سیداطہر علی ہاشمی مرحوم کی دوسری برسی کے موقع پر خصوصی تحریر
تحریر اور گفتگو دونوں کے ذریعے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دینے والے سید اطہر ہاشمی زندگی کی سرحد اتنی سرعت سے عبور کرگئے کہ تاحال یقین نہیں آرہا۔ 6 اگست کو ان کی دوسری برسی تھی۔ موت کے وقت بظاہر اُن کی صحت مناسب تھی، زندگی کے معمولات بھی فطری رفتار سے چل رہے تھے۔ جسارت جیسے قومی اخبار کے چیف ایڈیٹر کے طور پروہ روزانہ باقاعدگی سے دفتر آتے، کئی گھنٹے یہاں رک کر اپنے منصبی فرائض ادا کرتے۔ اپنا منفرد انداز کا کالم ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ تحریر کرتے اور چائے کی چسکیاں لیتے اور سگریٹ کے مرغولے اڑاتے ہوئے، آنے جانے والوں پر خوبصورت مزاحیہ جملوں کی پھوار کرکے گھر لوٹ جاتے۔ وہ پیر کے روز ڈیوٹی کرکے رات دیر گئے گھر لوٹے۔ منگل کے روز طبیعت میں کچھ بے چینی تھی چنانچہ دفتر سے دو روز کی چھٹی لے لی، اور جمعرات کی صبح ہسپتال سے اُس دفتر کے لیے روانہ ہوگئے جہاں سب کو پہنچ کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
جناب اطہر ہاشمی اپنی وضع قطع، شکل و شباہت اور چال ڈھال سے بوڑھے تو ہرگز نہیں لگتے تھے۔ 74 سال کی عمر میں بھی اُن کے ظاہری خدوخال بوڑھوں جیسے بالکل نہیں تھے۔ کام کا انداز بھی جوانوں جیسی توانائی کی چغلی کھاتا تھا۔ صرف سر اور داڑھی کے سفید بال انہیں جوان ماننے میں مانع رہتے۔ تاہم جب وہ اداکار لہری کی طرح اپنے چہرے پر کوئی مزاحیہ تاثر دیئے بغیر ہلکے پھلکے جملے اچھالتے، مزاح اور ظرافت سے پُر باتیں کرتے اور اہلِ مجلس پر طنز و مزاح کی پھوار پھینکتے تو جوانِ رعنا لگتے۔ سمجھ دار انسان تھے، کم بولتے اور تشنگی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے۔ اس عارضی زندگی کے معاملے میں بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ زندگی کی جلتی ہوئی سگریٹ کا ایش اچانک ایک جھٹکے سے جھاڑا اور موت کی وادی میں نکل گئے۔
اطہر ہاشمی صاحب سے میری ملاقاتیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے دو سالہ مندوبین کے اجلاس میں ہوتیں۔ غالباً 2016ء میں بی ڈی ایم کے لیے وہ اسلام آباد تشریف لائے تو جمعہ کا دن تھا۔ سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفرالحق نے مہمان صحافیوں کے اعزاز میں ظہرانہ دے رکھا تھا۔ کھانے کے بعد سب لوگ سینیٹ کے دفاتر دیکھنے میں مصروف تھے، جبکہ مرکزی ہال کے باہر اطہر ہاشمی بے نیازی سے کھڑے تھے۔ چند منٹ میں ہی صحافیوں کا جھرمٹ اُن کے گرد جمع ہوگیا۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایک آدھ جملہ پھینکتے تو سب لوٹ پوٹ ہوجاتے۔ ان تین روزہ اجلاسوں کے دوران انھوں نے کارروائی میں تو زیادہ مداخلت نہ کی البتہ اپنے دائیں بائیں بیٹھے مندوبین کو طنز و مزاح کے تیروں سے گھائل ضرور کرتے رہے۔
میری کبھی کبھار فون پر بات ہوتی تو نہایت شفقت اور محبت سے فون سنتے۔ مصروفیت کے باوجود دلچسپی اور اپنائیت کے ساتھ گفتگو کرتے۔ بہت سے معاملات خصوصاً زبان و بیان کے معاملے میںکمال مہربانی سے رہنمائی کرتے۔ ہر بار اپنے ہلکے پھلکے مزاحیہ جملوں سے ماحول خوشگوار رکھتے۔ اُن کی گفتگو میں ہمیشہ علمیت اور بزلہ سنجی موجود ہوتی۔
وہ رسیلے آموں کی سرزمین سہارنپور کے قصبہ راجو پور سے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے پہلے بہاولپور اور پھر لاہور آئے تھے۔ شایدآموں کا یہی رسیلا پن ان کی گفتگو اور تحریر دونوں میں آگیا تھا۔ لاہور سے انہوں نے میٹرک کیا، اور گلبرگ میں رہتے ہوئے ایف سی کالج سے انٹر اور بی اے پاس کیا، جس کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا جہاں کراچی یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد ہاشمی صاحب ایم فل کے لیے اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد چلے گئے۔ یہاں قیام کے دوران وہ شعبہ تدریس سے وابستہ رہے اور 1978ء میں واپس کراچی آکر روزنامہ جسارت سے وابستہ ہوگئے۔ اطہر ہاشمی اپنی بذلہ سنج طبیعت کے باوجود مزاجاً درویش منش انسان تھے۔ نہ انہیں مال و زر کی خواہش تھی اور نہ شہرت کی ہوس۔ چنانچہ زندگی بے نیازی کے ساتھ گزار دی۔ نجانے وہ جدہ جانے پر کیسے راضی ہوگئے تھے جہاں وہ اردو نیوز جدہ کے بانیوں میں شامل تھے۔ پاکستان واپس آئے تو پھر جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں آبیٹھے، اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور محنت کے باعث اس قومی اخبار کے ایڈیٹر انچیف کے عہدے پر اپنے آخری سانس تک فائز رہے۔ اُن کی موت پر قومی رہنمائوں، صحافتی کارکنوں، صحافی تنظیموں کے علاوہ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز نے جس انداز میں تعزیت کی ہے وہ یقیناً ایک عامل صحافی کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ وہ کسی اخبار کے مالک نہیں تھے لیکن مالکانِ اخبارات کی تنظیم اے پی این ایس نے اُن کے انتقال پر مختلف قومی اخبارات میں جو تعزیتی اشتہارات شائع کیے ہیں وہ عامل صحافیوں کے حصے میں کم کم ہی آتے ہیں۔
اطہر ہاشمی کی ذات میں کچھ خوبیاں ایسی اکٹھی ہوگئی تھیں جن کی وجہ سے وہ حلقۂ یاراں اور گروہِ دشمناں دونوں میں مقبول تھے۔ وہ نظریاتی طور پر ایک کمٹڈ انسان تھے لیکن ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور صحافتی اخلاقیات کی پاس داری ان کے احترام میں اضافے کا باعث بنی۔ ان کی بزلہ سنجی، حس مزاح اور ظریفانہ طنز ان کی گفتگو اور تحریر دونوں میں نمایاں تھے۔ ان کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کے کئی قومی اخبارات کے مالکان نے انہیں بار بار پُرکشش پیش کیش کی مگر وہ اپنے ہی کھونٹے سے جڑے رہے۔ صحافت میں اردو زبان کے لیے فکرمند رہنے والے وہ آخری لوگوں میں شامل تھے۔ زبان و بیان کے درست استعمال، زبان کی اصلاح، تذکروتانیث اور محاوروں کی درستی پر وہ اتھارٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ مشکل اور جاں گسل کام وہ طویل عرصے سے ہلکے پھلکے انداز میں کررہے تھے اور آخری وقت تک کرتے رہے ۔ بقول محمد طاہر: لفظوں کے جسموں میں اتر کر گنجینۂ معانی تلاش کرنا کوئی آسان کام تو نہیں۔ مگر یہ کام وہ پوری ذمہ داری اور انہماک سے مسلسل کرتے تھے۔ اس کھردرے کام میں انہوں نے مزاح کی آمیزش کرکے اسے پڑھنے والوں کے لیے آسان اور دلچسپ بنادیا تھا۔ صحافت میں درست زبان کے استعمال پر زور دینے والے انہیں استاد کا درجہ دیتے تھے۔ ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے آخری صفحے پر شائع ہونے والا اُن کا کالم مجھ جیسے بہت سے لوگ سب سے پہلے پڑھتے تھے۔ فرائیڈے اسپیشل 31 جولائی تا 6 اگست کے شمارہ نمبر 31 میں اُن کے آخری کالم کا ایک پیرا
ملاحظہ فرمائیے:
’’گشت‘‘ مذکر یا مونث؟
’’پیر 27 جولائی کے ایک اخبار کے اداریے میں ’’معمول کی گشت‘‘ پڑھا۔ یعنی اداریہ نویس کے خیال میں گشت مونث ہے۔ ہم تو اسے مذکر ہی کہتے اور لکھتے رہے ہیں۔ مونث تو گشتی ہوتی ہے جو اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ دوسری طرف گشتی مراسلہ اور گشتی سفیر بھی عام ہے۔ اداریہ نویس نے گشت کو مونث لکھا ہے تو خیال آیا کہ شاید یہی صحیح ہو، چنانچہ لغات سے رجوع کیا۔ یہ فارسی کا لفظ ہے اور فیروز اللغات نے اسے مطلق مونث لکھا ہے۔ تاہم نوراللغات نے وضاحت سے کام لیا ہے اور مونث، مذکر دونوں کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس لغت کے مطابق گشت بول چال میں تذکیر کے ساتھ ہے لیکن جلال اور جلیل مانکپوری نے مونث لکھا ہے۔ بطور مذکر شوق قدوائی کا شعر ہے:
دیا ہے گشت اس نے دھوم سے میرے جنازے کو
غرض یہ ہے کہ سارے شہر میں تشہیر ہوجائے‘‘
اللہ اس مردِ درویش کی مغفرت فرمائے جوصحافت میںدیانت کے علاوہ صحافتی اور معاشرتی اخلاقیات پرساری زندگی قائم رہا۔ زبان کی اصلاح کے لیے آخری دم تک کوششیں کرتا رہااور دوستوں اور قارئین کے حلقوں کو اپنی آخری سانسوں تک ذہنی و فکری غذا ظریفانہ وقار کے ساتھ فراہم کرتا رہا۔