حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے سود کھانے والے ،سود لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔
(مسلم ،کتاب الربا)
اسراف کا اُن معاشرتی برائیوں میں شمار ہوتا ہے جو کئی معاشرتی برائیوں کا مجموعہ ہوتی ہیں اور جن سے مزید کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ مثلاً اسراف میں ریاکاری، تکبر اور دوسروں کی حق تلفی جیسی برائیاں شامل ہیں اور رشوت، کرپشن، لوٹ مار اور جائز وناجائز ہر طریقے سے دولت اکٹھی کرنے جیسی برائیاں اس سے جنم لیتی ہیں۔ اسراف اگر گھریلو معیشت کو تباہی سے دوچار کرتا ہے تو یہ قوم کے اقتصادی انحطاط کا بھی ایک بڑا سبب ہے، اسی لیے قرآن مجید نے اسے ایک بڑی برائی کے طور پر لیتے ہوئے اس میں مبتلا افراد کو شیطان کے بھائی قرار دیا ہے۔ مثلاً:
’’فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل:26۔27)
’’اور کھائو پیو مگر حد سے تجاوز (یعنی فضول خرچی) نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف:13)
’’(درختوں کے پھل) کھائو ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو (زیادہ خرچ نہ کرو) کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الانعام:141)
’’خرچ کرنے لگیں تو فضول خرچی نہ کریں اور نہ بخل کریں بلکہ ان کا خرچ افراط و تفریط کے درمیان کا ہوتا ہے۔‘‘(الفرقان:67)
اسراف کے لغوی معنی اگرچہ حد سے گزرنے کے ہیں، مگر اس سے مراد ناجائز، فضول، غیرضروری اور غیر مفید کاموں پر دولت خرچ کرنا ہے۔ فضول خرچی کے لیے قرآن مجید میں دوسرا لفظ تبذیر استعمال ہوا ہے۔ تبذیر کے معنی ہیں: زمین میں بزر (بیج) کو فضول پھینک دینا، اور مبذر سے مراد ہر وہ شخص جو اپنے مال کو ضائع کرنے والا ہو۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں: ’’مال کو باطل اور ناجائز جگہوں پر خرچ کرنا۔‘‘ مجاہدؒ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے تمام مال کو حق کی راہ میں خرچ کرے تو وہ مبذر (فضول خرچ) نہیں کہلائے گا، اور اگر وہ ایک کلو چیز بھی (یعنی نہایت قلیل) ناحق جگہ پر خرچ کرے تو وہ مبذر ہے۔ جب کہ زجاج کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے سوا خرچ کرنا تبذیر ہے۔ (بحوالہ تبیان القرآن)
امام فخرالدین محمد بن عمر رازیؒ کا کہنا ہے کہ ’’مال کو ضائع کرنا اور اس کو فضول اور بے فائدہ خرچ کرنا تبذیر ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سعدؓ کے پاس سے گزر ہوا، وہ اس وقت وضو کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے سعد! یہ کیا اسراف کررہے ہو؟‘‘ انہوں نے پوچھا: ’’کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، خواہ تم دریا کے بہتے ہوئے پانی سے وضو کررہے ہو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ بحوالہ تبیان القرآن)
فقہا نے لکھا ہے کہ تین بار سے زیادہ اعضا کو دھونے میں پانی اور وقت دونوں کا ضیاع ہوتا ہے اور یہی اسراف ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروںکے حقوق کے ذکر کے بعد فضول خرچ سے منع کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب تدبر قرآن میں لکھتے ہیں:
’’اس ہدایت کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ حقوق کی ادائیگی کا انحصار اس عمل پر ہے کہ آدمی اپنی ضروریات و خواہشات کے معاملے میں معتدل، کفایت شعار اور میانہ رو ہو۔ جو شخص مسرف اور فضول خرچ ہو، اس کے اپنے ہی شوق پورے نہیں ہوپاتے، وہ دوسروں کے حقوق کیا ادا کرے گا! شیطان اربابِ مال پر سب سے زیادہ حملہ اسی راہ سے کرتا ہے۔ وہ ان کو طرح طرح کی آرزوئوں اور خواہشوں میں پھنساتا ہے، اور وہ ان خواہشات و تعیشات کے ایسے غلام ہوجاتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان کا درجہ ضروریات سے بھی بڑھ کر ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ بھلا کس طرح سوچ سکتے ہیں کہ جس مال میں ان کے یہ اللے تللے ہیں، اس میں خدا کے بندوں کے بھی حقوق ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کتے، باز، شکرے تو آسودہ رہتے ہیں لیکن ان کے پڑوسی بھوکے سوتے ہیں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں: ’’ہر غنی سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کے پاس جو مال ہے، اس میں دوسروں کے بھی حقوق ہیں، اس وجہ سے اُس کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا تو مباح ہے لیکن اسراف و تبذیر جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ مسرفین کو دوست نہیں رکھتا۔ ’’دوست نہیں رکھتا‘‘ کے الفاظ معمولی نہیں ہیں، اس لیے کہ خدا جن کو دوست نہیں رکھتا لازماً وہ اس کے نزدیک مبغوض ہیں۔‘‘ (تدبر قرآ،ن جلد دوم)
اسلام میں جہاں دولت کمانے کے حلال طریقے اور حدود ہیں، شریعت نے خرچ کرنے کی بھی حدود مقرر کررکھی ہیں۔ اسلام کسی مسلمان کو کھلی چھوٹ نہیں دیتا کہ وہ اپنی دولت کو جس طرح چاہے خرچ کرے۔ ہر مسلمان اپنی دولت خرچ کرنے میں اس بات کا پابند ہے کہ اسراف و کنجوسی کا مظاہرہ نہ ہو بلکہ حدِ اعتدال پر رہے۔ فضول خرچ افرادکو قرآن نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اسراف و تبذیر کی قباحت میں وہ افراد شیطان کے مشابہ ہیں۔ یعنی جس طرح شیطان قبیح کام کرتا ہے، اسی طرح وہ کرتے ہیں۔
اسلام نے مسلمانوں کو جہاں اسراف و تبذیر سے روکا، وہیں کنجوسی سے بھی سختی سے منع کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں سورۂ الفرقان کے حوالے میں بیان ہوا ہے کہ نہ فضول خرچی کریں اور نہ بخل کریں۔