پاکستانی ایک قوم کیوں نہیں بن سکے؟

تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ بڑے رہنما قوموںکو پستیوں سے اٹھاتے ہیں اور بلندیوں سے ہم کنار کرتے ہیں۔

 

پاکستان کے ایک مشہور ملّی نغمے کا مکھڑا ہے:
ہم زندہ قوم ہیں
پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان
ہم سب کا پاکستان
پاکستان‘ پاکستان‘ پاکستان

اس مکھڑے میں ایک نہیں کئی دعوے ہیں، ایک دعویٰ یہ ہے کہ ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘، لیکن اگر ہم زندہ قوم ہوتے تو قیامِ پاکستان کے صرف 24 سال بعد ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا، ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتے۔ اس مکھڑے میں دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ ’’ہم پائندہ قوم ہیں‘‘، لیکن اگر ہم پائندہ قوم ہوتے تو ہم پر چار مرتبہ فوجی حکمران، حکمرانی نہ کرتے۔ ہم پر نوازشریف، بے نظیر بھٹو، الطاف حسین اور عمران خان جیسے لوگ مسلط نہ ہوئے ہوتے۔ مذکورہ بالا مکھڑے میں تیسرا دعویٰ یہ ہے کہ ہم ’’ایک قوم‘‘ ہیں، حالانکہ حقیقتِ احوال ہم سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے، مگر 22 کروڑ افراد میں ایک کروڑ 22 لاکھ پاکستانی بھی شاید ہی موجود ہوں۔ وطنِ عزیز میں ہر طرف پنجابیوں، مہاجروں، سندھیوں، پشتونوں، بلوچوں اور سرائیکیوں کا دور دورہ ہے۔ پاکستانی نایاب ہیں۔

مذہبی سطح پر ہم فرقوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی اپنی سنّیت پر نازاں ہے، تو کوئی اپنی شیعت پر اترا رہا ہے۔ کوئی دیوبندی بنا بیٹھا ہے، کوئی بریلویت کے سائے میں بیٹھا ہوا ہے، کوئی اہلِ حدیث کہلاتا ہے۔ ایک اور سطح پر فوجی اور غیر فوجی کی تقسیم ہے۔ پاکستان میں فوجی ہونا ایک برتر نسل کی علامت ہے، اور ’’سول‘‘ ہونا ایک کم تر قومیت کی طرح ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ سیاسی فرقے ہیں۔ ایک فرقہ نواز لیگ ہے، ایک فرقہ تحریک انصاف ہے، ایک فرقہ پیپلزپارٹی ہے، ایک فرقہ ایم کیو ایم ہے۔ صرف جماعت اسلامی ایک قومی جماعت ہے، لیکن قوم اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ ہمارے فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات اتنے سنگین ہیں کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے کو، اور ایک مسلک دوسرے مسلک کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

شیعوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو سنیوں کو گمراہ سمجھتے ہیں، دوسری طرف سنیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ’’کافر، کافر شیعہ کافر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو اس نعرے کو نہیں مانتا وہ بھی کافر ہے۔ دیو بندیوں اور بریلویوں کی بنیاد ایک ہے، دونوں ایک ہی مذہب یعنی حنفیت کو ماننے والے ہیں، دونوں ہی مسلک حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کو اپنا فکری رہنما مانتے ہیں، مگر اس کے باوجود دیوبندیوں اور بریلویوں کا باہمی تعلق یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو گمراہ کہتے ہیں، دونوں کی مسجد الگ الگ ہیں، دونوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ نہیں کرتے۔ معاشی اعتبار سے بھی قوم طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔

ایک امیر طبقہ ہے، ایک بالائی متوسط طبقہ ہے، ایک متوسط طبقہ ہے، ایک زیریں متوسط طبقہ ہے، ایک غریب طبقہ ہے۔ یہ طبقات کئی حوالوں سے ایک دوسرے کی جانب پیٹھ کیے کھڑے ہیں۔ ذاتوں اور برادریوں کی تفریق اس کے سوا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں کوئی آرائیں ہے، کوئی بٹ ہے، کوئی جٹ ہے، کوئی خاصخیلی ہے، کوئی بھٹو ہے۔ بلاشبہ مسلمان ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں، مگر یہ ماننا نعرے اور دعوے کی سطح پر ہے، عملاً ہمارا معاشرہ اپنے تعصبات کے بتوں کو ہی پوج رہا ہے۔ یہ صورتِ حال ’’نئی‘‘ بھی نہیں ہے۔ اقبال ایک صدی پہلے کہہ رہے تھے:

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
٭
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اس کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے زمانے میں بھی فرقوں اور مسلکوں کے بتوں کو پوجا جارہا تھا، اور ذاتوں اور برادریوں کے بتوں کے آگے سر جھکایا جارہا تھا۔ اقبال کہہ رہے تھے:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر

مگر یہ اقبال کا ’’خواب‘‘ تھا، اس خواب کو آج تک تعبیر میسر نہیں آسکی ہے۔ عرب دنیا عرب قوم پرستی میں ڈوبی ہوئی ہے، ایرانی اپنی قومیت کے بت کو پوج رہے ہیں، برصغیر میں ذاتوں، برادریوں اور فرقوں اور مسلکوں کا طواف ہورہا ہے۔ ہم نے بھارت کے ایک چھوٹے سے قصبے میں خود دیکھا ہے کہ مسلمانوں کی چھوٹی سی آبادی میں سیدوں کی مسجد الگ تھی، شیخوں کی الگ۔ نعمانیوں کی مسجد جدا تھی اور قاضیوں اور قسائیوں کی مسجد جدا۔ لیکن مسئلہ تو پاکستان کا ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر جس میں اسلامی اخوت کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی ایک قوم کیوں نہیں بن پائے؟

ایک مغربی دانش ور نے کہیں لکھا ہے کہ ’’تاریخ کے طویل سفر میں مسلمانوں نے اسلام کو نہیں بچایا بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو بچایا ہے۔‘‘ یہ اسلام تھا جس نے عربوں کو کفر اور شرک سے نجات دلائی تھی، قبیلوں کے تعصبات سے بلند کیا تھا۔ خود تحریکِ پاکستان اور قیام پاکستان بھی اسلام کی انقلابی قوت کا شاہکار ہے۔ یہ دو قومی نظریہ یا اسلام تھا جس نے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کو فرقوں اور مسالک کے تعصبات سے بلند کردیا تھا، لسانی تعصبات کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا۔ دِلّی، یوپی، سی پی، بنگال، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کے لوگوں کو ہم رنگ بنا دیا تھا۔

یہ اسلام کی قوت تھی جس نے بھیڑکو ایک قوم میں ڈھال دیا تھا۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے قیامِ پاکستان کے بعد اسلام کو قومی وحدت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہی نہیں کیا۔ پاکستان کا کوئی حکمران سیکولر بن کر کھڑا ہوگیا، کوئی سوشلسٹ بن کر کھڑا ہوگیا، کسی نے ہاتھ میں قوم پرستی کا پرچم اٹھا لیا۔ چنانچہ تحریکِ پاکستان کے دوران برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ میں جو فکری اور عملی یگانگت پیدا ہوگئی تھی وہ قیام پاکستان کے بعد کہیں نظر نہیں آرہی۔ پاکستان کے قیام کے بعد قوم ’’پاکستانی‘‘ بننے کے بجائے پنجابی، بنگالی، سندھی، مہاجر، پشتون اور بلوچ بن کر کھڑی ہوگئی۔ پاکستان کا حکمران طبقہ قوم کو اسلام کے سائے میں کھڑا کرتا تو جو قوم بھیڑ سے قوم بنی تھی وہ دنیا کی طاقت ور ترین قوم اور طاقت ور ترین وحدت بن کر دکھاتی۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں اسلام کو مؤثر ہی نہ ہونے دیا۔ چنانچہ پاکستانی قوم ایک بار پھر بھیڑ میں تبدیل ہوگئی۔

تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ بڑے رہنما قوموںکو پستیوں سے اٹھاتے ہیں اور بلندیوں سے ہم کنار کرتے ہیں۔ قائداعظم ایک ایسے ہی رہنما تھے، ان کے بارے میں ان کے مغربی سوانح نگار اسٹینلے والپرٹ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ جغرافیہ بہت کم لوگوں نے بدلا ہے، اس سے بھی کم لوگ وہ ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بدلا ہے، اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے ایک قومی ریاست تخلیق کی ہو… قائداعظم نے بیک وقت یہ تینوں کام کیے۔ یہ قائداعظم کی عظمت تھی کہ ان کے بارے میں کبھی شیعہ سنی کا کوئی سوال نہیں اٹھا، کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ آپ کا مسلک کیا ہے؟ آپ کون سی زبان بولتے ہیں؟

راجا صاحب محمود آباد تحریکِ پاکستان کے رہنما تھا اور وہ شیعہ تھے۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے قائداعظم سے پوچھا کہ پاکستان میں کون سا فرقہ غالب ہوگا؟ قائداعظم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا ’’پاکستان میں اکثریت کا فرقہ غالب ہوگا۔‘‘ قائداعظم کی مادری زبان گجراتی تھی، ان کا ذریعہ تعلیم ہمیشہ انگریزی رہی تھی، مگر اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف ایک ہوگی… اردو اور صرف اردو۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال کے بعد قوم کو کوئی بڑا رہنما میسر نہ آسکا۔ شہیدِ ملّت لیاقت علی خان بڑے رہنما تھے مگر ان کو شہید کردیا گیا۔ ان کے بعد جو لوگ آئے وہ قوموں کی تقدیر کے معاملات سے آگاہ ہی نہیں تھے۔ ان کے لیے ان کی ذات اہم تھی، ان کے لیے ان کا طبقہ اہم تھا، ان کے لیے ان کا خاندان اہم تھا، ان کے لیے ان کا کیریئر اہم تھا۔ قائداعظم کے لیے سیاست ایک عبادت تھی۔ قائداعظم کے بعد جو لوگ آئے ان کے لیے سیاست ایک کیریئر تھی۔ چنانچہ وہ قوم کو قوم بنانے کا کام کر ہی نہ سکے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ انسان اور قومیں بڑے اہداف سے بھی بڑی بنتی ہیں۔ قائداعظم نے جب قیام پاکستان کی جدوجہد شروع کی تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ ان کی قوم متحد تھی، نہ ان کے پاس سرمایہ تھا، نہ ذرائع ابلاغ کی طاقت تھی، اس پر طرہّ یہ کہ ان کا مقابلہ وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے تھا، مگر قائداعظم کا ہدف بڑا تھا، وہ 10 کروڑ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک بنانا چاہتے تھے، چنانچہ قائداعظم نے ہمیشہ بڑا سوچا اور بڑے بن گئے۔ جاپان دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہوگیا تھا مگر جاپان کے حکمران طبقے نے قوم کی تعمیرِنو کا بڑا ہدف اپنے سامنے رکھا اور چالیس سال میں جاپان کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنادیا۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد پاکستان کو ایسے رہنما ملے جن کے پاس کوئی بڑا ہدف تھا ہی نہیں۔ جنرل ایوب امریکہ کے غلام تھے اور ان کا ہدف یہ تھا کہ وہ اسی طرح اقتدار میں رہیں۔ بھٹو کا ہدف بڑا تھا مگر شخصی تھا، وہ قائدِ ایشیا بن کر ابھرنا چاہتے تھے۔ میاں نوازشریف اور آصف زرداری اقتدار کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مال کمانا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ بڑا ہدف قوموں کو چھوٹے چھوٹے معاملات سے بلند کردیتا ہے۔

حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ انصاف معاشرے میں سکون اور اطمینان پیدا کرتا ہے، معاشرے میں ہم آہنگی اور نظم کو فروغ دیتا ہے۔ انصاف معاشرتی تعلقات کو بہتر بناتا ہے اور افرادِ معاشرہ کی صلاحیتوں کو جِلا بخشتا ہے۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستانی قوم کو انصاف مہیا نہ کرسکا۔ ہم نے بنگالیوں کو جو قومی آبادی کا 56 فیصد تھے… دبایا، کچلا، ان کی تذلیل کی، چنانچہ 1971ء میں پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ اکثریت نے اقلیت سے صاف کہہ دیا کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتے، تم ظالم ہو، استحصال کرنے والے ہو۔ ہم نے 1971ء کے سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھا اور اس وقت بلوچستان میں ناانصافی آگ بھڑکا رہی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں کوٹہ سسٹم نفرتیں پھیلا رہا ہے، کراچی میں جماعت اسلامی ’’حق دو کراچی کو‘‘ کی تحریک چلا رہی ہے۔ کراچی میں نہ پانی ہے، نہ ٹرانسپورٹ کی سہولت ہے، نہ سڑکیں ہیں، نہ نکاسی آب کی سہولتیں ہیں، نہ کچرا اٹھانے کا بندوبست ہے۔ اس صورتِ حال سے کراچی میں وفاق کے خلاف بھی جذبات پیدا ہورہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف بھی جذبات کا طوفان اٹھ رہا ہے۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان بنانے والی قوتیں دو تھیں، ایک اسلام اور دوسری اردو زبان۔ اسلام نہ ہوتا تو پاکستان نہ بنتا، اردو زبان نہ ہوتی تو بھی پاکستان کا وجود میں آنا ناممکن تھا۔ قائداعظم نے اردو کی اس اہمیت کو سمجھا تھا۔ 1973ء کے آئین میں بھی قومی زبان کو سرکاری زبان بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر اس کے باوجود اردو ابھی تک نہ سرکاری زبان بنی نہ ذریعۂ تعلم قرار پائی۔ ہم نے اردو کو اس کا جائز مقام دے دیا ہوتا تو ہم اب تک ایک قوم بن کر ابھر چکے ہوتے۔