مولانا مودودی کا تصورِ جہاد‘ ایک تجزیاتی مطالعہ

چند اہلِ دل‘ اہل علم نے شیبانی فائونڈیشن کے نام سے اسلام آباد میں ایک ادارہ بنایا ہے یہ ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جس کے مقاصد میں قانون‘ بین الاقوامی امور‘ علوم اسلامی‘ مسلم دنیا کے متعلق مسائل اور سوشل سائنسز پر تحقیق شامل ہیں۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ تعلیم میں فائونڈیشن کے پیش نظر ان مقاصد کا حصول ہے۔
-1 جدید قانون اور سوشل سائنسز کے ماہرین کو اسلامی قانون اور علوم سے روشناس کرانا۔
-2 علومِ دینیہ کے ماہرین کو جدید قانون اور سوشل سائنسز سے آگاہی فراہم کرنا۔
-3علوم اسلامیہ کی روشنی میں مسلم معاشروں کی پالیسی سازی کا فریم ورک فراہم کرنا۔
-4 قانون اور سوشل سائنسز کے مختلف شعبوں پر متعدد نوعیتوں کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں مرتب کرنا۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے فائونڈیشن متعدد سطحوں پر تعلیمی‘ تحقیقی اور تربیتی سرگرمیاں کرتی ہے۔ فائونڈیشن کے تحت مطبوعات کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے اللہ پاک سے دعا ہے فائونڈیشن کے کارپردازان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور ان کو مفید علمی و تحقیقی خدمات کی توفیق بخشے۔
جناب مراد علی نے مولانا مودودیؒ کی تصورِ جہاد پر اپنی تحقیق اس کتاب مں پیش کی ہے۔ جناب ڈاکٹر محمد مشتاق احمد سابق ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد تحریر فرماتے ہیں:
’’جہاد ہمیشہ سے اسلام کے معترضین کے ایک مرغوب موضوع رہا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (م: 1979) کی شہرۂ آفاق کتاب الجہاد فی الاسلام کی وجہ تصنیف بھی مختلف نوعیت کے اعتراضات بنے جو مخالفین کی جانب سے اسلام کے تصورِ جہاد پر پیش کیے جا رہے تھے اور جن کا مدلل اور خاطر خواہ جواب مسلمان اہلِ علم کے ذمہ قرض تھا۔ مولانا مودودی نے اس موضوع پر لکھنے والے اپنے پیش رووں کی طرح معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے پورے اعتماد اور ایقان کے ساتھ اسلام کا تصورِ جہاد اس طرح پیش کیا جس طرح انہوں نے اسے سمجھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے زندگی اور موت اور کائنات میں انسان کے مقام کے متعلق اسلام کی تعلیمات کا ایک جامع تصور پیش کیا تاکہ اس تصورِ جہاں (Worldview) کی روشنی میں اسلام کے نظام میں جہاد کی حیثیت اور حقیقت واضح کی جاسکے۔ اس کے بعد معترضین کے اعتراضات سے بچنے کے لیے اسلامی شریعت کے احکام کی بے جا تاویل یا سیرت و تاریخ کے واقعات سے بے بنیاد انکار کی روش اختیار کرنے کی انہیں ضرورت ہی نہیں رہی اور انہوں نے بہت خوبی سے ان اعتراضات کی لغویت دکھائی۔ بعد میں مولانا نے اپنی دیگر تحریرات میںاس بات کو مزید آگے بڑھایا۔ ان میں خصوصی اہمیت کی حامل تحریر ان کی کتاب سود کا تیسرا ضمیمہ ہے جس میں انہوں نے ’’دارالحرب میں سود‘‘ کے مسئلے کی تنقیح اور توضیح کرتے ہوئے دارالاسلام اور دارالحرب کے تصورات کی تفصیل دی ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کی مختلف صورتوں کے متعلق قانونی اصول پوری شرح و بسط کے ساتھ واضح کیے ہیں۔ بہت اہم تفصیلات ان کی دیگر کتب‘ خصوصاً تفہیم القرآن‘ اسلامی ریاست‘ رسائل و مسائل اور تفہیمات میں ملتی ہیں۔
جہاد گویا مولانا کے فکری ورثے کا ایک اہم جزو ہے اور اس وجہ سے اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ’’سیاسی اسلام‘‘ (Political Islam) اور ’’اسلام ازم‘‘ (Islamism) ’’جہاد ازم‘‘ (Jihadism) جیسی گمراہ کن تراکیب گھڑنے والوں کے حملوں کے لیے مولانا کی شخصیت‘ ان کا لٹریچر اور ان کی فکر خصوصی ہدف رہے ہیں۔ سوویت روس کے بکھرنے کے بعد ’’اسلامی خطرہ‘‘ (Islamic threat) کا ہوّا کھڑا کرنے والوں نے خصوصاً جن مسلمان اہلِ علم کو ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ (Islamic Extremism) کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا‘ ان میں مولانا مودودی کا نام سرِ فہرست تھا۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد جب ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام طور پر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ (Islamic Extremism) کی ترکیب رائج کی گئی تو اس موضوع پر لٹریچر کا ایک سیلاب آیا اور کئی نامی گرامی لکھنے والوں نےعمومی طور پر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا شجرہ یوں تخلیق کیا:
اسلامہ بن لادن‘ عبداللہ عزامِ‘ سید قطب‘ مولانا مودودی‘ محمد بن عبدالوہاب‘ امام ابن تیمیہ۔ ان لکھنے والوں میں بہت کم ایسے تھے جن کی رسائی مولانا مودودی یا امام ابن تیمیہ کے اصل کام تک تھی اور ایسے افراد تو تقریباً معدوم ہی تھے جنہوں نے مولانا مودودی یا امام ابن تیمیہ کے فکری اور اصولی نظام کو سمجھ کر انہیں پڑھا تھا اور پھر کوئی رائے قائم کی تھی۔ یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ مولانا کے تصور جہاد پر لکھنے والوں نے الجہاد فی الاسلام کے علاوہ ان کی دیگر کتب کو بالعموم نظر انداز کیا ہے۔ اس عموم سے بعض استثناء ات موجود ہیں‘ جن میں ایک اہم استثنا افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک فاضل دوست ڈاکٹر احمد خالد حاتم‘ چانسلر جامعہ کاروان‘ کابل‘ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو انہوں نے بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کرتے ہوئے لکھا۔ اس مقالے میں انہوں نے جہاد کے متعلق مولانا مودودی اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے تصورات کا موازنہ کیا۔ مجھے اس مقالے کے ممتحن کی حیثیت سے اس کے مطالعے کا موقع ملا اور یہ یقینا اس موضوع پر اہم دستاویز ہے۔ تاہم پی ایچ ڈی مقالات کی اپنی تحدیدات بھی ہوتی ہیں اور تحدیدات بھی‘ بالخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے دو نابغہ رزگار شخصیات کے افکار کے درمیان موازنہ بھی کرنا ہو۔ انگریزی میں لکھا گیا یہ مقالہ ہنوز غیر مطبوع ہے۔
جہاد پر مولانا مودودی کے کام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ بالعموم اس میں براہِ راست قرآن و حدیث سے استدلال پیش کیا گیا ہے اور فقہی تراث سے تفصیلی جواب بہت کم دیے گئے ہیں۔ اس سے ایک اہم استثنا سود کا تیسرا ضمیمہ ہے جو مولانا کی فقاہت کا شاہ کار ہے اور جس میں وہ ایک کہنہ مشق فقیہ کی حیثیت سے فقہی تراث سے عبارات بھی پیش کرتے ہیں‘ ان کا تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں‘ ان سے اصول بھی مستخرج کرتے ہیں اور ان اصولوں کی تطبیق بھی کرتی ہیں۔ تاہم عموماً مولانا کی تحریرات میں براہِ راست آیات و احادیث سے استدلال ہوتا ہے جس سے بعض سطح بین قارئین کو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ان کا انفرادی مؤقف ہے اور اس کا مسلمانوںکی علمی و فقہی روایت سے تعلق نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ مولانا کے تصورِ جہاد پر کوئی ایسا شخص لکھے جس کی نہ صرف مولانا کے لٹریچر پر گہری نظر ہو بلکہ وہ ان کے نظامِ فکر سے بھی کماحقہ آگاہ ہو‘ ساتھ ہی وہ اس تصورِ جہاد پر کیے جانے والے اعتراضات کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کر سکتا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فقہی تراث پر بھی اس کی ایسی نظر ہو وہ مختلف امور میں مولانا کی آرا کی فقہی بنیادی بھی تلاش کر سکتا ہو اور جہاںضرورت ہو تو فقہائے کرام کی آرا کی روشنی میں مولانا کی رائے کی توضیح یا تاویل بھی کر سکتا ہو۔ یہ قرعۂ فال اس کتاب کے فاضل مصنف‘ نوجوان محقق جناب مراد علی کے نام نکلا۔ وہ ان جوانوں میں ہیں جن میں عقابی روح بیدار ہو چکی ہوتی ہے اور اس وجہ سے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے‘ جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں‘ جن کا شباب بے داغ اور جن کی ضرب کاری ہو اور جن کے بارے میں دعا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو پیروں کا استاد کر دے۔
مراد سے میری پہلی واقفیت جہاد ہی کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس (منعقدہ: مارچ 2015ء شریعہ اکیڈمی‘ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی‘ اسلام آباد) میں ہوئی‘ پھر فیس بک پر ان کی فاضلانہ تحریرات نے متوجہ کیا اور پھر جب ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوا تو ان کے متجسس ذہن اور وسعتِ مطالعہ نے بہت متاثر کیا۔ پھر جب ان کے ساتھ سفر کا بھی موقع ملا اور مختلف مواقع پر ان کے کردار کو جانچنے کا بھی موقع ملا‘ تو ان سے میری محبت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ ان کی حق گوئی اور جرأت و ہمت کی صفات نے سونے پر سہاگہ کا کردار ادا کیا اور اب تو میں ان کے متوالوں میں سے ہوں۔ اس سے قبل ان کی ایک کتاب مغرب سے مکالمہ اور اقلیتوں کے حقوق: ایک تحقیقی مطالعہ آچکی ہے جس میں انہوں نے اس موضوع پر اہلِ علم کی منتخب تحریرات پیش کرکے ان پر اپنی تحقیق اپنے فاضلانہ مقدمے میں پیش کی۔
ستمبر 2020ء میں مراد علی نے بعض دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر ’’شیبانی فائونڈیشن‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور انتہائی اعلیٰ معیار پر تحقیقی کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ نیز اس فائونڈیشن کے زیر اہتمام انہوں نے کئی اہم اور سلگتے مسائل پر سیمینارز کا بھی انعقاد کیا۔ اس فائونڈیشن کی نسبت امام محمد بن الحسن شیبانی (م 189ھ/805ء) کی طرف ہے اور اسی سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس فائونڈیشن کے بانیوں کو اپنے فقہی تراث اور علمی روایت سے کتنی محبت ہے۔
زیر نظر کتاب میں فاضل مصنف نے مولانا مودودی کے نظامِ فکر کی بنیادی خصوصیات بھی واضح کی ہیں‘ ان کے تصورِ جہاد کی تفصیلات بھی دی ہیں‘ اس کی فقہی بنیادیں بھی واضح کی ہیں اور اس نظامِ فکر اور تصورِ جہاد پر عام طور پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کا محاکمہ بھی کیا ہے۔ میرے نزدیک اس کتاب کا سب سے اہم حصہ آخری باب ہے جس میں فاضل مصنف نے انتہا پسندی کو مولانا مودودی کے ساتھ یا ان کی فکر کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کیوں یہ نسبت غلط اور بالکل ہی بے بنیاد ہے۔ اس باب کا مطالعہ مولانا مودودی کے ناقدین کے لیے تو ضروری ہے ہی مولانا مودودی کے نام لیوائوں کا اور ان کی تحریک سے وابستہ افراد کے لیے بھی اس باب کا بغور مطالعہ بہت مفید ہے اور امید ہے کہ اس کے نتیجے میں مولانا مودودی کے متعلق اور ان کی فکر کے متعلق ان کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیںگی اور بہت سے مفروضات غلط ثابت ہو جائیںگے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی یہ کاوش قبول کرے‘ ان کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابیوں کا سبب بنائے اور انہیں مزید لمبی علمی اور تحقیقی کاوشوں کی توفیق مسلسل دیتا رہے‘ آمین۔‘‘
مصنف کتاب جناب مراد علی تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا مودودی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے‘ روایتی تنقید میں بھی بہت کچھ سامنے آیا ہے اور تحقیق کے نام سے آپ کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا جسے بددیانتی کے سوا کوئی اور عنوان دینا محال ہے۔ استثنا ہر جگہ موجود ہوتا ہے‘ ممکن ہے کسی نے نیک نیتی کے ساتھ آپ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کی ہو‘ مگر اکثر تحقیقات اوّل الذکر قبیل کے ہیں۔
مغرب میں مولانا کے حوالے سے جن موضوعات کو زیادہ مشقِ سخن بنایا گیا ہے ان میں ’’سیاسی اسلام‘‘ اور جہاد سرفہرست ہے اور ان دونوں کا تعلق بھی گہرا ہے۔ لیکن ان موضوعات پر غائر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن محققین نے ابتدائی زمانے میں لکھا ان میں مولانا کی فکر کو جس انداز میں پیش کیا گیا وہ درست نہیں تھا۔ ابھی تک اسی مواد اور بنیاد پر تحقیق جاری ہے اور ہزاروں تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں جن میں وہی کمزور باتیں دہرائی گئی ہیں۔ (باقی صفحہ نمبر 33 پر)
تبصرۂ کتب /ملک نواز اعوان
یہی اثرات ہمارے یہاں بھی سامنے آنے لگے اور ’’سیاسی اسلام‘‘ اور ’’بنیاد پرستی‘‘ جیسی اصطلاحات کا چلن عام ہو گیا۔ مغرب نے بھی عسکریت پسندی کو مولانا سے جوڑ دیا اور ہمارے یہاں کے دانشوروں نے بھی مولانا مودودی کو ذمہ دار ٹھیرانے میں کوئی اکثر اٹھا نہ رکھی۔ ان حضرات کے مقدمے حاصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں دنیا سے شوکت کفر کے خاتمے کا اصل نظریہ ساز (Ideologue) مولانا مودودی ہیں اور عالمی عسکریت پسند تنظیموں کو بنیادی غذا آپ ہی کی فکر سے ملتی ہے۔ زیر نظر کتاب میں بنیادی طور پر اس سوال اور اس سے جڑی بنیادی جزئیات کو تحقیق کا موضوع بنایا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر زیرِ نظر کتاب میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا مودودی کے یہاں علت القتال شوکت کفر ہے یا محاربہ‘ مزید یہ کہ غیر مسلم دنیا کے ساتھ تعلق اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کے متعلق آپ کا مجموعی طرزِ فکر کیا ہے۔‘‘
دنیا کے تمام معاملات میں سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے۔ حقیقت کو ایسے ہی دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے کہ وہ ہے چاہے وہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔ مراد علی صاحب نے حقیقت ہی کو جاننے کی کامیاب کوشش کی ہے
nn