متاثرین کو ایک کمرے اور کچن پر مشتمل مکانات تعمیر کرکے دیئے جائیں گے
پورے ملک کو پالنے والا کراچی آج لاوارث ہے، لیکن آج بھی سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کے لیے اُس نے اپنا دل کھول رکھا ہے، اور کراچی کے شہری بڑی تعداد میں اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، اور انہوں نے ایک بار پھر زلزلہ زدگان کی مدد کی تاریخ کو دہرایا ہے۔ اس وقت پورے ملک کی طرح سندھ بھی مشکل میں ہے، این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سیلاب اور بارشوں سے اب تک 3 کروڑ 30 لاکھ 46 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی متاثر ہوچکی ہے۔ سب سے زیادہ اموات سندھ میں 53 رپورٹ ہوئیں، اسی دوران خیبر پختون خوا میں 16، گلگت بلتستان میں 5، بلوچستان میں 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ وزارتِ نیشنل فوڈ سیکورٹی نے زرعی شعبے کو سیلاب و بارشوں سے پہنچنے والے نقصان کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی ہے۔ زراعت میں سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا ہے۔ دستاویز کے مطابق سیلاب اور بارشوں سے پاکستان کی زراعت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ زرعی شعبے کو 536 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت سندھ کے مختلف حصوں میں حالیہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کراچی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور صوبائی حکومت کے اندازے کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ لوگ پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے کئی آفت زدہ اضلاع سے روزانہ کی بنیاد پر سیلاب سے متاثرہ 3 سے 4 ہزار افراد شہر پہنچ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اور الخدمت پورے ملک کی طرح امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں متحرک ہے۔ اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ الخدمت کراچی سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرچکی ہے، امدادی سامان جس میں غذائی اجناس، خیمے اور دیگر ضروری اشیا شامل ہیں، ان کی متاثرہ علاقوں کے لیے روزانہ روانگی کا سلسلہ جاری ہے، شہر بھر میں 150امدادی کیمپ قائم ہیں جن میں اہلِ کراچی بلا تفریق تعاون کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے تمام کارکنان الخدمت کے رضا کار کے طور پر کام کررہے ہیں، متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کے ساتھ ساتھ اب متاثرین کی بحالی اور آباد کاری کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور متاثرین کو ایک کمرے اور کچن پر مشتمل مکانات تعمیر کرکے دیئے جائیں گے جن کے لیے اہلِ خیر سے فی مکان 50 ہزار روپے عطیہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ مزید تفصیلات میں حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سکھر میں الخدمت میگا کچن سمیت اندرون سندھ 15کچن مسلسل مصروفِ عمل ہیں اور متاثرین کو پکا پکایا کھانا فراہم کیا جارہا ہے، جس میں پاکستان ایسوسی ایشن آف دبئی کا تعاون حاصل ہے۔ ہم ایک بار پھر کراچی میں اہلِ خیر افراد، تاجروں، صنعت کاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے الخدمت سے بھرپور تعاون کریں، کراچی کے نوجوان جماعت اسلامی کے کارکنوں کے ساتھ الخدمت کے رضا کار بنیں۔ ادارہ نورحق میں قائم مرکزی امدادی کیمپ میں شہر بھر سے امدادی سامان روزانہ آرہا ہے اور متاثرہ علاقوں کے لیے روانہ کیا جارہا ہے۔ نوجوان یہاں آئیں۔ مائیں، بہنیں بھی اس کام میں شریک ہوں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے شہر کھنڈر بن گیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، شہر میں کوئی بہتر ٹرانسپورٹ موجود نہیں ہے۔ اس صورت حال کے ساتھ کے الیکٹرک کے بھاری بلوں نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور جگہ جگہ کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔ اس سنگین صورت حال کے باوجود اہلِ کراچی نے ہمیشہ کی طرح اپنے مسائل اور مشکلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیلاب زدگان کی دل کھول کر مدد کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ متاثرین کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی نااہلی و کرپشن ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے۔ سندھ حکومت لسانی سیاست کرنے کے اپنے پرانے وتیرے پر چل رہی ہے اور اس میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جو لسانی سیاست کرکے ہی اپنی دکانیں چمکاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق سب سے پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور کے پی کے کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، متاثرین سے ملاقاتیں کیں اور ان کی دادرسی کی۔ جماعت اسلامی اپنے محدود وسائل کے ساتھ متاثرین کی خدمت، امداد اور بحالی کے لیے کوشاں ہے، ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ قوم نے جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کو کل تک 45کروڑ روپے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دیے ہیں، ایک لمحہ ضائع کیے بغیر امداد متاثرین تک پہنچا رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو غیر ملکی این جی اوز کے سہارے چھوڑنے کے بجائے اچھی شہرت کی حامل مقامی تنظیموں اور رفاہی اداروں کو بروقت امداد پہنچائیں۔ اس وقت جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے 15ہزار سے زائد رضاکار سیلابی علاقوں میں فلاحی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں جن میں ڈاکٹرز، اساتذہ، انجینئرز سمیت ہر طبقہ ہائے فکر کے مرد و خواتین شامل ہیں۔ یہ وقت جہاں مصیبت زدہ افراد کے لیے امتحان کا ہے وہیں قدرتی آفت سے محفوظ لوگوں کے لیے بھی آزمائش ہے جنھیں بڑھ چڑھ کر مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔