بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاکستان سے متعلق ایگزیکٹو بورڈ نے اپنے سودی قرض پروگرام کی بحالی اور توسیع کی منظوری دے دی ہے جس پر ہمارے حکمران پھولے نہیں سما رہے، بغلیں بجا رہے ہیں، جشن منا رہے ہیں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کی جانب سے مبارک سلامت کا شور بپا ہے مرزا غالبؔ کے الفاظ میں اس وقت کیفیت کچھ یوں ہے کہ ؎
قرض کی لے کے پیتے تھے مے اور کہتے تھے ہاں!
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جسے عرف عام میں آئی ایم ایف کہا جاتا ہے کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان قرضہ پروگرام کی معیاد میں ایک سال کی توسیع کر دی ہے اور یہ اب تیس جون 2023ء تک جاری رہے گا اس پروگرام کے تحت قرض کی مجموعی رقم میں بھی ایک ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ قرض میں سے ایک ارب سولہ کروڑ ڈالر اسی ہفتے ادا کر دیئے جائیں گے موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ پروگرام معطل تھا، حکومت کو اسے بحال کرانے کے لیے آئی ایم ایف کی بے پناہ منت سماجت کرنا بلکہ ناک تک رگڑنا پڑی ہے اور ہر طرح کی کڑی سے کڑی شرائط تسلیم کرنا پڑیں جن میں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ، بیرون ملک سے بلاضرورت اشیائے تعیش کی درآمد کی اجازت اور دوسری ناقابل فہم شرائط بھی شامل ہیں پھر معاملہ ختم بھی نہیں ہو گیا بلکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ آئی ایم ایف کے یہ ساہوکار اکتوبر میں پھر جائزہ لیں گے کہ پاکستانی حکومت طے شدہ شرائط پر من و عن عمل کرنے میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ تو نہیں کر رہی۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس ’’شاندار‘‘ معاہدہ کی منظوری پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ الحمد للہ، آئی ایم ایف نے توسیع فنڈ سہولت کی منظوری دے دی ہے، بہت سے مشکل فیصلے کرنے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے پر وزیر اعظم کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں جب کہ قوم کو اس منظوری پر مبارک باد دیتا ہوں ۔ وزیر مملکت مصدق ملک نے فرمایا ہے کہ پی ٹی آئی کی ملک کو دیوالیہ کرنے کی سازش ناکام ہو گئی ہے، وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے بھی مسرت میں بے قابو ہو کر نعرہ لگایا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے لیے پروگرام کی منظوری دے دی ہے قوم کو مبارک ہو جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا ارشاد ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستانی معیشت کے لیے مثبت پیش رفت ہے اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان مشکل، معاشی امتحان سے سرخرو ہو کر نکلا ہے، یہ پروگرام ایک مرحلہ ہے لیکن پاکستان کی منزل معاشی خود انحصاری ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان میں معاشی استحکام آئے گا اس کامیابی پر وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو شاباش دیتا ہوں۔ دعا ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہو۔ آئندہ پاکستان کو اس کی کبھی ضرورت نہ رہے، وفاقی وزیر خزانہ سے لے کر وزیر اعظم تک کے ان بیانات کے ایک ایک لفظ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فاقہ مستی کی حالت میں قرض کی مے دستیاب ہونے پر وہ سب کیف و نشاط کے کس عالم میں ہیں… جہاں تک وزیر اعظم کی اس دعا کا تعلق ہے کہ خدا کرے آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہو اور آئندہ پاکستان کو اس کی کبھی ضرورت نہ رہے، یہ یقیناً ایک نیک خواہش ہے اور پوری قوم کی جانب سے ’’آمین‘‘ اس کی پشت پر موجود ہے۔ ’’ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد‘‘۔ تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری اگر انتہائی کڑی شرائط کی تکمیل کے بغیر ممکن نہیں تو دعائوں کی قبولیت بھی محض نیک تمنائوں کے اظہار کی مرہون منت نہیں ہو سکتی اس کے لیے بھی بعض اہم عملی اقدامات لازم ہیں… معاشرے میں بے حیائی، عریانی اور فحاشی کا دور دورہ ہو، سرکاری اور نجی ذرائع ابلاغ ان کے فروغ کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں، جھوٹ، فریب کا کاروبار عام ہو، رشوت اور سفارش کے بغیر سو فیصد درست اور جائز کام کروانا بھی سرکاری دفاتر میں ناممکنات میں شامل ہو، نیچے سے اوپر تک غلط بیانی، کم تولنے، ملاوٹ، جعلسازی، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور دھوکہ دہی کا چلن عام ہو گویا وہ تمام خرابیاں جن میں سے کسی ایک کی موجودگی پر سابقہ امتوں کو عذاب کا مستحق ٹھہرایا گیا آج ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہوں اور حکمران چین کی بنسری بجا رہے ہوں، انہیں قوم کو ان سے نجات دلانے کی ذرہ برابر بھی فکر نہ ستائے اور سب سے بڑھ کر سود اور سودی لین دین کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جاتی ہو حالانکہ خالق کائنات نے خود اسے اللہ اور رسولؐ سے جنگ قرار دیا ہو۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ملک کے آئین کی روشنی میں سود کے خاتمہ کا حکم دے، حکمران اسے تسلیم کرنے کی بجائے اپیل کا سہارا لے کر تیس برس گزار دیں، وفاقی شرعی عدالت تیس سال بعد دوبارہ فیصلہ سنائے کہ ملکی آئین اور شریعت میں سود جاری رکھنے کی گنجائش نہیں اس لیے قوم کو اس سے نجات دلائی جائے، سودی بنکاری نظام کی جگہ غیر سودی بنکاری اور معاشی نظام نافذ کیا جائے مگر حکمران ریاستی بنک اور اس کے تابع دیگر بنکوں کے ذریعے پھر سے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کر کے فیصلے پر عملدرآمد میں لیت و لعل کا مظاہرہ کریں اور رب کائنات سے یہ امید بھی رکھی جائے کہ وہ ہماری دعائوں کو قبول فرمائے گا یہ دو عملی نہیں تو کیا ہے؟ جوخالق کائنات کو سخت ناپسند ہے…!!!
جنگ رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟
(حامد ریاض ڈوگر)