کیا ہم کسی نئی سیاسی مہم جوئی کے متحمل ہوسکتے ہیں؟
سیاسی لڑائی عمومی طور پر سیاسی میدان میں لڑی جاتی ہے، اور اسی بنیاد پر ایک فریق دوسرے فریق پر سیاسی بالادستی یقینی بناکر عملاً سیاسی نظام پر اپنی گرفت قائم کرتا ہے۔ سیاست کے مقابلے میں انتظامی اور قانونی نوعیت کی اہمیت ضرور ہوتی ہے، مگر اس کو بنیاد بناکر کسی بھی سطح پر سیاست کی اہمیت نہ کم ہوتی ہے اور نہ ہی جماعت یا قیادت کو بے اثر کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں سیاسی قیادتوں کو قانونی بنیاد پر ختم کرنے کی جو بھی کوشش کی گئی وہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔ وقتی طور پر لگتا ہے کہ اس طرز کے فیصلوں سے سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادتوں کی اہمیت کو کم کیا جاسکتا ہے، مگر عملی طور پر اس کا ردعمل سیاسی بنیادوں پر زیادہ سخت ہوتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاسی مقابلے میں ناکامی کے بعد معاملات سے قانونی سہارے کی بنیاد پر نمٹا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں قائم بھی رہتی ہیں اور ان کی قیادتوں کا اپنی اپنی جماعتوں پر کنٹرول بھی برقرار رہتا ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کا بھی ممنوعہ فنڈنگ کیس محض ایک قانونی تناظر میں دیکھا جارہا ہے، جبکہ اس کے سیاسی عوامل بھی ہیں جن کو کسی بھی سطح پر آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن اور عدالتوں کا فیصلہ اپنی جگہ، اور یقینی طور پر سیاسی جماعتوں یا قیادتوں کو کسی سطح پر قانونی پیچیدگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے، مگر سیاسی قیادتیں یا سیاسی جماعتیں اس طرح کی قانونی پیچیدگیوں کی موجودگی میں اپنا متبادل سیاسی راستہ اختیار کرلیتی ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اب گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس اہم فیصلے کے بعد کیا عملی اقدامات کرتی ہے، اورکیا وہ تحریک انصاف یا عمران خان کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھاتی ہے؟ اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس کے بعد گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہوگی، کیونکہ آخری فیصلہ عدالت عظمیٰ کو ہی کرنا ہے۔ لیکن اس سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ حکمران اتحاد کس حد تک عمران خان یا پی ٹی آئی کی مخالفت میں آگے جانے کے لیے تیار ہے۔
ماضی میں بھٹو اور نوازشریف کے خلاف مقدمات کے فیصلے بھی قانونی بنیادوں پر کیے گئے، مگر عوامی یا سیاسی سطح پر انہیں قبول نہیں کیا گیا، اور آج بھی ملکی سیاست میں ان دونوں کرداروں کو کسی بھی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے تحریک انصاف یا عمران خان کے معاملے میں بھی قانونی فیصلہ اپنی جگہ، مگر سیاسی فیصلہ زیادہ بالادست ہوگا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکمران اتحاد سمیت عمران خان کے جو بھی سیاسی مخالفین ہیں اُن کا اصل ہدف تحریک انصاف کم اور عمران خان زیادہ ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت بھی جو عملی اقدامات کرسکتی ہے ان میں تحریک انصاف کم اور عمران خان زیادہ ہدف بن سکتے ہیں۔ عمران خان کی پاپولر یا مقبولیت پر مبنی سیاست بھی ان کے سیاسی مخالفین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ عمران خان کا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بیانیہ بھی عروج پر ہے جس کا اعتراف سکہ بند صحافی اور دانشور یا سیاسی مخالفین بھی دبے لفظوں یا نجی مجالس میں کرتے ہیں۔ اس لیے اگر ہدف عمران خان ہیں تو اس کا ردعمل عوامی سطح کی سیاست میں مزید شدت پیدا کرسکتا ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے معاملے میں کھیل کی ابتدا تحریک انصاف سے ہوئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد یقینی طور پر الیکشن کمیشن پر دبائو بڑھے گا کہ وہ اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے مالی معاملات کی بھی چھان بین کرکے فیصلہ سنائے۔ خود سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ الیکشن کمیشن تینوں بڑی جماعتوں کے مالی معاملات کا جائزہ لے کر اس کی شفافیت یا عدم شفافیت پر اپنا فیصلہ سنائے۔ اس لیے یہ کام محض پی ٹی آئی یا عمران خان تک محدود نہیں رہے گا، اور خود عمران خان کا دبائو بھی بڑھے گا کہ ان کے بعد باقی لوگوں کے مالی معاملات پر بھی فیصلہ کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بات بہت دور تک جائے گی اور مزید جماعتوں یا ان کی قیادتوں کو بھی قانونی محاذ پر مختلف نوعیت کی سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس ممنوعہ فنڈنگ کی بنیاد پر عمران خان کی نااہلی یا ان کی جماعت پر پابندی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اوّل، یہ کام فوری طور پر ہونے والا نہیں، اور حکومت کے بعد عدالتی محاذ پر ایک بڑی جنگ کا سامنا کرنا ہوگا، اور ان حالات میں خود عدالتوں پر بھی یہ دبائو ہوگا کہ وہ کیسے خود کو سیاسی فیصلوں میں الجھائیں گی۔ دوئم، اس کا سیاسی ردعمل بھی سخت ہوگا اور عمران خان اس معاملے میںآسانی سے گھر بیٹھنے والے نہیں، اوراُن کے حمایتی بھی سخت مزاحمت کریں گے۔ کیونکہ بہرحال اب عمران خان سیاسی سطح پر ایک حقیقت ہیں، جنہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاکستان کے موجودہ داخلی، علاقائی یا خارجی سطح کے معاملات اور بالخصوص بگڑتی معیشت جیسے سنگین معاملات کی روشنی میں کیا ہم کسی نئے سیاسی ایڈونچر یا سیاسی مہم جوئی کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ تو جواب نفی میں ہوگا۔ ایک طرف یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اور سیاسی فریقین میں بات چیت اور مفاہمت ہی مسئلے کا حل ہے، دوسری طرف اس طرز کی سیاسی مہم جوئی سے نہ صرف سیاسی تعطل پیدا ہوگا بلکہ نئی محاذ آرائی اور ٹکرائو کا بھی قومی سیاست کو سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ٹکرائو کا براہِ راست اثر قومی معیشت پر ہوگا اور ہم سیاسی و معاشی عدم استحکام سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ اس لیے ہمیں مسائل کا حل قانونی سے زیادہ سیاسی بنیادوں پر تلاش کرنا ہوگا، اور عمران خان کا مقابلہ بھی سیاسی بنیادوں پر ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ عمران خان کی سیاست نے سیاسی تقسیم پیدا کی ہے جو سیاست سے لے کر دیگر فریقین یا اداروں تک جاتی ہے، اس کی موجودگی میں ان کے خلاف کسی بھی سطح کی مہم جوئی کارگر ثابت نہیں ہوسکے گی۔ رجیم چینج کے نام پر جو کچھ ہوا اس کا بھی براہِ راست فائدہ عمران خان کو ایک بڑی سیاسی مقبولیت یا ایک مضبوط بیانیے کی صورت میں ملا، جو ان کے سیاسی مخالفین کی مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔
کچھ لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو بچانا مقصود ہے مگر نشانہ عمران خان ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ہم ماضی کے غلط تجربات کو بنیاد بناکر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں یا محض ردعمل یا جذباتیت پر مبنی سیاست ہی ہمارا محور ہے؟ یہاں سیاسی جماعتیں افراد کی بنیاد پر قائم ہیں، اور اگر ہم ان میں سے افراد کو نکال دیں تو ان جماعتوں کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ تحریک انصاف بھی عمران خان کا ہی سیاسی برانڈ ہے، اور اگر عمران خان کو نکالنے کا کوئی کھیل کھیلا جاتا ہے تو تحریک انصاف کہاں کھڑی ہوگی؟ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ سیاسی فیصلوں میں طاقت کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کا عمل منفی نتائج کا سبب بنا ہے۔ اس لیے جن لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال موجود ہے کہ وہ مائنس ون فارمولے کو بنیاد بناکر عمران خان کو نااہل کرسکتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہوگا، اور اس کے نتائج بھی مزید مسائل کو جنم دینے کا سبب بنیں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ ہم ماضی کی سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں، یا وہی پسند و ناپسند کی بنیاد پر پرانا کھیل جاری رکھ کر ملک کو مزید نئے مسائل کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کو عدالتوں پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بجائے اپنی سیاسی حکمت عملیوں پر غورکرنا ہوگا، اور ایک سیاسی بیانیہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ عمران خان کا سیاسی محاذ پر مقابلہ کیا جاسکے۔ کیونکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر وہ عمران خان کی مقبولیت پر کوئی بڑا اثر ڈال سکیں گے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ ماضی میں نوازشریف کے خلاف فیصلہ اُن کی عوامی مقبولیت کو کم نہیں کرسکا، اسی طرح عمران خان کی مقبولیت کو بھی کم نہیں کیا جاسکے گا۔ حکمران اتحاد کا بڑا چیلنج عمران خان کی سیاست کا مقابلہ کرنا اور ان پر سیاسی برتری حاصل کرنا ہے۔ یہ کام عدالتی حکمت عملی سے زیادہ سیاسی حکمت عملی سے جڑا ہوا ہے۔