاشت کی جارہی ہیں اور یہی پانی پھر پینے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ مصنوعی بارشوں کو کامیاب تجربات کے بعد بادلوں سے کنٹرول کرکے حسبِ منشا بارش برسانے کے بھی کامیاب تجربات کرلیے ہیں، اور ہماری اہلیت کی انجینئرنگ یہ ہے کہ ہم ایک مناسب گٹر بھی نہیں بناسکے اور نہ ہی پانی کے اخراج کے نظام کو ہی بہتر بناسکے ہیں۔ ہمارے سیاسی آقائوں نے بلڈرز مافیا کے ساتھ مل کر پانی کے گزرنے کے قدرتی اور فطری راستوں (گزرگاہوں) کو بھی فروخت کر ڈالا ہے۔ انفرااسٹرکچر کی انجینئرنگ کی حالت یہ ہے کہ سارے سندھ کے روڈ اور راستے بارش سے پیشتر ہی کھنڈر بنے ہوئے تھے اور بارش کے بعد تو اب یہ ڈیڑھ صدی قبل کے سندھ کا منظرنامہ پیش کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ بارش اور سیلاب دراصل ہمارے حکومتی نظام کی خراب کارکردگی کا نتیجہ ہیں۔ ہمارا اجڑا ہوا انفرااسٹرکچر آفات کا سامنا کرنے کی طاقت اور صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ میونسپلٹیوں اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اپنے ہاتھ ہی چبا لینے کو جی چاہتا ہے۔ حکومت کے ہر شعبے میں براجمان سرکاری افسر شاہی وسائل ہونے کے باوصف اپنی کارکردگی دکھانے اور اپنے شعبوں کو مثالی بنانے کے بجائے اپنی ذاتی زندگی کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اگر گزشتہ 15 برس میں سارے دیہی سندھ میں موجود کچے گھروں کی تفصیل جمع کرکے کم اخراجات کے حامل پکے گھر تعمیر کرائے جاتے اور ان کی یہ تعمیر آفاتِ ارضی و سماوی کو مدنظر رکھ کر کی جاتی تو سندھ کے باشندے در بدری اور بے گھری کے موجودہ ایام تو نہ دیکھتے، لیکن صوبائی سرکار نے دس برس پہلے آنے والے سیلاب کے نقصان دیکھ کر اور ان سے سیکھ کر بھی امسال سارے سندھ کو ڈبو کریہ ثابت کردیا ہے کہ وہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کسی بھی ترقیاتی ماڈل پر کام کرنے کے لیے سنجیدہ ہے اور نہ ہی اُس کے پاس اس کی مطلوبہ صلاحیت ہی ہے۔ جب سندھ اور بلوچستان شدید بارشوں کے سلسلے کی وجہ سے غرقِ آب ہوتے رہے اور بدترین انسانی المیوں کا سامنا کرتے رہے، ان کی وارثی اور مالکی (والی وارث ہونا مراد ہے: مترجم) کرنا تو ٹھیرا ایک طرف، قومی میڈیا کی سوئی ’’شہبازگل کے ساتھ جنسی تشدد ہوا ہے یا نہیں؟‘‘ کے معاملے پر اٹکی رہی۔ گویا ڈوبتی، سسکتی، بلکتی مخلوق ان کے قومی فرض میں شامل ہی نہ ہو۔ ایک بڑی انسانی آبادی بے گھر بن گئی لیکن ہمارے قومی میڈیا کی آنکھ اتنے بڑے انسانی المیے کو نظرانداز کرتی رہی۔ موجودہ مسلم لیگ نواز کی مشترکہ حکومت نے مہنگائی کے خلاف مارچ کرکرکے اقتدار حاصل کیا اور فوری الیکشن کرانے کے بجائے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرانے اور بدترین معاشی پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب عوام کا اس وقت تک معاشی استحصال کرتی چلی آرہی ہے، جس نے عوام کے لیے معاشی ریلیف پر مبنی کوئی پیکیج لانے کے بجائے انہیں ابھی تک محض معاشی آفتیں ہی بہ طور تحفہ پیش کی ہیں۔ اس وقت جبکہ سندھ کی 23ملین آبادی حالیہ بارشوں میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی ہے اور جو روٹی، کپڑے اور مکان سے محروم بن چکی ہے، صوبائی اور وفاقی حکومت متاثرینِ بارش اور سیلاب کی امداد کرنے کے بجائے اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے بارشوں کو اعمال کا نتیجہ قرار دیتی رہی ہیں اور اب بھی اپنی سابقہ روش پر گامزن ہیں۔ ان کا یہ عذر بھی صرف ایک عذرلنگ ہی ہے کہ ہمیں وسائل کی کمی درپیش ہے، درآں حالیکہ ایسی کوئی بات بھی ہرگز نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے اداروں (UN Agencies)، انٹرنیشنل فنڈنگ کرنے والے اداروں یا یورپین یونین سمیت سیکڑوں افراد کی مدد کرنے والے اداروں پر اکنامک افیئر ڈویژن (EAD) کی بھاری شرائط عائد کرکے ان خیراتی اداروں کا راستہ روکا گیا جو ملک کے مختلف غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے تھے۔ مثلاً 2005ء کے زلزلے، 2010ء کے مہابوڈ (بہت بڑے سیلاب) اور 2011ء کی شدید ترین بارشوں میں جنوبی سندھ میں آنے والی تباہیوں کے دوران کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کے اندر لوگوں کی مدد کرنے والے ادارے موجود تھے، جنہوں نے متاثرین کو ریسکیو کیا تھا، لیکن اکنامک آفیئر ڈویژن کی بھاری شرائط لاگو/عائد کرکے امداد کرنے والے اداروں پر سرکاری کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ان اداروں نے پاکستان میں اپنے آپریشن محدود کردیئے۔ ڈیزاسٹر کی سنگین صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو ایک سرکولر جاری کیا گیا جس میں غیر سرکاری اداروں کو EAD کی جانب سے Exempted قرار دیا گیا ہے۔ اب نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں معذور بنی ہوئی ہیں اور عوام کی مدد کرنے میں بالکل ناکام ہوچکی ہین۔ اس وقت متاثرینِ بارش اور سیلاب کو ریسکیو کرنے اور ریلیف دینے کی اشد ضرورت ہے۔ لوگوں کا جو معاشی نقصان ہوا ہے اس کے ازالے کے لیے حکومت محض بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بینیفشریز کی رقم کو بڑھاکر دینے کی بات کررہی ہے، لیکن سارا سندھ ہی متاثر ہوا ہے اور اس کا ازالہ کرنا حکومت کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ انٹرنیشنل ڈونرز کی مدد کے بغیر مسمار اور برباد شدہ گوٹھوں کی ازسرنو تعمیر کس طرح سے ممکن ہوپائے گی؟ تاکہ انہیں آئندہ بارشوں سے بچایا جاسکے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈونرز اداروں کو بار بار سندھ کی غرقِ آب ہوجانے والی زرعی زمینوں کے لیے میگا پروجیکٹ ترتیب دینے پر آمادہ کریں اور ان کے راستوں میں رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں تاکہ سندھ کی زرعی زمینوں اور فصلوں کو بچانے کے لیے بارش کے پانی کے اخراج کا نظام وضع کیا جاسکے۔ اسی طرح ڈونرز اداروں کے تعاون سے سندھ کے سارے گوٹھوں اور شہروں کے رہائشی علاقوں کی بھی ازسرنو تعمیر ہونی چاہیے اور نظامِ اخراج کا مناسب اور مستقل حل تلاش کیا جانا بھی ازحد ضروری ہے، تاکہ شہروں اور دیہات کو باربار ڈوبنے سے بچایا جاسکے۔ اگر موجودہ سنگین انسانی بحران کو جلد از جلد حل نہ کیا گیا اور ڈونرز اداروں کو اس بڑے انسانی المیے میں صوبائی اور وفاقی حکومت نے اپنے ساتھ شامل نہ کیا تو یہ تاریخ کا بہت بڑا اور بدترین المیہ ہوگا۔ یہ ایسا عوامی احتساب ہوگا جس سے موجودہ دونوں حکومتیں بھی بچ نہیں سکیں گی، اور نہ ہی منتخب عوامی نمائندے اس سے محفوظ رہ پائیں گے۔
(نوٹ: کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے)